• Wed, 16 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

آخرت اور فکر ِ آخرت کی تربیت

Updated: October 11, 2024, 5:31 PM IST | Syed Abul Ala Maududi | Mumbai

ہر حال میں دُنیا پر آخرت کو ترجیح دیجئے اور اپنے ہر کام میں آخرت کی فوز و فلاح کو مقصود بنایئے۔ قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ دائمی اور ابدی زندگی کا مقام آخرت ہے اور دُنیا کی اس عارضی قیام گاہ میں ہم صرف اِس امتحان کیلئے بھیجے گئے ہیں کہ خدا کے دیے ہوئے تھوڑے سے سروسامان، تھوڑے سے اختیارات اور گنے چنے اوقات و مواقع میں کام کر کے ہم میں سے کون ہے جو اپنے آپ کو خدا کی جنت میں مستقل آباد کار بننے کیلئے موزوں ثابت کرتا ہے۔

Get into the habit of reading the Qur`an with understanding, through which you will gradually see the world of the Hereafter behind the veil of this world with the eyes of faith. Photo: INN
قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کی عادت ڈالیں جس سے رفتہ رفتہ آپ کو آخرت کا عالم دُنیا کےاس پردے کے پیچھے یقین کی آنکھوں سے نظر آنے لگے گا۔ تصویر : آئی این این

ہر حال میں دُنیا پر آخرت کو ترجیح دیجئے اور اپنے ہر کام میں آخرت کی فوز و فلاح کو مقصود بنایئے۔ قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ دائمی اور ابدی زندگی کا مقام آخرت ہے اور دُنیا کی اس عارضی قیام گاہ میں ہم صرف اِس امتحان کیلئے بھیجے گئے ہیں کہ خدا کے دیے ہوئے تھوڑے سے سروسامان، تھوڑے سے اختیارات اور گنے چنے اوقات و مواقع میں کام کر کے ہم میں سے کون ہے جو اپنے آپ کو خدا کی جنت میں مستقل آباد کار بننے کیلئے موزوں ثابت کرتا ہے۔ یہاں جس چیز کا امتحان ہم سے لیا جا رہا ہے وہ یہ نہیں ہے کہ ہم صنعتیں اور تجارتیں اور کھیتیاں اور سلطنتیں چلانے میں کیا کمالات دکھاتے ہیں، عمارتیں اور سڑکیں کیسی اچھی بناتے ہیں اور ایک شاندار تمدن پیدا کرنے میں کتنی کامیابی حاصل کرتے ہیں بلکہ سارا امتحان صرف اس امر کا ہے کہ ہم خدا کی دی ہوئی امانتوں میں خدا کی خلافت کا حق ادا کرنے کی کتنی قابلیت رکھتے ہیں، باغی اور خود مختار بن کر رہتے ہیں یا مطیع و فرماں بردار بن کر؟ خدا کی زمین پر خدا کی مرضی پوری کرتے ہیں یا اپنے نفس اور اربابٌ من دون اللّٰہ کی؟ یہ امتحان ہے کہ ہم خدا کی دنیا کو خدائی معیارکے مطابق سنوارنے کی کوشش کرتے ہیں یا بگاڑنے کی؟ خدا کی خاطر شیطانی قوتوں سے کشمکش اور مقابلہ کرتے ہیں یا ان کے آگے سپر ڈال دیتے ہیں ؟
 جنت میں آدم و حوا علیہما السلام کا جو پہلا امتحان ہوا تھا وہ دراصل اسی امر میں تھا اور آخرت میں جنت کی مستقل آبادی کیلئے بنی نوع انسان کے افراد کا جو انتخاب ہوگا وہ بھی اسی فیصلہ کن سوال پر ہوگا۔ پس کامیابی و ناکامی کا اصل معیار یہ نہیں ہے کہ امتحان دینے کے دوران میں کس نے تخت شاہی پر بیٹھ کر امتحان دیا اور کس نے تختۂ دار پر، کس کی آزمائش ایک سلطنت ِعظیم دے کر کی گئی اور کسے ایک جھونپڑی میں آزمایا گیا۔ امتحان گاہ کے یہ وقتی اور عارضی حالات اگر اچھے ہوں تو یہ فوز و فلاح کی دلیل نہیں اور بُرے ہوں تو یہ خائب و خاسر رہ جانے کے ہم معنی نہیں۔ اصل کامیابی جس پر ہمیں اپنی نگاہ جمائے رکھنی چاہئے یہ ہے کہ دنیا کی اس امتحان گاہ میں جس جگہ بھی ہم بٹھائے گئے ہوں اور جو کچھ بھی دے کر ہمیں آزمایاگیا ہو اس میں ہم اپنے آپ کو خدا کا وفادار بندہ اور اس کی مرضیات کا متبع ثابت کریں تاکہ آخرت میں ہم کو وہ پوزیشن ملے جو خدا نے اپنے وفادار بندوں کے لئے رکھی ہے۔ 
 حضرات! یہ ہے اصل حقیقت۔ مگر یہ ایسی حقیقت ہے جسے محض ایک دفعہ سمجھ لینا اور مان جانا کافی نہیں ہے بلکہ اسے ہر وقت ذہن میں تازہ رکھنے کی سخت کوشش کرنی پڑتی ہے ورنہ ہر وقت اس کا امکان رہتا ہے کہ ہم آخرت کے منکر نہ ہونے کے باوجود دُنیا میں اس طریقے پر کام کرنے لگیں جو آخرت کو بھول کر، دُنیا کو مقصود بناکر کام کرنے والوں کا طریقہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آخرت ایک غیرمحسوس چیز ہے جو مرنے کے بعد سامنے آنے والی ہے۔ اس دنیا میں ہم اس کا اور اس کے اچھے بُرے نتائج کا ادراک صرف ذہنی توجہ ہی سے کرسکتے ہیں۔ اس کے برعکس دُنیا ایک محسوس چیز ہے جو اپنی تلخیاں اور شیرینیاں ہر وقت ہمیں چکھاتی رہتی ہے اور جس کے اچھے اور بُرے نتائج ہر آن ہمارے سامنے آکر ہمیں یہ دھوکا دیتے رہتے ہیں کہ اصل نتائج یہی ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے:نبیؐ کریم یوں تو اُمی تھے لیکن اس دُنیا کو پہلا تحریری دستور آپؐ نے دیا!

آخرت بگڑے تو اس کی تھوڑی بہت تلخی ہمیں صرف ایک دل کے چھپے ہوئے ضمیر میں محسوس ہوتی ہے بشرطیکہ وہ زندہ ہو مگر دنیا بگڑے تو اس کی چبھن ہمارا رونگٹا رونگٹا محسوس کرتا ہے اور ہمارے بال بچے، عزیز واقارب، دوست آشنا اور سوسائٹی کے عام لوگ، سب مل جل کر اسے محسوس کرتے اور کراتے ہیں۔ اسی طرح آخرت سنورے تواس کی کوئی ٹھنڈک ہمیں ایک گوشۂ دل کے سوا کہیں محسوس نہیں ہوتی اور وہاں بھی صرف اس صورت میں محسوس ہوتی ہے جب کہ غفلت نے دل کے اس گوشے کو سن نہ کر دیا ہو۔ مگر اپنی دُنیا کا سنوار ہمارے پورے وجود کیلئے لذت بن جاتا ہے، ہمارے تمام حواس اس کو محسوس کرتے ہیں اور ہمارا سارا ماحول اس کے احساس میں شریک ہوجاتا ہے۔ 
 یہی وجہ ہے کہ آخرت کو بطور ایک عقیدے کے مان لینا چاہے بہت مشکل نہ ہو، مگر اسے اندازفکر اور اخلاق و اعمال کے پورے نظام کی بنیاد بناکر زندگی بھر کام کرنا سخت مشکل ہے اور دُنیا کو زبان سے ہیچ کہہ دینا چاہے کتنا ہی آسان ہو، مگر دل سے اس کی محبوبیت اور خیال سے اس کی مطلوبیت کو نکال پھینکنا آسان کام نہیں ہے۔ یہ کیفیت بڑی کوشش سے حاصل ہوتی ہے اور پیہم کوشش کرتے رہنے سے قائم رہ سکتی ہے۔ 
فکرآخرت کی تربیت کے ذرائع
 آپ پوچھیں گے کہ یہ کوشش ہم کیسے کریں اور کن چیزوں سے اس میں مدد لیں ؟ میں عرض کروں گا کہ اس کے بھی دو طریقے ہیں : ایک فکری طریقہ اور دوسرا عملی طریقہ جن کا ذکر درج ذیل سطور میں آرہا ہے:
 فکری طریقہ یہ ہے کہ آپ صرف اٰمَنْتُ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ کہہ دینے پر اکتفا نہ کریں بلکہ قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کی عادت ڈالیں جس سے رفتہ رفتہ آپ کو آخرت کا عالم دُنیا کے اس پردے کے پیچھے یقین کی آنکھوں سے نظر آنے لگے گا۔ قرآن کا شاید کوئی ایک صفحہ بھی ایسا نہیں ہے جس میں کسی نہ کسی ڈھنگ سے آخرت کا ذکر نہ کیا گیا ہو۔ جگہ جگہ آپ کو اس میں عالمِ آخرت کا نقشہ ایسی تفصیل کے ساتھ ملے گا کہ جیسے کوئی وہاں کا آنکھوں دیکھا حال بیان کر رہا ہو، بلکہ بہت سے مقامات پر یہ نقشہ کشی ایسے عجیب طریقہ سے کی گئی ہے کہ پڑھنے والا تھوڑی دیر کیلئے اپنے آپ کو وہاں پہنچا ہوا محسوس کرنے لگتا ہے اور بس اتنی کسر رہ جاتی ہے کہ اس مادی دنیا کا دھندلا سا پردہ ذرا سامنے سے ہٹ جائے تو آدمی آنکھوں سے وہ سب کچھ دیکھ لے جو الفاظ میں بیان کیا جا رہا ہے۔ پس قرآن کو بالالتزام سمجھ کر پڑھتے رہنے سے بتدریج آدمی کو یہ کیفیت حاصل ہوسکتی ہے کہ اس کے ذہن پر آخرت کاخیال مسلّط ہوجائے اور وہ ہروقت یہ محسوس کرنے لگے کہ اس کی مستقل قیام گاہ موت کے بعد کا عالَم ہے جس کی اسے دُنیاکی عارضی زندگی میں تیاری کرنی ہے۔ (باقی صفحہ ۹؍پر)
بقیہ: آخرت اور فکر آخرت کی تربیت
اس ذہنی کیفیت کو مزید تقویت حدیث کے مطالعے سے حاصل ہوتی ہے جس میں بار بار ’’حیات بعدالموت‘‘ کے حالات بالکل ایک چشم دید مشاہدے کی شان سے آدمی کے سامنے آتے ہیں اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐؐ کے صحابہ کرامؓ کس طرح ہر وقت آخرت کے یقین سے معمور رہتے تھے۔ 
 پھر اس کیفیت کو راسخ کرنے میں مدد زیارت قبور سے ملتی ہے جس کی واحد غرض نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتائی ہے کہ آدمی کو اپنی موت یاد رہے اور وہ دنیا کی اس متاعِ غرور کے ساتھ مشغول رہتے ہوئے اس بات کو نہ بھول جائے کہ آخرکار اسے جانا وہیں ہے جہاں سب گئے ہیں اور روز چلے جا رہے ہیں۔ 
 اس کے بعدعملی طریقے کو لیجئے۔ آپ کو دنیا میں رہتے ہوئے اپنی گھریلو زندگی میں، اپنے محلے اور اپنی برادری کی زندگی میں، اپنے حلقۂ احباب اورحلقۂ تعارف میں، اپنے شہر اور اپنے ملک کے اُمور اور معاملات میں، اپنے لین دین اور اپنی معاش کے کاموں میں، غرض ہر طرف ہرآن قدم قدم پر ایسے دوراہے ملتے ہیں جن میں سے ایک راستے کی طرف جانا ایمان بالآخرۃ کا تقاضا ہوتا ہے اور دیگر کو اختیار کرنا دنیا پرستی کا تقاضا۔ ایسے ہرموقع پر پوری کوشش کیجئے کہ آپ کا قدم پہلے راستے ہی کی طرف بڑھے اور اگر نفس کی کمزوری سے یا غفلت کی وجہ سے کبھی دوسرے راستے پر آپ چل نکلے ہوں، تو ہوش آتے ہی پلٹنے کی کوشش کیجئے۔ 
 اس کے ساتھ ہی وقتاً فوقتاً اپنا محاسبہ کرتے رہئے کہ کتنے مواقع پر دنیا آپ کو کھینچنے میں کامیاب ہوئی اور کتنی بار آپ آخرت کی طرف کھنچنے میں کامیاب ہوئے۔ یہ جائزہ آپ کو خود ہی ناپ تول کر بتاتا رہے گا کہ آپ کے اندر فکر ِآخرت نے کتنا نشوونما پایا اور ابھی کتنی کچھ کمی آپ کو پوری کرنی ہے۔ جس قدر کمی آپ محسوس کریں اسے خود ہی پورا کرنے کی کوشش کریں۔ بیرونی مدد آپ کو زیادہ سے زیادہ بہم پہنچ سکتی ہے تو اس طرح کہ دنیا پرست لوگوں کو چھوڑ کر ایسے صالح لوگوں سے ربط بڑھائیں جو آپ کے علم میں دُنیا پر آخرت کو ترجیح دینے والے ہوں۔ مگر یاد رکھیے کہ آج تک کوئی ذریعہ ایسا دریافت نہیں ہوسکا ہے جو آپ کے اندر خود آپ کی اپنی کوشش کے بغیر کسی صفت کو گھٹاسکے یا بڑھا سکے یا ایسی کوئی نئی صفت آپ میں پیدا کرسکے جس کا مادہ آپ کی طبیعت میں موجود نہ ہو۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK