• Sun, 24 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

دل کی بیماریوں کا علاج

Updated: July 05, 2024, 3:46 PM IST | Sheikh Sharafuddin Ahmed Yahya Muniri | Mumbai

تمہارے معاملات میں جب تک خلوص نہ ہو ، قرآن کریم کی رو سے وہ قابل قبول نہیں ہیں۔ خلوص کا مقام درد بھرا دل ہے۔

There is no other way to reach God`s dargah closer than the path of knowledge. Photo: INN
درگاہِ خداوندی تک پہنچنے کا علم کے راستے سے نزدیک تر اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ تصویر : آئی این این

جو معاملات قرآن کریم کی روشنی میں جائز نظر نہ آئیں، وہ بے سود اور لاحصل ہیں، اور وہ خواہشیں جن کو نبوت کی سند جواز حاصل نہ ہو وہ محض باطل ہیں، اور وہ طریقے جو دین کے راستے سے مختلف ہیں وہ مطلق ضلالت اور گمراہی ہیں، اور وہ کوششیں جو دین کی رہنمائی کے سوا ہوں وہ مردود ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’جس نے ہمارے دین میں وہ بات داخل کی جس کا ثبوت ہم سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔ ‘‘
 خلوص اور تعلق بالقرآن: تمہارے معاملات میں جب تک خلوص نہ ہو، قرآن کریم کی رو سے وہ قابل قبول نہیں ہیں۔ خلوص کا مقام درد بھرا دل ہے، اور جہاں کہیں اخلاص کی خوشبو پائی جاتی ہے قرآن کریم خوشخبری دیتا ہے، خواہ وہ جنات کے حق میں ہو یا انسان کے۔ چنانچہ سورہ الجن (۱۔ ۲) میں فرمایا : ’’انہوں نے کہا: بیشک ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے، جو ہدایت کی راہ دکھاتا ہے، سو ہم اس پر ایمان لے آئے ہیں، اور اپنے رب کے ساتھ کسی کو ہرگز شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ ‘‘ 
 وہ لوگ جوطالبان حق ہیں ان کے زخمی دل کا مرہم قرآن ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
 ’’ہم اِس قرآن کے سلسلہ تنزیل میں وہ کچھ نازل کر رہے ہیں جو ماننے والوں کے لیے تو شفا اور رحمت ہے، مگر ظالموں کے لیے خسارے کے سوا اور کسی چیز میں اضافہ نہیں کرتا۔ ‘‘ (الاسراء:۸۲)
 سالکانِ دین کا رہبر قرآن پاک ہی ہے، کیونکہ فرمایا ’’یہی سیدھا راستہ دکھاتا ہے‘‘ (جن:۲) اور جب کسی کو قرآن کی رہبری حاصل ہوگئی تو اگر کوہ قاف بھی اس کے سینے کا پیوند ہو تو جھکنے پر مجبور ہوجائے گا:
 ’’اگر ہم یہ قرآن کسی پہاڑ پر نازل فرماتے تو (اے مخاطب!) تو اسے دیکھتا کہ وہ اﷲ کے خوف سے جھک جاتا، پھٹ کر پاش پاش ہوجاتا۔ ‘‘  (الحشر:۲۱)
 پس، جس کام کی اجازت قرآن نہیں دیتا وہ راہ دین کی راہ نہیں ہے، وہ تو مطلق نابینائی ہے۔ برج قدیم سے جو آفتاب طلوع ہوتا ہے وہ پہلے آسمانِ دل پر چمکتا ہے، اس لئے سورہ قٓ میں فرمایا:
 ’’بیشک اس میں یقیناً انتباہ اور تذکّر ہے اس شخص کے لئے جو صاحبِ دل ہے۔ ‘‘ (سورہ قٓ :۳۷)

یہ بھی پڑھئے:زندگی اللہ کی امانت ہے، جان دینا اور جان لینا اللہ ہی کا حق ہے

شریعت پر عمل: شریعت کے راستے کے شہ سوار زندہ روحوں کے مالک ہوتے ہیں۔ ان کی باتیں سراسر زندگی سے عبارت ہوتی ہیں اور ان کی زندگیاں غم و اندوہ کے باوجود پاک و صاف ہوتی ہیں۔ ان کو حزن و ملال سے بے قراری نہیں ہوتی اور وہ دنیا والوں کے لئے باعث رافت و راحت ہوتے ہیں۔ ان کے درخت کے محبت کے پھلوں سے سب مستفید ہوتے ہیں ۔ ان کی کوئی بات مسترد نہیں ہوتی کیونکہ وہ غلط افکار اور رسوم سے دستبردار ہوتے ہیں اور خواہشات نفس کو تیغ انکار سے ختم کردیتے ہیں۔ اور جب تک ایسا نہ کیا جائے تمہارے دل کی گہرائی سے حکمت کے چشمے کبھی نہیں پھوٹیں گے اور علم حقیقی کا لطف تم کو حاصل نہ ہوگا۔ 
 فکر آخرت:  اسے یاد رکھو کہ جس کے دل کی آنکھ آج روشن نہ ہوئی، کل بھی نہ ہوگی۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :’’اور جو شخص اس (دنیا) میں (حق سے) اندھا رہا سو وہ آخرت میں بھی اندھا اور راہِ (نجات) سے بھٹکا رہے گا۔ ‘‘ (الاسراء:۷۲)
  اے بھائی، اس دن کو یاد رکھو جس دن دلوں کے پرکھنے والے دلوں کی کسوٹی پر پرکھیں گے اور جو کچھ سینوں میں ہےآشکار ہوجائے گا، تحقیق کرنے والوں کو دلوں پر مقرر کردیا جائے گا تاکہ ہر ایک کے باطن سے تمام چیزیں نکال کر محفل قیامت میں پیش کردیں۔ یہ لوگ جانچ پڑتال کے بعد کہیں گے ’’خدایا! ہم نے کسی جگہ بھی عہد کی وفاداری نہیں پائی۔ ارشاد ہوگا : قلب من لا عہد لہ (جس سینے میں ہمارے دین کی وفا کا عہد نہیں ہے وہ ہمارے پاس آنے سے روک دیا جائے)۔ ‘‘ اور اس طرح روک دیا جائے کہ کبھی ہمارے پاس نہ پھٹکنے دیا جائے۔ جیسا کہ کسی نے کہا ہے :    (باقی صفحہ ۸؍پر)
(ترجمہ) جب قیامت کے دن تم کو اٹھائیں گے تو تمہارے اعمال کا دفتر تمہاری گردن میں لٹکادیں گے۔ جب تمہارے سونے کو پگھلایا جائے گا تو اس کا دھواں خود بتادے گا کہ تم خالص سونا ہو یا تانبا ملا ہوا ہے۔ 
 اتباع ِ رسولؐ: اے بھائی، اب اٹھ بیٹھو، ٹھہرنے کی جگہ نہیں ہے اور اخلاق کا دامن ہاتھ سے چھوڑنے کا موقع نہیں ہے۔ اس ذلت کی مصیبت میں خودپرستی عزت نہیں ہے اور تقدیر کی شاہراہ پر سجدۂ تسلیم بجالانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے اور ہر شخص کو ہوا و ہوس کے پیچھے چلنے میں کوئی فائدہ نہیں اور کسی کو رسول اللہ ﷺ کی اتباع کرنے میں ہرگز کوئی نقصان نہیں۔ 
 (مناجات): (ترجمہ) بارالٰہا میرے دل کو نور سے منور کردے۔ محمد رسول اللہ ﷺ کو میرا شفیع بنا دے۔ میرے دل و جان کو ان کے نقش قدم پر قربان کردے۔ پرہیزگاری کے ساتھ میرا منہ ان کے دربار کی طرف پھیر دے۔ عقبیٰ میں ان کا نام لینے کی توفیق دے۔ دنیا میں بھی ان کا دامن ہمارے ہاتھ میں رکھ۔ 
  حضـرت عطار ؒ فرماتے ہیں : (مثنوی)
 (ترجمہ) اگر دونوں جہاں سے تو کنارہ بھی کرلے تو بغیر نور محمدؐ کے کوئی راستہ نہ پائے گا۔ اگر تو رسول اللہ ﷺ کے راستے کی خاک ہوجائے، تو تیری پاکی کے مقابلے میں دونوں جہاں خاک ہوجائیں، اور اگر تو فلسفی ہے تو دور ہوجا اور اپنی عقل و خرد کے پردوں میں مہجور پڑا رہ۔ اگر اس دیوار معرفت پر اپنی عقل و سمجھ سے گل بوٹے بنائے گا تو آتش پرست ہوکر زنار باندھ لے گا۔ ‘‘ 
علم دین کا حصول
حاصل کلام: ہر وہ معاملہ جو بغیر علم کے ہے، باطل ہے اور ہر وہ ریاض و مجاہدہ جو فتوائے شریعت کے خلاف ہے،  ضلالت و گمراہی ہے اور شیطان کا دین و مذہب ہے۔ یاد رکھو، نیک بختیوں کے تمام دروازے معرفت کے حق میں علم ہی سے پہچانے جاسکتے ہیں۔ دین و سلطنت کی عظمت کے اسرار، اسلام اور دعوت ِ انبیاء کی عزت، اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور نشانیوں کی شناخت، معصوموں کی پاک دامنی کے مرتبے، مقربان بارگاہِ الٰہی کے مختلف درجات، ذریت آدم کی فطرت کے راز، معیوب لوگوں کے عیبوں کے بھید، ایمان والوں کے حقوق، شریعت کی تعظیم، احکامات کی بجاآوری اور منہیات سے پرہیز، یہ تمام باتیں علم ہی کے ذریعے پہچانی جاسکتی ہیں اور علم ہی کے میدان میں پائی جاسکتی ہیں۔ جب تک انسان اپنی جہالت کے بیابان سے باہر نہیں نکلتا اور علم کے سبزہ زار میں قدم نہیں رکھتا، ایمان کی یہ سعادتیں اس میں ظاہر نہیں ہوتیں۔ دیکھو، بارگاہِ خداوندی میں صفت جہالت سے بڑھ کر کوئی ذلیل اور دشمن نہیں اور درگاہِ خداوندی تک پہنچنے کا علم کے راستے سے نزدیک تر اور کوئی راستہ نہیں ہے: ’’علم اللہ تعالیٰ کا قریب ترین دروازہ ہے اور جہالت تمہارے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان سب سے بڑا حجاب ہے۔ ‘‘ جس طرح علم دین تمام سعادتوں کا میدان ہے، اسی طرح جہالت تمام گمراہیوں کی وادی ہے۔ 
مجاہدۂ نفس
 اے بھائی، وہ فرمارہے ہیں : ’’اور اﷲ (کی محبت و طاعت اور اس کے دین کی اشاعت و اقامت) کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ اس کے جہاد کا حق ہے۔ ‘‘ (الحج:۷۸) تم اپنے نفس کے کوچے میں قدم نہ رکھو کیونکہ وہاں خودبینی کا داروغہ تمہیں پکڑلے گا۔ ہماری گلی میں آجاؤ۔ تم ہمارے عزیز ہو۔ تم گرے پڑے تھے، ہم نے تمہیں اٹھایا۔ تم کم ہمت تھے، ہم نے تم کو نوازا۔ اگر تم اپنی گلی میں قدم رکھو تو زخم و تکلیف سے تمہیں ہرگز نجات نہ ملے گی۔ اگر تم چاہتے ہو کہ اپنی ہی گلی میں پڑے رہو تو یاد رکھو اپنی ساری پونجی گنوا دوگے اور کوئی نفع ہاتھ نہ آئے گا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK