مذاہب کے مذاکرے اور مطالعہ سے معاشرے میں امن و امان کی راہ ہموار ہوتی ہے ۔مذاہب کے مطالعہ کی روشنی میں ہمیں یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ مطالعہ معاشرے اور سماج پر کیا اثرات مرتب کرتا ہے اور انسانی مسائل کے حل میں کسی مذہب کے پاس کیا کیا تعلیمات موجود ہیں۔
معاشرتی ہم آہنگی کے لئے اس وقت سب سے کار آمد اگر کوئی چیز ہے تو وہ صرف مطالعہ ٔ مذاہب و ادیان ہے۔ تصویر : آئی این این
عہد حاضر کے بدلتے رویوں میں یہ چیز بڑی شدت سے محسوس کی جارہی ہے کہ سماج میں ہر آن، ان خطوط و نقوش اور اقدامات و عوامل کی تیزی سے تشہیر و ترویج ہونی چاہئے جو معاشرے کے اندر امن و شانتی اور احترام انسانیت کی فضا کو ہموار کریں۔ آج ہر حساس اور باشعور فرد جب عالمی سطح پر نظر ڈالتا ہے تو اسے عجیب طرح کی بے چینی اور عدم اطمینان محسوس ہوتا ہے۔ اس کی واضح مثال فلسطین کےدلخراش اور دلدوز سانحات و واقعات ہیں ۔ تحفظ نفس اور نام نہاد حقوق انسانی کے تمام علمبردار خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ۔ غزہ میں نہ صرف انسانیت لہو لہان ہے بلکہ ہر آنگن میں موت رقص کررہی ہے۔ غزہ کی صورتحال یقیناً قابل رحم ہے۔ درندہ صفت انسانوں نے آ لام و مصائب کی نہ ختم ہونے والی رات شروع کردی ہے اور ظلم و ستم کا ننگا ناچ جاری ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ غزہ میں امن کی بحالی کے لئے اس سطح کی کاوشیں نہیں ہورہی ہیں جن کی ضرورت تھی۔ اگر واقعی عالمی برادری اسرائیل پر دباؤ بناتی تو یقیناً جنگ بندی ہوسکتی تھی۔ عالم عرب کی تو اور بری صورتحال ہے، انہوں نے اہل فلسطین کے لئے جو رویہ اختیار کیا ہے وہ تو مزید افسوسناک ہے۔ غزہ میں جس طرح سے آتش و آہن کا کھیل کھیلا جا رہا ہے وہ خوفناک و خطر ناک ہے اس لئے اس لئے جنگ بندی بہت ضروری ہے۔
اسی طرح سے عہد حاضر میں جہاں مواصلات و ممارست (مشق، تجربہ) کے وسائل دن بدن بڑھ رہے ہیں اور پوری دنیا ایک گاؤں میں تبدیل ہوچکی ہے وہیں وہی معاشرے جو تکثیری اور تعدد و تنوع کے لئے جانے جاتے ہیں ، ان میں مذہب و دھرم اور ایک دوسرے کی تہذیب و تمدن اور ثقافت و کلچر سے اجنبیت اور عدم واقفیت سے بہت سارے مسائل پیدا کئے ہیں ۔ مذاہب و ادیان کی عدم واقفیت، سماجی انتشار و افتراق کا باعث بنتی ہیں اور معاشرے میں یہ رویہ بڑا ضرر رساں ثابت ہوتا ہے۔ اس لئے باہمی تعلقات کی بحالی اور سماجی اتحاد و یگانگت کو فروغ دینے کیلئے بھی ادیان و مذاہب کی تعلیمات اور ان کے مزاج و روح سے واقفیت پیدا کرنا بہت ضروری ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج بھی ہمارے سماج میں ایسے عناصر موجود ہیں جو مطالعہ ادیان سے وابستہ جملہ کاوشوں کو نہ صرف غیر ضروری سمجھتے ہیں بلکہ وہ ان عوامل کو معاشرے کے لئے نقصان دہ متصور کرتے ہیں ۔ یہ رویہ بھی بڑا حیرت انگیز ہے کہ ہمارے پڑوس میں یا ہمارے محلے اور گلی میں مختلف الخیال افراد اور مختلف المذاہب لوگ رہتے ہوں اور ہم ان کی مذہبی اور دینی رسومات سے اجنبی بنے رہیں یا ان کی نفسیات کو سمجھنے کی کوشش بھی نہ کریں ۔ آج کی دنیا میں وہی معاشرے تاریخ رقم کرتے ہیں جو علم و تحقیق کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں اور سماج میں یکجہتی پیدا کرنے کے لئے بنیادی اقدامات کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: ہمارا ملی فریضہ ہے کہ ہوشمندی اور سمجھداری کے ساتھ ووٹ دیں
ایک دوسرے کو سمجھنے کے لئے جدو جہد کرتے ہیں ۔ دیگر تہذیبوں سے عدم واقفیت کے نتائج ہمیشہ مایوس کن ہوتے ہیں ۔ ڈاکٹر مختار احمد انصاری نے ۱۹۲۷ء میں آل انڈیا کانگریس کے اجلاس میں ہم وطنوں اور ہندوستانی سماج میں پائے جانے والے مذاہب و ادیان کی بابت واقفیت پیدا کرنے پر زور دیا تھا:
’’ ایک تعلیم یافتہ ہندوستانی کو حالات نے یورپی کلچر کا مطالعہ کرنے پرمجبور کردیا ہے، مگر وہ اپنے پڑوس میں رہنے والے ہم وطنوں کے کلچر سے کوئی واقفیت نہیں رکھتا۔ ضرورت ہے کہ اس خطرناک اجنبیت اور مہیب ناواقفیت کو ختم کیا جائے۔ ‘‘
یہاں یہ وضاحت بھی ضروری معلوم ہوتی ہے کہ مسلم سماج میں مطالعہ مذاہب کو سمجھنے کے لئے اتنا کام نہیں ہوا جتنی ہندوستان جیسے تکثیری سماج میں ضرورت تھی۔ گنتی کے چند افراد ہیں جنہوں نے اس دلچسپ اور سنجیدہ موضوع پر کام کرکے معاشرتی تنوع کو محفوظ کیا ہے۔ برادرانِ وطن کے معاشرے میں بھی اسلام کو سمجھنے کے لئے مثبت اور تعمیری سعی نہیں کی گئی ہے۔ گویا خلیج اور تفریق دونوں طرف سے ہے۔ اس لئے ہمارے برادران وطن اور ہندو دانشوروں کو بھی اسلامی تہذیب و معاشرت اور تعلیمات و ہدایات کا معروضی مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے تبھی جاکر کسی درست اور مثبت نتیجہ پر پہنچا جا سکتا ہے۔ مطالعہ ادیان کا بھی یہی تقاضا ہے کہ ہندوستان میں تمام مذاہب کے حاملین باہم ایک دوسرے کے مذاہب و افکار کا مطالعہ کریں تبھی جاکر ان تمام غلط فہمیوں اور شکوک وشبہات کا ازالہ ہوسکے گا جو ہمارے درمیان دانستہ طور پر پھیلائی گئیں ہیں۔ یہ بات برحق ہے کہ جب ہم مخالف نظریات اور دیگر تہذیبوں کو سمجھنے کی کوشش کریں گے تو بہت ساری باتیں اور چیزیں ایسی بھی ملیں گی جو ہمارے نظریات و افکار سے متصادم ہوں گی، مگر ہمیں ان کو برداشت کرنا ہے۔ اس کے نتائج یقینی طور پر معاشرے میں مثبت مرتب ہوں گے۔
یاد رکھئے! برداشت و عدم برداشت کا کسی بھی فرد و قوم کی ذاتی زندگی سے لے کر اجتماعی زندگی تک بہت بڑا کردار ہوتا ہے۔ عدم برداشت کی عادت نے کئی معاشروں کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ آج کی دنیا کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے اور خصوصاً نوجوانوں میں، جنونیت، عدم ہم آہنگی اورعدم برداشت بڑھتی جارہی ہے۔ عالمی سطح پر عدم برداشت کے واقعات میں اضافہ کا سبب کا سنجیدگی سے تجزیہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ہمارے درمیان مذہبی اور فقہی اختلافات ہیں، یہی اختلاف ایک دوسرے سے نفرت کا باعث بنتے ہیں۔ مذہبی اور فقہی اختلافات نے عدم برداشت کا جو تصور پیش کیا ہے وہ لازمی طور پر غیر یقینی ہے۔ یہ تصور معاشرے سے اسی وقت معدوم کیا جا سکتا ہے جب ہم اپنی سوچ و فکر اور مطالعہ کے انداز میں معروضیت و توازن و اعتدال قائم کریں گے۔
معاشرتی ہم آہنگی کے لئے اس وقت سب سے کار آمد اگر کوئی چیز ہے تو وہ صرف مطالعہ مذاہب و ادیان ہے۔ اس علم کی بدولت انسان اپنی سوچوں کے محدود دائرے سے نکل کر آفاقی عالم کی ہواخوری کرتا ہے۔ اخلاقی بلندی کے ساتھ ساتھ اکثریت کی بھلائی کے لئے کا م کرتا ہے اور اسلام کی تعلیمات تو سراسر تفکر و تدبر کے ذریعے مطالعہ کائنات کی دعوت دیتی ہیں ۔ مذاہب کے مذاکرے اور مطالعہ سے معاشرے میں امن و امان کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ مذاہب کے مطالعہ کی روشنی میں ہمیں یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ مطالعہ معاشرے اور سماج پر کیا اثرات مرتب کرتا ہے اور انسانی مسائل کے حل میں کسی مذہب کے پاس کیا کیا تعلیمات موجود ہیں۔
تصور کیجئے! ایک ایسا ملک جو اپنے دامن میں ثقافتوں ، مذاہب، زبانوں اور رنگوں کی شاندار وراثت کے لئے جانا جاتا ہو، یہی نہیں بلکہ اس کے ماضی کے آثار و نقوش قابل فخر اور اس کی تاریخ و تہذیب کا مطالعہ دلچسپی کا باعث ہو، آج اسی سرزمین پر نفرت اور اجنبیت کی لہر چل رہی ہے۔ اس لئے ہر شخص کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہندوستانی سماج سے ان حالات کو دور کرنے کیلئے آگے آئے جو ملک کی سالمیت اور سماجی بقائے باہم کیلئے خطرہ ہیں ۔ بڑھتی نفرت کا خاتمہ اور اس کے خوفناک اثرات سے ہندوستانی سماج کو اسی وقت بچایا جا سکتا ہے جب کہ ہم ایک دوسرے کی تہذیب و تمدن اور مذہب و افکار سے آشنا ہوں گے۔ اختلاف آراء اور مذہبی معاملات میں اختلافات کو برداشت کرنے کا ہر ایک کو اپنے اندر قوت پیدا کرنی ہوگی۔
ذرا غور کیجئے! آج قومی اور بین الاقوامی میڈیا میں عمداً ان موضوعات کو زیر بحث لایا جاتاہے جن کا تعلق کسی خاص کمیونٹی یا مذہب سے ہوتا ہے۔ مذہب و قوم کے نام پر کئی برسوں سے اشتعال پیدا کرنے اور جذبات و احساسات کو آزار پہنچانے کا یہ کردار عالمی سطح پر بھائی چارگی اور اخوت و محبت کو بری طرح مخدوش کررہا ہے۔ اس لئے فرقہ پرست طاقتوں اور جانبدار ذرائع ابلاغ کے اس کھیل کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اگر معاشرے کو پر امن بقائے باہم کے لئے تابناک نمونہ بنانا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ ہم مشترکہ طور پر اقدار کا احترام کریں ، ایک دوسرے کا خیال رکھیں ، حقوق کا تحفظ کریں اور مذہبی و دینی متون و شخصیات کے احترام کو یقینی بنائیں ۔ یہ کردار ہم معاشرے میں اسی وقت ادا کرسکتے ہیں جب ہم اپنے افکار ونظریات کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ دیگر نظریات کو بھی بلا کسی تعصب و تنگ نظری کے سمجھیں گے۔ گویا مذاہب و ادیان کو سمجھنا عہد حاضر کی ناگزیر ضرورت ہے۔