جو محتاج اور ضرورتمند دین کے کام کی وجہ سے کسب ِ معاش میں مستقل طورپر لگنے کے موقف میں نہ ہوں، وہ صدقات اور اعانتوں کے زیادہ مستحق ہیں۔
EPAPER
Updated: March 08, 2025, 1:15 PM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai
جو محتاج اور ضرورتمند دین کے کام کی وجہ سے کسب ِ معاش میں مستقل طورپر لگنے کے موقف میں نہ ہوں، وہ صدقات اور اعانتوں کے زیادہ مستحق ہیں۔
تعلیم انسان کے لئے سب سے بڑی نعمت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جو پہلی وحی نازل ہوئی، اس میں ایک سے زیادہ دفعہ تعلیم کا ذکر موجود ہے، تعلیم کے دوپہلو ہیں، ایک: دنیا میں پیش آنے والی ضرورتوں سے متعلق علم، یہ بھی ضروری ہے، اور اسلام نے اس کی بھی حوصلہ افزائی کی ہے، دوسرے: آخرت کی ضرورتوں سے متعلق علم، جس کی اہمیت پہلی قسم کے علم سے کہیں بڑھ کر ہے۔ ضرورت کے مطابق اس علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے؛ لیکن انسان کی ایک فطری کمزوری یہ ہے کہ نقد کی مقدار چاہے کم ہو، وہ اس کو اُدھار سے زیادہ اہمیت دیتا ہے؛ اسی لئے جن علوم سے دنیا میں انسان پیسے بنا سکتا ہے، اس کے لئے تو انسان کسی ترغیب کے بغیر بھی محنت کرتا ہے؛ لیکن آخرت سے متعلق علم جس کو ہم ’’ دینی علم‘‘ کہتے ہیں، اس کی طرف توجہ نہیں ہوتی؛ اس لئے ہندوستان میں ہمارے بزرگوں نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ جو طلبہ دینی تعلیم حاصل کریں اور ان کے سرپرستوں میں ان کے تعلیمی اخراجات پورا کرنے کی صلاحیت نہ ہو تو ان کی تعلیم میں زکوٰۃ اور عطیات سے مدد کی جائے اور اس طرح دینی تعلیم کا نظام چلتا رہے۔ افسوس کہ بعض حقیقت ناآشنا لوگ اس پر اعتراض کرتے ہیں ؛ بلکہ وہ اس کی مخالفت کرتے ہیں، یہ بحیثیت مجموعی مسلمانوں کے لئے بہت ہی نقصان دہ سوچ ہے۔
اس مسئلہ پر غور کرنے کے لئے دو باتیں پیش نظر رکھنی ضروری ہیں : اول یہ کہ زکوٰۃ کا مقصد کیا ہے ؟ اور زکوٰۃ کی ادائیگی میں کیا رعایت ملحوظ ہے ؟ دوسرے کیا یہ مقصد دینی مدارس کو زکوٰۃ ادا کرنے سے حاصل ہوجاتا ہے ؟ واضح رہے کہ قرآن مجید نے زکوٰۃ کے آٹھ مصارف ذکر کئے ہیں، فقیر، مسکین یعنی غریب اور بہت زیادہ غریب، عاملین یعنی زکوٰۃ کی جمع و تقسیم کا کام انجام دینے والے لوگ، مؤلفۃ القلوب یعنی وہ نومسلم جن کو اسلام پر استقامت کے لئے یا وہ غیر مسلم جن کو اسلام کی ترغیب کے لئے کچھ دیا جائے، غلام، مقروض، اﷲ کی راہ میں جہاد کرنے والے اور مسافر۔ (التو بۃ: ۶۰ )۔ ان آٹھ مصارف میں پانچ وہ ہیں جن کا مقصد غرباء اور حاجت مندوں کی ضرورت پوری کرنا ہے، فقیر و مسکین سے عام محتاج مراد ہیں، غلام، مقروض اور مسافر سے مخصوص نوعیت کے اور وقتی طورپر پریشان حال لوگوں کی حاجت براری مقصود ہے، مؤلفۃ القلوب اور مجاہدین فی سبیل اﷲ کی رعایت کا منشاء اسلام کی سربلندی اور اعلاء کلمۃ اﷲ ہے، ’’عاملین ‘‘کی مد زکوٰۃ سے متعلق انتظامی اُمور کی انجام دہی اور اس کے اخراجات کی تکمیل کیلئے ہے، پس ان مصارفِ زکوٰۃ پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ زکوٰۃ کے بنیادی طورپر دو مقاصد ہیں : غربا کی حاجت پوری کرنا، اسلام کی بلندی اور اس کی دعوت و اشاعت اور حفاظت و صیانت کے نظام کو تقویت پہنچانا۔
مصرف زکوٰۃ کی روح کو سامنے رکھ کر دینی مدارس کے نظام اور اس کے کردار پر غور کیجئے… دینی مدارس کی حیثیت عام درس گاہوں کی نہیں ہے، عام درس گاہوں کا مقصد بچوں کو ایسی تعلیم سے آراستہ کرنا ہے جو آئندہ ان کو ملازمت دلائے اور زیادہ سے زیادہ کمانے کے لائق بنائے، جس تعلیم سے جس قدر مستقبل کی معاشی فلاح و بہبود متعلق ہے، وہ اسی قدر لوگوں کے لئے مرکز توجہ بھی ہے اور گراں بھی؛ بلکہ سرکاری تعلیم گاہوں کی زبوں حالی اور بے سروسامانی نے اب تعلیم کو ایک نہایت ہی نفع بخش اور نفع رساں تجارت بنا دیا ہے؛ لیکن دینی مدارس کی حیثیت اس سے مختلف ہے، خاص کر ہندوستان میں اس کا ایک خاص پس منظر ہے۔
مسلم دورِ حکومت تک وہ علوم جن کو آج ’’ جدید علوم ‘‘ کہا جاتا ہے، اس قدر شاخ درشاخ نہ ہوتے تھے، جیساکہ آج ہم دیکھ رہے ہیں ، بعض فنون مدون ہوچکے تھے؛ لیکن ان پر ایک آدھ کتابوں کی تدریس کے ساتھ تجربہ کافی سمجھا جاتا تھا، بعض فنون مدون بھی نہ ہوئے تھے اور ان کے تجربات سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے آئے تھے، جیسے مختلف شعبوں کی انجینئرنگ اور زراعت وغیرہ، اس کے لئے حکومت کی طرف سے عمومی نوعیت کی درس گاہیں ہوتی تھیں، ان میں زبان، مذہب، اخلاق اور طب وغیرہ کی تعلیم مشترک طورپر ہوتی تھی اور مختلف قوموں کے لوگ مل جل کر تعلیم حاصل کیا کرتے تھے۔
یہ بھی پڑھئے:زکوٰۃ دیجئے،نہ دینے والوں کیخلاف بڑی سخت وعید ہے!
جب ہندوستان سے مسلمانوں کے اقتدار کا سورج غروب ہونے لگا اور انگریز نہایت چالبازی کے ساتھ اپنے قدم بڑھانے لگے، تو انہوں نے سونے کی اس چڑیا کے بال و پر نوچنے کو کافی نہ سمجھا ؛ بلکہ ہندوستان کو مستقل طورپر اپنے زیر اثر رکھنے کی غرض سے رعایا کی فکر و نظر میں تبدیلی کو بھی ضروری سمجھا اور اس کے لئے چہاررخی تدبیریں کیں، چونکہ ان کو زیادہ خطرہ مسلمانوں سے تھا جو اُن کے پہلے اقتدار میں تھے، اس لئے انہوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کو اور خاص کر مسلمانوں کو اپنی فکری یورشوں کا نشانہ بنایا اور اسلام کے خلاف بے سروپا اعتراضات اور خلاف واقعہ شکوک و شبہات پھیلانے کا سلسلہ شروع کیا تاکہ ہندوستانیوں کی نئی نسل اپنے مذہب کے بارے میں غیر مطمئن اور بدگمان ہوجائے، دوسرے نہایت ہی قوت کے ساتھ ملک کے چپہ چپہ میں عیسائی مشنریز کو بھیجا اور عیسائیت کی تبلیغ شروع کی۔
تیسرے انگریزوں نے بلا تاخیر ہندوستان میں ایک نیا نظام تعلیم جاری کیا، جس کا مقصد محض علوم و فنون کی تعلیم نہ تھی؛ بلکہ ہندوستانیوں کومغرب سے قریب کرنا، ان کو ایسے مذہبی افکار اوراپنی ثقافت کے بارے میں احساس کمتری میں مبتلا کرنا اور انگریز حکومت کیلئے ہندوستانی نوکروں کا ایک انبوہ تیار کرنا تھا، بہ قول لارڈ میکالے ان درس گاہوں کا مقصد تھا کہ ہندوستان کے لوگ رنگ و نسل کے ہندوستانی رہ جائیں اور دل و دماغ میں انگریز بن جائیں ، چوتھے ہر طرح کی سرکاری ملازمت کو اسی نئی تعلیم سے متعلق کردیا گیا جس نے بہت جلد ہندوستانیوں کو اس بات پر مجبور کردیا کہ وہ اپنی گردنِ طاعت اس نئے نظام کے سامنے خم کردیں ۔
انگریزوں کو اصل پر خاش مسلمانوں سے تھی اور وہ چاہتے تھے کہ کسی طرح مسلمانوں کے ایمان کا سودا کریں ، اس پس منظر میں بالغ نظر اور دردمند علماء نے محسوس کیا کہ سیاسی اقتدار تو اب رُخصت ہونے کو ہے، کسی طرح مسلمانوں کے ایمان کی حفاظت کی تدبیر کرنی چاہئے؛ چنانچہ انہوں نے طے کیاکہ ہندوستان کے گوشے گوشے میں دینی درس گاہوں کا جال بچھا دیا جائے اور ایک ایسی نسل کو وجود بخشا جائے جومادی منافع کے پیچھے دوڑنے کے بجائے اپنی دنیا کو قربان کرکے مسلمانوں کے دین و ایمان کی حفاظت پر کمربستہ رہے، فاقہ مستی اسے گوارہ ہو، معمولی کھانا اور معمولی پہننے پر وہ قناعت کرسکے اورخس پوش جھونپڑیوں میں چٹائیوں پر بیٹھ کر اپنے آپ کو خدا کے دین کی حفاظت اور سربلندی کے لئے وقف رکھے۔
چنانچہ اس منصوبہ کے تحت پورے ملک میں مدارس و مکاتب کا قیام عمل میں آیا اورایک ایسے تعلیمی نظام کی تشکیل کی گئی جو اپنے اخراجات میں حکومت کا محتاج نہ ہو؛ بلکہ اگر حکومت مدد کرنا بھی چاہے تو اسے قبول نہ کیا جائے اور ہر طرح سرکاری مداخلت سے آزاد رہ کر یہاں سے دین کی حفاظت و اشاعت کے جذبہ سے سرشار اور ایثار و قربانی سے سرمست بادہ خواروں کی ایک بہت بڑی تعداد پیدا کی جائے؛ چنانچہ وہ اس میں کامیاب رہے۔
غور کیجئے کہ گزشتہ ڈیڑھ دو سو سال میں اسلام کے خلاف اس ملک میں جتنی یورشیں ہوئی ہیں ، ان کا مقابلہ کس نے کیا؟ جب ملک کی گلی کوچوں میں عیسائی مناد لوگوں کو دعوت ارتداد دے رہے تھے تو کس نے شہر شہر اور قریہ قریہ ان کا تعاقب کیا؟ جب آریہ سماجی تحریک اُٹھی اور اس نے افلاس زدہ جاہل و ناخواندہ مسلمانوں کو ہندو مذہب کی طرف لوَٹنے کی دعوت دی تو کون لوگ تھے جو اس فتنہ کے مقابلہ میں سینہ سپر ہوئے؟ جب پنجاب سے انگریزوں کی شہ پر مرزا غلام احمد قادیانی نے ختم نبوت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تو کون لوگ اس فتنۂ کبریٰ کے خلاف اُٹھے اور ہر سطح پر اس فتنہ کی بیخ کنی کا فریضہ انجام دیا ؟ جب کچھ لوگوں نے مستشرقین سے متاثر ہوکر حدیث نبوی کے حجت و دلیل ہونے کا انکار کیا ؛ تاکہ شریعت کا طوق اپنے گلے سے نکال پھینکا جاسکے تو کن لوگوں نے ان جھوٹے بازی گروں کی قلعی کھولی؟ اسلام کے خلاف مسلمان نوجوانوں کو کمیونزم کا نشہ پلایا گیا تو یہ کون لوگ تھے جنہوں نے پوری معقولیت کے ساتھ اس طوفان کا راستہ روکا؟ اور جب مسلمانوں کے بچے کھچے شرعی قوانین کو بھی منسوخ کرنے کی سازشیں رچی جانے لگیں تو کن لوگوں نے تحفظ شریعت کی تحریک چلائی اور ان کالی گھٹاؤں کو اپنا رُخ بدلنے پر مجبور کیا ؟
یہ سب ان ہی بے نوا فقیروں اور ناسمجھ مسلمانوں کی تنقیدوں کا ہدف بننے والے مولویوں کا کارنامہ ہے، سیاسی قائدین نے سیاسی فائدے اُٹھائے اور موقع و حال کے مطابق اپنے ضمیر کی تجارت بھی کی، دانشور کہلانے والے حکومت کے اونچے عہدوں پر فائز المرام لوگ اعلیٰ تنخواہیں وصول کرتے رہے اور جہاں حکومت نے ضرورت محسوس کی ان کی زبان سے اپنی باتیں کہلوائیں اور انہوں نے بھی بے تکلف حق نمک ادا کیا؛ لیکن یہی دینی مدارس ہیں، جنہوں نے مادی نقصان کے باوجود اپنے کاز اور مقصد پر استقامت کی راہ اختیار کی اور اس سے انحراف نہیں کیا۔
اسی لئے فرقہ پرست تنظیمیں آج سب سے زیادہ دینی مدارس کو ہدف بنائے ہوئے ہیں ، کیونکہ انہو ں نے محسوس کرلیا ہے کہ جب تک یہ مدارس اور ان درسگاہوں سے پیدا ہونے والے ’ ملاّ‘ باقی رہیں گے، مسلمانوں کو اسلام سے منحرف کرنا اور ان کو اکثریت کی ثقافت میں جذب کرنا ممکن نہ ہوگا۔ اور ان کا یہ خیال یقیناً غلط بھی نہیں۔ مذہبی غیرت و حمیت اوراسلامی شعار کا احترام و اہتمام جس قدر اس خطہ میں پایا جاتا ہے اکثر مسلم ممالک بھی اس میں ان کی ہمسری نہیں کرسکتے؛ اس لئے بلاخوف تردید اور بغیر کسی طرفداری کے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اس وقت اسلام کی حفاظت و بقاء، اس کی دعوت و اشاعت اور اس کی سربلندی کا سب سے بڑا ذریعہ یہی مدارس ہیں اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان مدارس میں ایک بہت بڑی تعداد ان بچوں کی ہے جو غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں نیزان مدارس میں ایک بہت بڑا حصہ معاشی اعتبار سے کمزور ہوتا ہے، پس ان مدارس کو زکوٰۃ ادا کرنے میں زکوٰۃ کے دونوں مقاصد کی بیک وقت تکمیل ہوتی ہے، غرباء کی ضرورت بھی پوری ہوتی ہے اور اسلام کی سربلندی کے مقصد میں بھی مدد ملتی ہے۔
اس لئے ہمارے فقہاء نے خوب سوچ سمجھ کر ضرورت مند علماء اور علم دین حاصل کرنے میں مشغول طلبہ کو زکوٰۃ ادا کرنے کی ترغیب دی ہے اور اس کو زیادہ باعث فضیلت بتایا ہے، مشہور محدث امام عبداﷲ بن مبارکؒ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ اپنی اعانتیں علماء ہی پر خرچ کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ مقام نبوت کے بعد علماء سے بڑھ کر کوئی بلند مرتبہ نہیں، (الاتحاف : ۴ ؍ ۴۱۷ ) مشہور فقیہ علامہ حصکفیؒ نے لکھا ہے جو شخص اپنے آپ کو علم کیلئے فارغ کرلے اس کے لئے زکوٰۃ لینا جائز ہے؛ کیوں کہ وہ دوسرے ذرائع معاش اختیار نہیں کرسکتا۔ (درمختار مع الرد : ۶؍ ۲۸۵ )
ایک اور موقع پر فرماتے ہیں : محتاج عالم یا عابد و زاہد لوگوں پر صدقہ کرنا افضل ہے۔ (حوالۂ سابق : ۳؍ ۳۰۴ )
اور یہ کچھ فقہاء کی طبع زادبات نہیں ؛ بلکہ خود قرآن مجید سے ماخوذ ہے، اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
’’( صدقات میں ) ان فقراءکا حق ہے جو اﷲ کی راہ میں (کسبِ معاش سے) روک دیئے گئے ہیں وہ (امورِ دین میں ہمہ وقت مشغول رہنے کے باعث) زمین میں چل پھر بھی نہیں سکتے ان کے (زُھداً) طمع سے باز رہنے کے باعث نادان (جو ان کے حال سے بے خبر ہے) انہیں مالدار سمجھے ہوئے ہے، تم انہیں ان کی صورت سے پہچان لو گے، وہ لوگوں سے بالکل سوال ہی نہیں کرتے کہ کہیں (مخلوق کے سامنے) گڑگڑانا نہ پڑے، اور تم جو مال بھی خرچ کرو تو بے شک اﷲ اسے خوب جانتا ہے۔ ‘‘
(البقرہ:۲۷۳)
اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ جو محتاج اور ضرورت مند حضرات دین کے کام کی وجہ سے کسب ِ معاش میں مستقل طورپر لگنے کے موقف میں نہ ہوں، وہ صدقات اور اعانتوں کے زیادہ مستحق ہیں، اسی لئے اکابر مفسرین کا رجحان یہی ہے کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی اس وقت اس سے اشارہ اصحابِ صفہ یعنی صفہ میں مقیم علوم نبوت کے طالبوں کی طرف تھا؛ (دیکھئے : تفسیر کبیر : ۳؍ ۶۳۶، تفسیر قرطبی : ۳؍ ۳۴۰ ) بلکہ خود رسول اﷲ ﷺ کے زمانہ سے یہ طریقہ مروج تھا کہ اہل ثروت صحابہ ؓاپنے صدقات کی کھجور اصحاب ِصفہ کے لئے پیش کیا کرتے تھے اور حضور ﷺ کی طرف سے ان کو اس کی ہدایت ہوتی تھی، اس لئے یوں تو تمام محتاج و ضرورت مند مسلمانوں کی زکوٰۃ سے مدد کرنی چاہئے لیکن دینی مدارس کا خصوصی استحقاق قرآن سے بھی ثابت ہے، حدیث سے بھی، سلف صالحین کے عمل سے بھی اور یہ زیادہ مکمل طریقہ پر مقاصد زکوٰۃ کو پورا کرتا ہے اور ملک کے موجودہ حالات میں اسلام کی بقاء اور تحفظ کیلئے یہ کافی مؤثر ذریعہ اور طاقتور وسیلہ ہے۔
حکومت اور فرقہ پرست تنظیمیں چاہتی ہی ہیں کہ مدارس بند ہوجائیں ؛ تاکہ اسلامی تشخصات اور مسلمانوں کی مذہبی شناخت کو مٹانا آسان ہو جائے، مگر مسلمان تو زکوٰۃ ہی پوری طرح نہیں نکالتے؛ ان سے کیسے اُمید کی جائے کہ بڑے پیمانے پر نفل صدقات و عطیات ادا کرینگے! تو اب اگر زکوٰۃ کا دروازہ بھی مدارس پر بند کر دیا گیا تو وہ خود بخود کمزور ہو جائینگے اور اس طرح مدارس کو زکوٰۃ نہ ادا کرنے کی بات بالواسطہ طریقہ پر حکومت کے معاندانہ مشن کی خاموش تکمیل ہوگی؛ لہٰذا اہل نظر اس بات کواچھی طرح سمجھ لیں کہ اگر یہ تحریک دانستہ اُٹھائی جارہی ہے تو یہ گہری اور خطرناک سازش ہے اور اگر نادانستہ کہی جارہی ہے تو زمانہ ناآگہی اور فراست ایمانی سے محرومی کے سوا اور کچھ نہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ مدارس کے نظام کو تقویت پہنچائی جائے اور مسلمانوں کو دوسرے مقاصد کیلئے بھی انفاق پر اُبھارا جائے، نہ کہ ایسی تدبیر اختیار کی جائے جس سے اعداء اسلام کی مہم کو تقویت پہنچے اور اس سوتےہی کو خشک کردیا جائے جس سے دینی کاموں کے ہر شعبہ کو آبِ حیات فراہم ہوتا ہے !