الله تعالیٰ کی انسان پر بے شمار نعمتیں ہیں، جن میں سے ایک نعمت وقت بھی ہے، وقت ان نعمتوں میں سے ہے جو انمول ہیں، یعنی جو انسان کو ایک ہی بار ملتی ہیں۔
EPAPER
Updated: July 26, 2024, 2:46 PM IST | Muhammad Talha Irshad | Mumbai
الله تعالیٰ کی انسان پر بے شمار نعمتیں ہیں، جن میں سے ایک نعمت وقت بھی ہے، وقت ان نعمتوں میں سے ہے جو انمول ہیں، یعنی جو انسان کو ایک ہی بار ملتی ہیں۔
الله تعالیٰ کی انسان پر بے شمار نعمتیں ہیں، جن میں سے ایک نعمت وقت بھی ہے، وقت ان نعمتوں میں سے ہے جو انمول ہیں، یعنی جو انسان کو ایک ہی بار ملتی ہیں۔ اس لیے وقت کی قدر کرنے اور اسے قیمتی بنانے کا احساس پیدا کرنے کے لیے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی احادیث میں بھی مختلف اسالیب سے توجہ دلائی گئی ہے۔ حدیث کے مشہور امام ”ابوداؤد“ جن کی ”سنن“ صحاح ستہ میں شمار ہوتی ہیں، فرماتے تھے:” میں نے اپنی سنن پانچ لاکھ احادیث سے منتخب کی ہے (ان کی سنن چار ہزار آٹھ سو احادیث پر مشتمل ہے) پھر انہوں نے اپنی سنن سے اسلامی نظام زندگی کے دستور کی جامعیت پر نمونے کے طور پر چاراحادیث کا انتخاب پیش کیا، ان چار میں سے ایک حدیث کا مفہوم یہ ہے:” آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی مشاغل ترک کر دے۔ “
”وقت بھی ایک سونا ہے“ یہ مثال ان لوگوں کے لئے صحیح ہے جو موجودات کی قدر وقیمت محض قیاس وتصور کے ذریعے ہی سے کرسکتے ہیں۔ لیکن جو لوگ پاکیزہ خیالات ونظریات کے حامل ہوتے ہیں، ان کے ہاں تو وقت بہت گراں ہے، ان کے نزدیک وقت کا مقام بہت بلند اور ارفع ہے۔ وہ کہتے ہیں : ”وقت ہی زندگی ہے۔ “ تاریخ کا مطالعہ کیجئے ! آپ کو معلوم ہو گا کہ دنیا میں جتنے کامیاب لوگ گزرے ان کی ترقی کا اہم راز وقت کی قدر اور اس کا صحیح استعمال تھا او رجن لوگوں نے وقت کی قدر کی اور اپنے آپ کو لغویات سے بچایا انہوں نے اپنی آخرت کے لئے بھی بہت کچھ کیا اور پیچھے امت کے لئے بھی بہت کچھ چھوڑا۔ سلف صالحین کے واقعات اس بات پر شاہد ہیں کہ انہوں نے کس کمال احتیاط کے ساتھ وقت کا استعمال کیا۔
یہ بھی پڑھئے: کسی پر احسان یا نیکی کرکے اسے جتانا، خود کو ثواب سے محروم کرنا ہے
ہروقت نظر گھڑی پر رہتی تھی اور ہر کام نظام الاوقات کے تحت کرتے تھے، اسی اہتمام کی برکت سے دین کی اشاعت اور رشد وہدایت کا ایک بہت بڑا ذخیرہ امت کے لئے تیار کرکے چھوڑا۔ امام اعظم ابوحنیفہؒ کی تصانیف کی تعداد ۱۱؍ہے، جن کی علامہ کوثری رحمہ الله نے بلوغ الامانی کے حاشیہ میں تصریح کی ہے۔ امام شافعیؒ نے کتاب الام لکھی، جو پندرہ جلدوں میں ہے، اس کے علاوہ۱۱۳ کتابیں مزید لکھیں۔ امام محمدؒ نے علوم دینیہ میں ۹۹۰؍کتابیں تصنیف کیں۔ امام ابن حزمؒ کی ۴۰۰؍ مجلدات ہیں، جو اسی ہزار اوراق پر مشتمل ہیں۔ امام یحییٰ بن معینؒ نے دس لاکھ احادیث لکھی ہیں۔ ابن عساکرؒ نے ۵۰؍ سے زائد کتب تصنیف کیں، ان کی ایک کتاب ”تاریخ مدینہ و دمشق“۸۰؍ جلدوں میں ہے۔ ابن تیمیہ کی تصانیف کی گنتی مشکل ہے۔ حافظ ابن حجرؒ کا ایک واقعہ ہے کہ آپ نظام الاوقات کے پابند تھے، ہر کام کا وقت مقرر تھا اور ہر ایک لمحہ تول کر خرچ کرتے تھے۔ یہاں تک کہ لکھنے کے دوران قلم پر قط رکھنے کی ضرورت پیش آتی تو اتنی دیر بے کار نہ گزارتے، بلکہ اس وقفے میں زبان سے ذکر الله میں مشغول ہو جاتے تھے۔
حافظ ابو علی فرماتے ہیں : ”محمد بن مسیب جب مصر گئے تو ان کے بستے میں ایک لاکھ تحریر شدہ حدیثیں تھیں۔ حضرت سعید بن المسیب فرماتے ہیں کہ چالیس سال سے میری نماز باجماعت فوت نہیں ہوئی۔ ایک آدمی نے حضرت عامر بن قیس سے کہا کہ ٹھہریے! میں آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں تو آپ نے فرمایا: ”سورج کو روک لو، پھر میں بات کرنے کے لئے تیار ہوں۔ “ حضرت عاصم بن علی ؒفرماتے ہیں کہ حضرت یزید بن ہارون عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد ساری رات قیام اللیل میں گزارتے تھے۔ یہاں تک کہ صبح کی نماز اسی وضو سے ادا کرتے، آپ نے عشاء کے وضو سے چالیس سال تک صبح کی نماز پڑھی۔
مذکورہ اکابر کی پرا فادہ زندگی کی محیر العقول جھلکیاں آج ہمارے لئے ناقابل ِ یقین معلوم ہوتی ہیں ، کیوں کہ ہمارے نزدیک وقت کی قدر ومنزلت کسی بھی درجے میں نہیں ہے، وقت کا ضیاع ہمارے لئے اتنا آسان ہو چکا ہے کہ اس پر افسوس کا احساس ہی نہیں ہوتا، اس لئے ضروری ہے کہ ہم آئندہ کی ندامت سے بچنے کے لئے حتی الامکان عمر عزیز کے قیمتی اوقات مفید کاموں میں لگائیں۔