• Fri, 20 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

دَولت یقیناً ایک نعمت ہے، اگر اس نعمت سے دوسروں کو بھی فائدہ پہنچایا جائے

Updated: September 20, 2024, 3:34 PM IST | Dr. Tahir Masood | Mumbai

موجودہ دور میں مال و دولت کی فراوانی ہے لیکن اس کا ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ بیشتر لوگ اس کی نمائش کو ہی فرض سمجھ رہے ہیں اور اصل کام یعنی دوسروں کی مدد اور دست تعاون دراز کرنا بھول چکے ہیں ۔ یہ اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔

Islam neither forbids the acquisition of wealth nor the best way of life, but it commands us to ensure that the deserving have a share in our wealth and sustenance. Photo: INN
اسلام نہ تو حصول دولت سے منع کرتا ہے نہ بہترین طرز زندگی سے ، البتہ اس بات کو یقینی بنانے کا حکم دیتا ہے کہ ہمارے مال و دولت اور رزق میں مستحقین کا بھی حصہ رہے۔ تصویر : آئی این این

ہمارے اکثر دکھوں، پریشانیوں اور شکایتوں کی بنیادی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہم دوسروں کی نظروں میں اچھا بننا یا سرخرو ہونا چاہتے ہیں۔ یہ خواہش خصوصاً اس وقت باقی ہے، جب ہم اپنی اخلاقی خوبیوں، مثلاً دوسروں کا حال احوال دریافت کرکے، دوسروں کی مدد کرکے اور ان کی مشکلات میں معاونت کرکے، ان کے دل میں اپنے لیے جگہ بنانا چاہیں تاہم، یہ خواہش اس وقت ہمارے لئے پریشانی کا باعث بن جاتی ہے جب ہم اپنی دولت، اپنے اسٹیٹس اور اپنی کامیابیوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں یا اپنی کار اور بنگلے اور جائیدادوں سے دوسروں کو مرعوب کرنے کے آرزو مند ہوتے ہیں۔ اسی چیز سے دکھاوے اور نمود و نمائش کا مرض پیدا ہوتا ہے جو آج ہمارے معاشرہ میں دور دور تک عام ہے۔ 
 ایک مثا ل پر غور کیجئے: ایک متوسط اور نچلے متوسّط طبقے کا فرد بھی جب اپنی بیٹی یا بیٹے کی شادی کرتا ہے تو استطاعت نہ ہونے کے باوجود وہ ادھر اُدھر سے قرض لے کر، یا سامان بیچ کر، محض اس لئے تین چار سو مہمانوں کی ضیافت کا اہتمام کرتا ہے کہ اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو عزیز و رشتہ دار کیا کہیں گے؟ کچھ یہی معاملہ اعلیٰ اور اعلیٰ متوسط طبقے کا ہے کہ جو شادی بیاہ کی تقریبات میں محض دکھاوے کیلئے کئی کئی ڈشیز کا اہتمام کرتا ہے۔ اسی طرح بارات اور ولیمے کے علاوہ مہندی، مایوں وغیرہ کی غیر ضروری رسومات پر روپے پیسے کو پانی کی طرح بہادیا جاتاہے۔ یہ فضول خرچی محض اس لئے کی جاتی ہے کہ سوسائٹی میں اپنی ناک اونچی ہو۔ عزیزو رشتہ دار کہیں کہ واہ کیا مہندی کی تقریب تھی! دلہن کے ملبوسات اور میک اپ پر ہر گھرانہ ہزاروں روپے لٹا دیتا ہے اور اب تو دلہن کے ساتھ ساتھ دولہا میاں کو بھی کوئی مہنگا بیوٹیشن میک اپ کرکے تقریب میں شرکت کے قابل بناتا ہے۔ گویا ایک بیٹے یا بیٹی کی شادی ہی میں اتنے اخراجات اُٹھ جاتے ہیں کہ عام آدمی کی کمر بوجھ سے جھک جاتی ہے۔ 
ان ساری پریشانیوں کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہے کہ ہم دکھاوے اور نام و نمود کی فرسودہ اور تکلیف دہ سماجی روایات کی ڈور سے بندھ گئے ہیں اور بعض صورتوں میں ا ن سے متفق نہ ہونے کے باوجود یہ سوچ کر روایات کی ان زنجیروں کو توڑنے کی ہمّت نہیں پاتے کہ ’’دنیا کیا کہے گی؟‘‘
ہم میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں کہ کہہ دیں : ’’دنیا جو کہے میری بلاسے‘‘ اور پھر اپنی استطاعت کے مطابق سادگی سے یہ ضروری فریضہ انجام دیں۔ یہ کہاں کی عقلمندی ہے کہ محض لوگوں کے کہنے سننے کے خوف سے ہم خود کو مقروض بنالیں ؟ 
اس دکھاوے اور نمود و نمائش نے ہمارے اخلاقی معیارات کو اتنا کھوکھلا اور مضحکہ خیز بنادیا ہے کہ اب شرافت، کردار، تعلیم اور صحت جیسی خوبیوں پر دولت کو ترجیح دی جاتی ہے۔ دولت ہی خوبی کا واحد معیار بن کر رہ گیا ہے۔ یہ معیار اتنی اہمیت اختیار کرگیا ہے کہ اگر اسکول اچھا ہو، فیس معقول ہو، اساتذہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں ، تب بھی ہم ایسے اسکول میں بچّوں کو نہیں پڑھاتے جس کی شہرت اونچے اسکول کی نہ ہو۔ پڑھاتے ایسے اسکول میں ہیں جس کی فیس مہنگی ہو اور جس کا نام اور شہرت ایسی ہو کہ لوگ سن کر کہیں کہ: ’’اچھا، آپ کا بچّہ فلاں اسکول میں پڑھتا ہے؟ ‘‘ ایسے مشہور اسکولوں کا حال یہ ہے کہ ہوش رہا فیس دینے اور ٹرانسپورٹ کا خرچ برداشت کرنے کے باوجود بچّے کو پرائیویٹ ٹیوشن کی ضرورت پڑتی ہے۔ سربلند کرنے کے سماجی مرتبے کے علاوہ اگلے درجوں میں تعلیم اور کریئر بنانے میں مددگارو معاون ہونے کی بھی اُمید ہوتی ہے۔ ہم ایسی ہی ’اونچی دکان‘ سے ’پھیکا پکوان‘ خریدنا پسند کرتے ہیں۔ اسکول سے بچّے نے کیا اور کتنا سیکھا اور اسکول کے اساتذہ نے کتنی محنت کی اور کیا کچھ سکھایا اور تربیت دی، ان سوالات سے والدین کا عموماً کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ 

یہ بھی پڑھئے:مسلمانوں کی بے وزنی کا شرعی علاج

لوگوں کی سوچ اس درجہ طبقاتی ہوگئی ہے کہ ہم آدمی کی حیثیت اور مرتبے کا اندازہ اُس علاقے سے لگاتے ہیں جہاں وہ رہتاہے۔ ایک اچھے کردار اور اخلاق کا آدمی اگر کسی نواحی یا نیم پسماندہ بستی کا رہائشی ہو تو عموماً بے وقعت قرار پاتاہے۔ رشتہ دار اگر بدقسمتی سے ایسی بستی کے رہائشی ہوں تو ان کے پاس آنا جانا اور ملنا جلنا بھی برائے نام ہی ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سوائے اس کے اور کیا ہے کہ ہماری نظروں میں زندگی کی سب سے بڑی قدر دھن دولت، کار، کوٹھی او ر بینک بیلنس ہے۔ یہ مادی اشیا ءیقیناً زندگی میں اہمیت رکھتی ہیں اور ان کے جائز حصول میں کوئی عیب نہیں ہے۔ لیکن اس سے زیادہ بُری بات اور کیا ہوگی کہ دولت اور مادی اشیاء کے سامنے ہم انسانی اور اخلاقی اوصاف اور خوبیوں کو کم تر اور بے وقعت سمجھنے لگیں۔ 
ہم بھول جاتے ہیں کہ دولت باوجود اپنی طاقت اور اہمیت کے، عمر اور جوانی کی طرح ڈھلتی چھاؤں ہے۔ ہم نے کتنے دولتمندوں کو قلاش ہوتے اور کتنے قلاشوں کو دولتمند ہوتے دیکھا ہے۔ روپیہ پیسہ تو گردش کرنے والی چیز ہے۔ ایسی عارضی اور پُر فریب حقیقت پر جان دینا، اسی کو سب کچھ سمجھ لینا، اچھائی اور برائی کا اسی کو پیمانہ بنالینا، کوتاہ نظری اور سطحی سوچ کا شاخسانہ ہے۔ 
آج معاشرے میں بدعنوانی کی شرح اس درجہ کیوں بڑھ گئی ہے کہ کوئی محکمہ، کوئی شعبہ اور کوئی کاروبار اس بدعنوانی کے ناسور سے محفوظ نہیں ہے۔ یہ سب کچھ زرپرستی کانتیجہ ہے۔ روپیہ پیسہ لوگوں کا ایمان اس لئے بن گیا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ زندگی کی ساری سہولتیں، عزّت، وقار، بچّوں کی تعلیم اور ان کا محفوظ مستقبل سب کچھ دولت ہی سے ممکن ہے۔ یہ یقین اس درجہ ہے کہ زندگی سے قناعت، صبر و استغنا اور سادگی و کفایت شعاری کی صفات غائب ہوگئی ہیں۔ اس کے برعکس دولت کی محبت نے جو بیماریاں ہمارے اندر پیدا کردی ہیں، وہ ہیں : حرص و ہوس، لالچ، غرور، تکبر، غفلت، بے خوفی اور دیدہ دلیری۔ ان سب کا حتمی نتیجہ ہے احترام آدمیّت کا خاتمہ۔ جب آدمی کو دولت اور سماجی مرتبے سے تولا جائے گا تو احترامِ آدمیّت کا خاتمہ منطقی نتیجہ ہے۔ 
اسلام نے اسراف اور فضول خرچی کرنے والوں کو ’شیطان کا بھائی‘ کہاہے۔ جو دولتمند ہوتے ہیں، کم ہی دیکھنے میں آیا ہے کہ رزق کی اس کشادگی کا فیض وہ اپنے غریب رشتہ داروں اور ضرورتمندوں کو پہنچائیں۔ اسلامی تعلیمات سے بے اعتنائی کے سبب دولت رفاہ عامہ کے کاموں میں خرچ کرنے اور ضرورتمندوں کی امداد کرنے میں دل دُکھتا ہے اور یہ خیال روکتا ہے خرچ کرنے سے کہ اپنی محنت اور خون پیسے کی کمائی مَیں دوسروں پر کیوں لٹاؤں ؟ دوسروں کا اس میں کیا حصّہ ہے جو میں اپنی کمائی میں سے ان کا حصّہ نکالوں۔ لہٰذا، دولت آتی ہے تو ساتھ اپنی محبت بھی لاتی ہے بلکہ دولت اکثر صورتوں میں جمع ہوتی ہی دولت کی محبت اور بخل سے ہے۔ 
یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں امیر، امیر تر اور غریب، غریب تر ہوتا جارہا ہے۔ دولت مندوں اور کھاتے پیتے گھرانوں کے لوگ اگر غریب غربا کو دینے دلانے میں ذرا دریادلی اور فیاضی دکھائیں تو معاشرہ میں غربت و افلاس میں اضافہ کیوں ہو؟ لوگ فاقہ کشی پر مجبور کیوں ہوں ؟ نان شبینہ سے محتاجی انہیں خودکشی اور ڈاکہ زنی پر مجبور کیوں کرے؟ آج کسی بھی متّمول علاقے میں چلے جائیے، جہاں وسیع و عریض بنگلے اور عمارتیں بنی ہوئی ہیں وہاں اکثر صورتوں میں آپ کو ویرانی اور سناّٹے کا راج نظر آئے گا۔ اس لئے کہ بچّوں کی شادیاں ہوگئیں یا بہتر مستقبل کی تلاش میں وہ ملک سے باہر چلے گئے اور اب بنگلے یا وسیع و عریض فلیٹ میں دو میاں بیوی، چند ایک ملازمین کے ساتھ بڑھاپے اور بیماری کے صبر آزما اور تکلیف دہ دن کاٹ رہے ہیں۔ دولت اور اسراف نے کیا دیا؟ تنہائی اور ویرانی!
 اس پس منظر میں ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ دولت ایک نعمت ہے، اگر اس سے دوسروں کو بھی فائدہ پہنچایا جائے، اور یہ لعنت ہے اگر اسے نمود و نمائش، دکھاوے یا اسراف میں اڑایا جائے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK