• Sat, 28 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

عورت کا اختیار اور معاشرتی رویے

Updated: September 27, 2024, 4:33 PM IST | Muhammad Ammar Khan Nasir | Mumbai

اسلامی تصور معاشرت کی رو سے نکاح ایسا رشتہ ہے جو مرد اور عورت کی آزادانہ مرضی اور فیصلے سے قائم ہوتا ہے اور اس کے قائم رہنے کا جواز اور افادیت اسی وقت تک ہے جب تک دونوں فریق قلبی انشراح اور خوش دلی کے ساتھ اس کو قائم رکھنے پر راضی ہوں۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

اسلامی تصور معاشرت کی رو سے نکاح ایسا رشتہ ہے جو مرد اور عورت کی آزادانہ مرضی اور فیصلے سے قائم ہوتا ہے اور اس کے قائم رہنے کا جواز اور افادیت اسی وقت تک ہے جب تک دونوں فریق قلبی انشراح اور خوش دلی کے ساتھ اس کو قائم رکھنے پر راضی ہوں۔ کسی وجہ سے ناچاقی پیدا ہونے کی صورت میں قرآن مجید نے ہدایت کی ہے کہ دونوں خاندانوں کے ذمہ دار حضرات مل کر معاملے کو سلجھانے کی کوشش کریں اور موافقت کے امکانات تلاش کریں۔ (النساء: ۳۵)۔ تاہم اگر یہ واضح ہو جائے کہ رشتہ نکاح سے متعلق حدود اللہ کو قائم رکھنا میاں بیوی کے لئے ممکن نہیں تو قرآن نے ہدایت کی ہے کہ ایسی صورت میں اگر طلاق لینے کیلئے بیوی کو شوہر کے کئے ہوئے مالی اخراجات کی تلافی کیلئے کچھ رقم بھی دینی پڑے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ (البقرۃ: ۲۲۹) دوسری جگہ قرآن نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر علاحدگی کے فیصلے میں ہی بہتری نظر آ رہی ہو تو فریقین کو مستقبل کے متعلق بے جا خدشات میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے اور اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہئےکہ وہ اپنی وسعت اور حکمت سے دونوں کیلئے مناسب بندوبست کر دے گا۔ (النساء ، آیت ۱۳۰)
 قرآن کی ان تعلیمات کی روشنی میں ہمارے ہاں کئی طرح کے معاشرتی رویے اصلاح کے متقاضی ہیں۔ سب سے پہلے تو رشتے کے انتخاب میں خاتون کی پسند اور مرضی کو بنیادی اہمیت دینے کو ابھی تک ہمارے ہاں معاشرتی قدر کی حیثیت حاصل نہیں ہو سکی ہے۔ پھر اگر رشتہ نکاح میں کوئی رخنہ پیدا ہوجائے اور میاں بیوی کیلئے نباہ کرنا مشکل ہوجائے تو بھی ایک انسانی مسئلے کے طور پر دیکھتے ہوئے فریقین کو خوش اسلوبی سے علاحدگی کا موقع دینے کے بجائے دونوں خاندانوں کا پورا زور اور دباؤ اس پر مرکوز ہوتا ہے کہ ایسا نہ ہونے دیا جائے۔ خاص طور پر اگر رشتہ خاندان اور برادری کے اندر قائم ہوا ہو تو دونوں خاندانوں کے باہمی تعلقات کے جڑنے یا ٹوٹنے کو اس ایک رشتے کے ساتھ نتھی کر دیا جاتا ہے۔ تیسرے نمبر پر اگر خاتون علاحدگی کے بعد واپس ماں باپ یا بھائیوں کے گھر آ جائے تو اسے ایک غیر ضروری گلے پڑ جانے والی ذمہ داری تصور کیا جاتا ہے اور اسی کے مطابق مطلقہ کے ساتھ برتاؤ اختیار کیا جاتا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے:جمعہ، روایتی اندازِ خطابت اور نئی نسل

 یہ تینوں رویے دینی واخلاقی لحاظ سے غلط اور قابل اصلاح ہیں۔ 
 خاتون کی رضامندی کے بغیر اس کا نکاح کرنے کے متعلق ہم جانتے ہیں کہ ایسا نکاح اگر جبراً کیا جائے تو وہ قانوناً منعقد ہی نہیں ہوتا یا عورت کی درخواست پر عدالت اسے فی الفور کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ عموماً اس ضمن میں والدین معاشرتی دباؤ سے کام لیتے ہوئے بچیوں کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ ان کے فیصلے کو ان کا حق سمجھتے ہوئے قبول کر لیں ، ورنہ ان کی طرف سے معمول کے تعلقات اور حسن معاشرت کی امید نہ رکھیں۔ چنانچہ بے شمار خواتین اپنی زندگی کے ایک نہایت بنیادی حق سے دستبردار ہو جاتی ہیں۔ اسی رویے کا اظہار نکاح کے بعد علاحدگی کے امکان کے حوالے سے بھی کیا جاتا ہے اور خواتین کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ ان کے لئے کسی بھی طرح کی جائز یا ناجائز صورت حال سے سمجھوتا کئے اور کسی بھی طرح کی زیادتی یا نا انصافی کو قبول کیے بغیر کوئی چارہ نہیں ، اور یہ کہ علاحدگی کی صورت میں خود خاتون کا خاندان اس فیصلے میں اس کے ساتھ کھڑا نہیں ہوگا۔ 
 قرآن مجید نے اہل خاندان کے اس رویے کو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان کے منافی قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ اگر ایک دفعہ طلاق ہو جانے کے بعد میاں بیوی دوبارہ گھر بسانے پر باہم رضامند ہوں تو عورت کے اہل خانہ کو اس میں رکاوٹ نہیں بننا چاہئے۔ (البقرۃ:۲۳۲) ظاہر ہے کہ اس اخلاقی اصول کا اطلاق خاتون کی طرف سے علاحدگی کے فیصلے پر بھی ہوتا ہے۔ چنانچہ اصلاح وسازگاری کی بساط بھر کوششوں کے باوجود اگر خاتون رشتے کو قائم نہ رکھنا چاہتی ہو تو خاندان کی طرف سے اس پر بے جا دباؤ ڈالنا ایک غیر اخلاقی اور غیر شرعی رویہ ہے۔ 
 مطلقہ خواتین کے ضروری اخراجات کو بوجھ اور اپنی ذمہ داری کے دائرے سے خارج تصور کرنا بھی اسلام کی تعلیمات کی رو سے ایک ناروا انداز فکر ہے۔ سراقہ بن جعشمؓ سے روایت کرتے ہیں کہ سرکار دو عالمؐ نے ان سے کہا کہ اے سراقہ، کیا میں تمہیں سب سے افضل صدقہ کے متعلق نہ بتاؤں ؟ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ، ضرور بتائیے۔ آپ نے فرمایا کہ تمہاری وہ بیٹی جو (شوہر کی وفات یا طلاق کے بعد) واپس تمہارے پاس آ جائے اور تمہارے علاوہ اس کا کوئی کمانے والا نہ ہو۔ (ابن ماجہ) 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK