ٹرین، بس اور راستوں پر مسلمانوں کے ساتھ تشدد کے معاملات کی خبریں آئے دن آتی رہتی ہیں لیکن حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔
EPAPER
Updated: September 23, 2024, 3:47 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai
ٹرین، بس اور راستوں پر مسلمانوں کے ساتھ تشدد کے معاملات کی خبریں آئے دن آتی رہتی ہیں لیکن حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔
قانون کی حکمرانی ملک گیر سطح پر ایک اہم اور حساس مسئلہ بن گیا ہے۔ اس مسئلے کو وہ فسطائی عناصر مزید پیچیدہ بنا رہے ہیں جو سیاست اور سماج میں صرف ہندوتوا کی بالادستی میں یقین رکھتے ہیں۔ یہ عناصر اپنے اس تصور کو عملی شکل دینے کیلئے کسی بھی سطح تک جانے کو تیار ہیں خواہ اُن کا یہ رویہ ملک کے آئین اور قانون کے صریح خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ شدت پسند ہندوتوا کے حامی یہ عناصر ایک شہری، ایک سیاستداں، ایک سرکاری یا غیر سرکاری ملازم غرضیکہ ہر سطح پر قانون کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرنا اپنا حق سمجھنے لگے ہیں۔ ان کی یہ بیجا حق داری قانون کی بالادستی کے تصور کو متاثر کر رہی ہے۔ ان عناصر کی زد پر بیشتر ملک کی اقلیت اور خصوصاً مسلمان ہی ہوتے ہیں ۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران اقتدار کی جانب سے نہ صرف ان عناصر کو کبھی بالواسطہ اور کبھی بلا واسطہ حوصلہ ملتا رہا بلکہ خود ارباب اقتدار کے قول و عمل میں بھی قانون اور آئین کو غیر اہم سمجھنے والا تاثر منعکس ہوتا رہا۔ پارلیمانی انتخابات میں بھگوا گروہ کا پلڑا کمزور پڑ نے کے سبب اس رویے میں تبدیلی آئی تو ہے لیکن یہ جزوی ہے۔ اب بھی فسطائیت کے پیرو سیاسی نیتا ان تمام قانونی حدود و قیود سے خود کو بالاتر سمجھتے ہیں جو ایک پرامن معاشرہ کی تشکیل کیلئے لازمی ہیں۔
اس وقت سماج ایک ایسی حبس زدہ کیفیت میں مبتلا ہے جو فرد کی ارتقائی صلاحیتوں کو پژمردہ کئے دے رہی ہے۔ اس صورتحال کے سبب ہندوستانی مسلمان زندگی کے ہر محاذ پر عدم تحفظ اور احساس محرومی سے دوچار ہورہا ہے۔ تعلیم، تجارت، ملازمت اور چھوٹی صنعتوں کے علاوہ فلم، ٹی وی اور کھیل جیسے ان شعبوں میں بھی مسلمانوں کے ساتھ مساوی سلوک پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے جن شعبوں کو سیکولر اور غیر جانب دار سمجھا جاتا تھا۔ یہ رویہ صریح طور پر آئین کے ان ضابطوں کے خلاف ہے جو ہندوستانیوں کے درمیان رنگ، نسل، مذہب، زبان اور علاقہ کی بنیاد پر کسی بھی امتیاز کو مسترد کرتے ہیں۔ سماج میں مختلف سطحوں پر تعصب کو پروان چڑھانے والی دھرم آمیز سیاست اس امتیازی رویہ کی مسلسل حوصلہ افزائی کرتی رہی ہے۔ اس حوصلہ افزائی کا نتیجہ یہ ہوا کہ مذہبی منافرت کی تردید میں عدلیہ کی ہدایات اور احکامات کو بھی نظر انداز کیا گیا۔ اس ضمن میں ہجومی تشدد کے متعلق عدالت عظمیٰ کی ان ہدایات کا ذکر کیا جا سکتا ہے جس میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ اقتدار ایسے معاملات پر فوری قابو پانے کیلئے پولیس اہلکاروں کو فعال کرے اور ایک خصوصی ٹیم بنا کر اس مسئلے کا تصفیہ کیا جائے۔ عدالت عظمیٰ کی اس ہدایت کے باوجو د ہجومی تشدد کے معاملات میں کوئی قابل ذکر کمی نہیں آئی ہے۔
یہ بھی پڑھئے:ہریانہ کے انتخابی نتائج فرقہ پرستوں کیلئے مایوس کن ہو سکتے ہیں
پارلیمانی الیکشن میں ہزیمت اٹھانے کے بعد ہجومی تشدد کے معاملات میں جو تیزی آئی ہے وہ یہ ظاہرکرتی ہے کہ شکست خوردہ بھگوا گروہ مسلمانوں کو زد و کوب کرکے اپنی کھسیاہٹ مٹا رہا ہے۔ یہ سب کچھ اس ملک میں ہورہا ہے جس کے وزیر اعظم اور ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ قانون کی حکمرانی کا دعویٰ کرتے نہیں تھکتے۔ بس، ٹرین، بازار اور راستے پر کہیں بھی مسلمان محفوظ نہیں اور حد تو یہ ہے کہ اسکول اور کالج میں زیر تعلیم مسلمان طلبہ کے ساتھ ایسا امتیازی سلوک کیا جارہا ہے جو اُن کی تعلیمی نشو و نما کی راہ میں ایسی اڑچنیں ڈال سکتا ہے کہ وہ باصلاحیت ہوتے ہوئے بھی کچھ نمایاں کارکردگی انجام دینے سے قاصر رہ جائیں۔ اسکولوں میں چھوٹی کلاسوں کے مسلمان بچوں کے ساتھ فرقہ پرست اساتذہ اور انتظامیہ کا رویہ بعض دفعہ اس حد تک غیر منصفانہ ہوتا ہے جو تعلیمی اداروں سے وابستہ تقدس کے تصو ر کو پامال کرتا ہے۔ اس سطح پر مذہبی منافرت کی زد پر آنے والے مسلمان بچوں کو تعلیمی میدان میں نمایاں رہنے کیلئے کیا کیا جتن کرنے پڑ سکتے ہیں اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ اس کے علاوہ مسلم طلبہ کو تعصب اور مذہبی منافرت کا سامنا ان غیر مسلم ہم جماعتوں سے بھی کرنا پڑ رہا ہے جن کے گھروں پر اسلاموفوبیاکا عفریت سایہ کر چکا ہے۔ تعلیمی اداروں یا دیگر عوامی مقامات پر مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے اس امتیازی اور غیر انسانی سلوک کے معاملات سامنے آنے پر پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے جو کارروائی کی جاتی ہے اسے بیشتر خانہ پری ہی کہا جائے گا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کیا وجہ ہے کہ کارروائی کے بعد بھی ایسے معاملات پر اس طور سے اب تک قابو نہیں پایا جا سکا جو قانون کی حکمرانی کی توثیق کرتا ہو۔
ٹرین، بس یا راستوں پر مسلمانوں کے ساتھ تشدد کے معاملات کی خبریں آئے دن آتی رہتی ہیں۔ ملک کی تقریباً ہر ریاست میں اس طرح کے معاملات رونما ہوتے رہتے ہیں جو مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد کے بڑھتے رجحان کی عکاسی کرتے ہیں۔ ایسے کئی معاملات میں بے گناہ مسلمانوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ شدت پسند ہندوتوا کے پیروکار شر پسندوں نے کئی دفعہ صرف شک کی بنیاد پر مسلمانوں کو زدو کوب کیا۔ اس طور سے مسلمانوں کو ہراساں کرنے کیلئے گئو رکشا اور لو جہاد جیسے مفروضات کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں لاقانونیت کا یہ عالم ہے کہ اول تو ایسے معاملات میں پولیس اور انتظامیہ خود کو کنارہ کش رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اور اگر بہ دل ناخواستہ کارروائی کرنا ہی پڑے تو وہ ایسی کارگر نہیں ہوتی کہ ان عناصر کو دوبارہ ایسا کرنے سے باز رکھ سکے۔ ان عناصرکی حوصلہ افزائی سماج کا وہ طبقہ بھی کرتا ہے جو شدت پسند ہندوتوا کا حامی ہے اور مسلمانوں کیخلاف تشدد کو بہادری سمجھتا ہے۔
نفرت اور تشدد نے سماج میں فرقہ واریت کی خلیج کو اس حد تک وسیع کرد یا ہے کہ اب عوامی رابطے بھی مذہبی یکسانیت کے پابند ہوتے جارہے ہیں۔ یہ صورتحال اس ملک کیلئے قطعی فائدہ مند نہیں ہے جس کی شناخت کا ایک اہم حوالہ تکثیریت ہے۔ معاشرہ کی مجموعی ترقی کیلئے اس تکثیریت کا تحفظ ناگزیر ہے۔ فرقہ پرست سیاسی نیتا اور انتظامی امور سے وابستہ افراد کی جانبداری اس مقصد کی راہ کا سب سے بڑا روڑہ ہیں ۔ ملک کی اکثریت کو اسلاموفوبیا سے خائف کرنے کیلئے بھگوا گروہ میں شامل سیاسی نیتاؤں نے ایسے سماجی مفروضات گڑھ لئے ہیں جو سماجی امن و ہم آہنگی کی فضا کیلئے خطرہ بن گئے ہیں۔ یہ خطرہ نہ صرف سماجی سالمیت کو متاثر کر رہا ہے بلکہ اس سے اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کی تعلیمی اور معاشی ترقی کی راہ میں پیچیدہ مسائل سر اٹھا رہے ہیں۔ بعض معاملات میں ان کی تہذیب و ثقافت کو بھی ہدف بنایا جا رہا ہے۔ ایسے بیشتر معاملات میں قانون کی پاسداری کو یقینی بنانے کی غرض سے قائم کئے گئے اداروں کا طرز عمل غیر اطمینان بخش اور اکثر غیر منصفانہ بھی ہوتا ہے۔ یہ معاملات جب عدالت تک پہنچتے ہیں تو تحصیل، ضلع اور ریاستی سطح کی عدالتوں کے ججوں کا فیصلہ اکثر اس طرز کا ہوتا ہے کہ اگر کوئی ’ مسکراتے ہوئے مارنے کی دھمکی دے تو اسے جرم کے زمرے میں نہیں رکھا جا سکتا۔ ‘
فسطائی عناصرشہری سوسائٹیوں میں مسلمانوں کے مکان خریدنے یا کسی کاروباری مرکز پر تجارت کرنے کو گوارہ نہیں کرتے۔ اب تو نو بت یہ آگئی ہے کہ ووٹر لسٹ میں مسلمان ووٹروں کا اندراج بھی نہیں کیا جاتا اور یہ سب کچھ اس سطح پر ہوتا ہے جس پر عوام کے درمیان بلا تفریق سماجی اور معاشی ترقی کو یقینی بنانے کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس ملک میں سماجی اور معاشی ترقی کیلئے یہ صورتحال بہت تشویش ناک ہے۔ آئین نے فرد اور سماج کی بہبود اور ترقی کے جو بھی التزامات کئے ہیں ان سب میں کسی بھی طرح کے تعصب کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور تمام اہالیان وطن کو صرف ہندوستانی ہونے کی حیثیت سے اپنی ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ملک و معاشرہ کی ترقی کیلئے ہمہ وقت آمادہ رہنے کی تلقین کی گئی ہےلیکن ادھر کچھ برسوں سے فسطائی عناصر اس آئینی التزام کے برعکس کام کر رہے ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف سماجی ہم آہنگی کا تصور مجروح ہوا ہے بلکہ لاقانونیت کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اقتدار اور انتظامیہ بھی عوام سے امتیازی سلوک کی حمایت کھلے بندوں کر رہی ہے۔
قانون کی حکمرانی کا معاملہ بیشتر گاڑی کا چالان کاٹنے، پانی اور بجلی کے کنکشن کاٹنے، تعلیمی اداروں میں جائز حقوق طلب کرنے والوں اور ملازمت کیلئے دھکے کھانے والوں پر لاٹھی چارج کرنے تک ہی محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ اس سے زیادہ اگر کچھ ہوا تو سیاسی نیتاؤں کی جی حضوری اور یہ سب کچھ پولیس سمیت ان تمام اداروں کے ذریعہ ہورہا ہے جن پر قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔