• Thu, 19 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

حالات کو بدلنے کیلئے مرد اور خواتین، دونوں کو سامنے آنا ہوگا

Updated: September 01, 2024, 4:13 PM IST | Aliza Shahid | Mumbai

کولکاتا سے لے کر بدلا پور تک خواتین کے خلاف پیش آنے والے جنسی ہراسانی کے واقعات پر خواتین کی تحریریں۔

Be it the incident of Kolkata or Badlapur, both have brought shame to the entire humanity. Photo: INN
بات کولکاتا کے واقعہ کی ہو یا پھر بدلا پور کے،دونوں نے پوری انسانیت کو شرم سار کیا ہے۔ تصویر : آئی این این

اس دورِ پرُفتن اور ناسازگار حالات سے قطع نظر ہم پہلے ماضی کے المناک دور کا جائزہ لیتے ہیں۔ اگر ہم تاریخی کتب کی ورق گردانی کریں تو عورتوں پر مظالم کے بے شمار واقعات سے ہمارا سامنا ہوگا۔ اسی لئے ہم اسے جہالت کا دور بھی کہتے ہیں۔ کیا عجب کہ موجودہ دور بھی ہماری آئندہ نسل کیلئے اسی طرح افسوسناک اور المناک دور ثابت ہو۔ ہر زمانے میں مختلف طبقوں میں عورتوں کو مردوں کے مقابلے میں کم حیثیت اور ذلت و پستی کی نگاہوں سے دیکھا گیا ہے۔ یہ وہی سوچ تھی جس کی وجہ سے زمانۂ جاہلیت میں لڑکیوں کی پیدائش کو باعثِ عار اور منحوس خیال کیا جاتا تھا اور ان معصوموں کو زندہ ہی درگور کر دیا جاتا تھا۔ ان ننھی کلیوں کے کھلنے سے پہلے ہی انہیں مسل دیا جاتا تھا۔ 
  اس کے باوجود ان میں سے جس کسی کو زندگی جینے کا حق دیا بھی جاتا تھا تو اس پر ظلم و تشدد کے پہاڑ توڑے جاتے تھے اور جبروکراہ کی چکی میں پیسا جاتا تھا۔ غرض زندگی ان کی ہوتی تھی، لیکن زندگی بسر کرنے کا حق دوسروں کے پاس ہوتا تھا جو انہیں فقط کھلونے سے زیادہ کچھ خیال نہ کرتے تھے۔ 

یہ بھی پڑھئے:خواتین اپنے تحفظ کے تئیں بے یقینی اور خوف کاشکار ہیں

حالانکہ دنیا کے اندر جتنی بھی قومیں اور جتنے بھی مذاہب و ادیان ظہور پذیر ہوئے ہیں، ان میں سے بیشتر میں مرد و عورت کے حقوق کو مساوی رکھا گیا ہے اور باہم محبت و شفقت اور عزت و احترام کے ساتھ رہنے کا درس دیا گیا ہے۔ مردوں کے ساتھ ہی خواتین کو بھی اپنی زندگی جینے کا مکمل اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے فیصلے بہتر طریقے سے خود کریں پھر خواہ تعلیم کی بات ہو، یا نکاح کرکے ازدواجی زندگی گزارنے کی بات ہو یا پھر زندگی سے متعلق کوئی اور معاملہ ہو، لیکن مذاہب سے دوری کے سبب آج انسانوں میں بھی کچھ حیوان پیدا ہوگئے ہیں۔ کولکاتا سے بدلا پور کے حالات کا تجزیہ کرنے بیٹھیں تو یہ بات آسانی سے سمجھ میں آجائے گی کہ مذہب بیزاروں نے خواتین کو جنسی استحصال کا سامان سمجھ لیا ہے۔ 
  دنیا گواہ ہے کہ زمانۂ وسطیٰ میں جب لوگوں کا رجحان مذاہب اور تعلیم کی طرف زیادہ ہو اتھا تو اُس وقت انسانی حقوق کی پاسداری بالکل اسی طرح کی جاتی تھی جیسا کہ اس کا حق تھا۔ یہ وہی دور تھا جب خواتین کو بھی سر آنکھوں پر بٹھایا گیا، لیکن جوں جوں مذہب پر دنیا داری حاوی ہوتی گئی، توں توں ان تعلیمات پر بھی پردہ پڑتا گیا جن کی وجہ سے انسانی بالخصوصی خواتین کے حقوق کی پاسداری کی جاتی تھی۔ 
  عصرِ حاضر کے کچھ بے شرم اوربے غیرت لوگوں نے اپنے نفس کی بھوک مٹانے کیلئے پھرسے بدتہذیبی کی چادر اوڑھ لی ہے اور سیاہ ماضی کے جانب رخت سفر باندھ لیا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ آج عورتیں ، لڑکیاں اور بچیاں نہ اپنے گھروں میں محفوظ ہیں، نہ ہی گھروں سے باہر۔ سرِعام ان کی عزت و عصمت کی چادریں داغدار کی جا رہی ہیں۔ ان کے ساتھ اجتماعی طور پر زیادتیوں کی خبریں روزانہ کی بنیاد پر سامنے آرہی ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک رپورٹ سامنے آئی ہے کہ وطن عزیز میں یومیہ ۹۰؍ خواتین کی آبروریزی ہوتی ہے اور ان میں سے کئی لڑکیوں کو موت کے گھاٹ بھی اتاردیا جاتا ہے۔ یہ حادثات روزانہ کےاخبارات اور سوشل میڈیا پر موضوعِ بحث بنے ہوئے ہیں۔ 
 ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اپنے حقوق اور قدر و منزلت پا لینے کے بعد پھر سے ان تمام چیزوں سے محروم ہونے کی وجہ کیا بنی؟ ایسا کیوں ہوا؟
 آج جب ہم اپنے حالات اور معاشرے کا بنظر غائر مشاہدہ کرتے ہیں تو عورتوں کی ایک بڑی تعداد کے رہن سہن اور گفتار و کردار سے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس ذلت و رسوائی میں خودہمارا بھی اتنا ہی دخل ہے جتنا کہ شیطان نما مردوں کا۔ اس لیے کہ ان کی تخلیق کا مقصد گھر کی زینت اور فراش ہے۔ یہ بات نہایت افسوس کے ساتھ کہنی پڑرہی ہے کہ ہم میں سے بیشترخواتین کواپنےجسم کا خیال رہتا ہے، نہ ہی اپنی عزت و احترام کا۔ وہ خواتین جنہوں نے خود کو زینتِ بازار بنا دیا ہے، جہاں وہ نامحرم مردوں کے ساتھ خلط ملط نظر آتی ہیں اور اپنے جسم کا اشتہار لگاتی پھرتی ہیں، وہی دوسری خواتین کیلئے بھی خطرے کا باعث بنتی ہیں۔ ان کی وجہ سے درندہ صفت مردوں کے اندر کا شیطانی وجود باہر نکلتا ہے جو عزت دار اور شریف گھرانے کی عورتوں اور بچیوں کو بھی اپنا شکار بنا لیتا ہے۔ موجودہ حالات سے بدظن ہوکر کچھ لوگ بچیوں کی تعلیم کی بھی مخالفت کرتے ہیں حالاکہ یہ بات اظہرمن الشمش ہے کہ تعلیم مردوں سے زیادہ عورتوں کیلئے ضروری ہے کیونکہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک کامیاب اور تعلیم یافتہ عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ خواہ وہ ماں ہو، بہن، بیوی یا پھر بیٹی ہو۔ 
 سچ تو یہ ہے کہ موجودہ حالات کیلئے کوئی ایک طبقہ اکیلے ہی ذمہ دار نہیں ہے۔ دونوں کا قصور نصف نصف ہے لہٰذا ضروری ہے کہ حالات کو بدلنے کیلئے دونوں ہی کوشاں ہوں۔ میری گزارش مردو خواتین دونوں سے ہے کہ ہم اس گھناؤنی خرافات کا کلیجہ چاک کر کے پھر سے زمانۂ وسطیٰ کی رونقوں سے اپنے حال کو منور کر نے کی کوشش کریں۔ ہمیں اپنی غلطیوں سے سبق لے کر آگے کیلئے لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK