• Tue, 17 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

خواتین اپنے تحفظ کے تئیں بے یقینی اور خوف کاشکار ہیں

Updated: September 01, 2024, 4:01 PM IST | Khaleda Fodkar | Mumbai

کولکاتا سے لے کر بدلا پور تک خواتین کے خلاف پیش آنے والے جنسی ہراسانی کے واقعات پر خواتین کی تحریریں۔

Be it the incident of Kolkata or Badlapur, both have brought shame to the entire humanity. Photo: INN
بات کولکاتا کے واقعہ کی ہو یا پھر بدلا پور کے،دونوں نے پوری انسانیت کو شرم سار کیا ہے۔ تصویر : آئی این این

ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے ’مہذب‘ سماج میں عورتوں کے خلاف جرائم اورجنسی ہراسانی کے معاملات تیزی کے ساتھ بڑھ رہے ہیں جن کی وجہ سے معاشرے میں بگاڑ اور اضطراب پیدا ہو گیا ہے۔ عورتوں کے حقوق و فرائض کے بارے میں تو ہر سطح پر باتیں ہوتی ہیں، تجاویزبھی موضوعِ بحث ہوتی ہیں مگرخواتین کے تحفظ کے سلسلے میں بڑی لاپروائی برتی جاتی ہے، زبانی جمع خرچ اور جھوٹے دعوے تو ہوتے ہیں مگر عملی اقدامات کے نام پر کچھ خاص پیش رفت نہیں ہوتی۔ عورتوں کی تعلیم، ان کی ترقی اور ان کی فلاح و بہبود کی اسکیمیں بھی غیر مؤثرثابت ہو رہی ہیں۔ خواتین اپنے تحفظ کے تئیں بے یقینی اور خوف کاشکار ہیں۔ بچیوں، بیٹیوں اور بہنوں کے کے بخیریت گھر واپس آجانے تک ماں باپ اور سرپرستوں کی جان سُولی پر ٹنگی رہتی ہے۔ کہیں نہ کہیں روزانہ ان کی عزت و ناموس پر ہونے والے حملے یہ ثابت کرتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ مہذب کہلانے کے لائق نہیں رہ گیا ہے۔ حالات اس قدر سنگین ہیں کہ ترقی یافتہ شہرہوں یا گاؤں دیہات، اسکول کالج ہوں یا دفتر، بازار ہوں یا تفریح گاہیں ، حتیٰ کہ مذہبی مقامات اور شفا خانوں جیسے مقامات کا تقدس بھی پامال ہورہا ہے۔ اگرمحفوظ سمجھی جانے والی یہ جگہیں بھی محفوظ نہ ہوں تو خواتین کی آزادی اور حقوقِ نسواں کی باتیں صرف نعروں اور کھوکھلے دعوؤں تک محدود ہو جاتی ہیں۔ 
 آج گوکہ ہم تعلیم وترقی کی معراج پر کھڑے ہیں مگر افسوس کہ اعلیٰ تعلیم اور تمدن و تہذیب کی کوئی بلندی بھی سماج میں خواتین کیلئے وہ احساسِ تحفظ پیدا نہیں کر سکی جو اُس کا حق ہے جس کے تحت بچّیاں اور خواتین بے فکری سے اپنے گھر سے باہر نکل سکیں، تعلیم حاصل کر سکیں ، عزت اور وقار کے ساتھ ان محفوظ جگہوں پر کام کرسکیں جہاں اُن کی آبرواور زندگیاں انسان نُما شیطانوں کی نظرِ بد کی زد پر نہ ہوں۔ 

یہ بھی پڑھئے:سنیتا ولیمزکی خلاء میں روانگی اور وہاں سےمحفوظ واپسی کسی سائنس فکشن فلم یا ناول سےکم ثابت نہیں ہوگی

اس پُر آشوب دورمیں خواتین پرجنسی ہراسانی اورتشدد کے یہ سنگین مسائل صرف تقریر و تحریر اور نعروں سے حل نہیں ہوں گے۔ یہ مسائل اب والدین، اساتذہ، علمائے کرام اور اربابِ اقتدار کی پُوری توجہ اورٹھوس اقدام چاہتے ہیں کہ اپنے اپنے دائرۂ عمل میں ہر ایک فرد اس مسئلےکے تدارک اور موثر حل کیلئےکوشش کرے۔ گھر اسکول سماج اور قانون و عدلیہ ایسے ادارے ہیں جن کی اصلاحات، پیش قدمی اور تال میل سے اس معاشرتی بگاڑ پر قابُو پایا جا سکتا ہے۔ اور بلا شبہ گھر اس پیش قدمی اور تربیت کا پہلا زینہ ہے۔
 تعلیم و تربیت میں اخلاقی و دینی پہلو شامل کرنے ہی سے جدید دور کی ان خرابیوں کی اصلاح ممکن ہے۔ تربیت نہ ہو توصرف نصابی تعلیم انسان کی کردارسازی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ اچھی تربیت سے بہرہ مند انسان ہی کمزوروں کے حقوق کی ادئیگی اورمعیاری اخلاقی تقاضوں کو پُورا کر پانے کا اہل ہو سکتا ہے۔ چونکہ تربیت نصابی تعلیم سے بہت پہلےکا مرحلہ ہے اوربچے اپنے گھر، ماحول ہی سے بہت کُچھ سیکھتے ہیں، اسلئے اپنے گھروں کے ماحول کو عورتوں کیلئے باعزت اور سازگار رکھنا ضروری ہے۔ نوعُمری ہی سے اپنے بیٹوں کی خصوصی ذہن سازی کرنے کی بھی اشدضرورت ہے۔ عورتوں کی عزت اور احترام کا درس اگر اُنہیں اپنے گھروں سے نہ ملے اور یہ لا زمی جز اُن کی تربیت میں شامل نہ ہو توبچّے آگے چل کر سماج کیلئے خطرہ ہی ثابت ہوں گے۔ خواتین کوحسبِ مراتب عزت واحترام دینے والوں اور اُن کا خیال رکھنے والے مردوں ہی سے اُمید کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنی ہم جماعت لڑکیوں اورساتھ میں کام اور سفر کرنے والی کو خواتین کو بھی عزت و احترام دیں گے اور اُن کا خیال رکھیں گے۔ 
 دیگر ممالک کی طرح ہمارےمُلک میں بھی عورتوں کی ایک بڑی تعداد اپنی خانگی ذمہ داریوں کے ساتھ معاشی ذمہ داریوں میں بھی ہاتھ بٹاتی ہے، اپنے اہل و عیال اور گھر کی بہتری کی خاطر دفتر، اسپتال، اسکول، فیکٹری اور مالز وغیرہ میں خدمات انجام دیتی ہے۔ یہ خواتین ملک اور قوم کا سرمایہ ہیں جو اپنی تعلیم اور صلاحیتوں کو نہ صرف اپنے گھر خاندان کی فلاح بلکہ مُلک وسماج کی تعمیر و ترقی کیلئے صرف کرتی ہیں۔ ان کی یہ خدمات اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ اُنہیں زندگی کے ہر میدان میں گھر، سماج اور قانون کا پُورا تحفظ حاصل ہو، گھر سے باہر کوئی اُنہیں ہراساں نہ کر سکے، اپنی عزت اور حُرمت کو بر قرار رکھتے ہوئے وہ اطمینان اور بے خوفی سے تعلیم حاصل کر سکیں اور اپنی دیگرذمہ داریاں پوری کر سکیں۔ 
 عورتوں کے خلاف جرائم پر شکنجہ کسنے کیلئےقوانین اور عدلیہ کا سخت ہونابے حد ضروری ہے کیونکہ کئی موقعوں پر جرائم پیشہ اور بیمار ذہنیت کے افراد قانون کی پُشت پناہی، نرمی اور خامیوں کا فائدہ اُٹھاتے رہے ہیں۔ قانون کا ڈر نہ ہونےاور اس کی گرفت سے بچ جانے کے ہتھ کنڈوں کےباعث مجرمین کے حوصلے بلند ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے جرائم میں روزانہ ضافہ ہوتا جاتا ہے۔ 
  اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ بُرا وقت کبھی نہ آئے کہ والدین بیٹیوں کی پیدائش سے خوفزدہ ہو جائیں اور خدا نخواستہ بیٹیاں خُدا سے اپنے نہ ہونے کی التجا کرنے لگیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK