• Sun, 20 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

زبان، تبادلۂ خیال اور ادائے مطلب کا وسیلہ ہے

Updated: October 20, 2024, 1:34 PM IST | Sajjad Zaheer | Mumbai

مشہور ترقی پسند ادیب سجاد ظہیر نے ۱۹۵۸ء میں ’’اردو کے حال اور مستقبل‘‘ کے عنوان سے ایک مقالہ پڑھا تھا جس کے کچھ حصے پیش ہیں۔ اسے پڑھ کر اردو کے موجودہ حال اور مستقبل کو بھی سمجھا جاسکتا ہے۔

It is now accepted that one can get the best education in his mother tongue. Photo: INN
اب یہ بات مان لی گئی ہے کہ جو جس کی مادری زبان ہے، اسی زبان میں اس کی سب سے اچھی تعلیم ہو سکتی ہے۔ تصویر : آئی این این

کسی زبان کی ترقی کے کیا معنی ہیں ؟ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایک زبان ترقی کر رہی ہے اگر اس کے بولنے والوں میں ، اس کے لکھنے پڑھنے والوں کی تعداد میں برابر اضافہ ہوتا رہے، یہاں تک کہ اس زبان کے بولنے والوں کا کوئی فرد بھی اَن پڑھ نہ رہ جائے۔ دوسرے یہ کہ وہ زبان نہ صرف لوگوں کی ناخواندگی دور کرے بلکہ اس کے وسیلے سے لوگوں کی ہمہ گیر اور ہمہ جہتی تعلیم اور تربیت بھی کی جا سکے اور اس کی اس صلاحیت میں سماج اور افراد کی ضرورتوں کے مطابق دن بدن اضافہ ہوتا رہے۔ 
معاملہ کو اس طرح دیکھنے سے یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ اس قسم کی ترقی کے معنی دراصل کسی قوم کی کلچرل ترقی کے ہیں اور ایسی ترقی صرف ایک جمہوری اور ترقی پزیر سماج میں ممکن ہے۔ اس لئے ہم زبان کی ترقی کے مسئلے کو کسی سماج کی عام ترقی کے سوال سے الگ کر کے نہیں دیکھ سکتے۔ 
مثلاً اگر انگریزی راج میں اور اس کے ماتحت دیسی ریاستوں میں ہماری قوم میں پڑھے لکھے لوگوں کی تعداد تیرہ چودہ فیصدی سے آگے نہ بڑھ سکی، ہندوستان کی مختلف زبانوں میں اگر ادب اور مختلف علوم و فنون کی کتابیں یورپ کی متعدد زبانوں مثلاً انگریزی، روسی، جرمن یا فرانسیسی کے مقابلے میں بہت ہی کم لکھی گئیں اور شائع ہوئیں اور اس طرح ان زبانوں کی بولنے والی قوموں کے مقابلے میں ہماری عام کلچرل سطح بہت پست رہی تو ظاہر ہے کہ اس کا سبب یہ تھا کہ بیرونی سیاسی محکومی کے ساتھ ساتھ مختلف طریقوں سے ہمارے ملک کا اتنا شدید استحصال ہو رہا تھا کہ یہاں پر ہماری قوم کی غالب اکثریت کے درمیان بھوک، مفلسی، بیماری اور جہالت پھلتی اور پھولتی رہیں۔ تہذیب، کلچر، ادب، علم وفن کی دولت سے ہم میں سے بیشتر محروم رکھے گئے۔ 

یہ بھی پڑھئے:چچا چھکن اور اے آئی

میرے خیال میں ہماری تحریک آزادی کا سب سے بڑا محرک ہندوستانی عوام میں یہی احساس محرومی تھا۔ یہ جذبہ تھا کہ ہم آزادی کی فضا میں اپنی لٹی ہوئی اور اجاڑ زندگی کو سمیٹیں ، بنائیں ، سنواریں ، اپنے دیس کی وافر اور فراواں دولت کو سیکڑوں گنا بڑھا کر اور اس کی منصفانہ تقسیم کر کے اپنی ابتدائی مادّی ضرورتوں کو پورا کریں ، صاف ستھرے گھروں ، رنگین پھولوں اور رسیلے پھلوں سے ڈھکے ہوئے خوبصورت گاؤوں اور شہروں میں رہیں ، اچھا کھائیں ، اچھے مشروبات پئیں ، اچھا پہنیں ، ہمارے جسم صحت مند ہوں اور ذہنی اور روحانی اعتبار سے بھی ہم اپنی بہترین روایتوں اور خصوصیتوں کے مطابق زندگی کو زیادہ لطیف اور پاک، زیادہ سنجیدہ اور گہری اور باشعور، زیادہ حسین اور پر مسرت بنائیں۔ 
جس حد تک بھی ہم اپنے اس مقصد کی طرف بڑھیں گے، ہمیں توقع کرنی چاہئے کہ ہماری کلچرل زندگی بھی پہلے کے مقابلے میں زیادہ بار آور ہو گئی۔ جب ملک کی اقتصادی تعمیر ہو گی، ہمارا زرعی مسئلہ حل ہوگا، زرعی پیداوار بڑھے گی، نئی نئی صنعتیں کھلیں گی، ہمارے ملک کے ذرائع اور وسائل زندگی میں مسلسل اضافہ ہوگا، یعنی قومی دولت بڑھےگی اور اس کی منصفانہ تقسیم ہوگی تو ظاہر ہے کہ اس کے ساتھ زیادہ اسکول بھی کھلیں گے، علوم وفنون کی ترویج وتعلیم میں مسلسل اضافہ ہوگا، زیادہ کتابیں رسالے اور اخبارات لکھے جائیں گے اور شائع ہوں گے۔ 
بجائے چند ہزار کے لاکھوں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں ان کے پڑھنے والے ہونگے، علمی اور ادبی ادارے، اکادمیاں ، لائبریریاں اور ریڈنگ روم جگہ جگہ ہوں گے، علم کا شوق اور ذوق بڑھےگا، نئی تحقیق وتفتیش کی راہیں سب کیلئے کھلیں گی، فنون لطیفہ کی ترقی ہوگی، تہذیب اور مدنیت کی بلند تر سطحوں پر جانے کیلئے ایک پیہم کوشش ہوگی۔ 
اس تصویر کے اندر اردو کی کیا پوزیشن ہونی چاہئے؟ زبان، تبادلہ خیال اور ادائے مطلب کا ایک وسیلہ ہے۔ اس کے ذریعہ سے انسان اپنا منشاء اور مفہوم ظاہر کرتے ہیں۔ جب وہ لکھ لی جاتی ہے تو پھر اس منشا اور مفہوم کو گویا محفوظ کر لیا جاتا ہے۔ اس طرح کتبوں ، مخطوطات پر چھپی ہوئی کتابوں ، رسالوں ، اخباروں اور اب ریڈیو، سنیما، ریکارڈ کے ذریعہ، الفاظ و معنی کے اس ذخیرے کو استعمال کر کے ہم زبان کے ذریعہ سے ادا کئے گئے مطالب کو جمع کر سکتے ہیں ، محفوظ کر سکتے ہیں تاکہ ضرورت پڑنے پر انہیں استعمال کریں ، اپنی تعلیم کے لئے، تفریح وتفنن کے لئے اور ہر قسم کے خیالات کو پھیلانے کے لئے۔ 
دنیا میں اور خود ہمارے ملک میں ایک یا دو نہیں بلکہ متعدد زبانیں ہیں۔ اب یہ بات مان لی گئی ہے کہ جو جس کی مادری زبان ہے، اسی زبان میں اس کی سب سے اچھی تعلیم ہو سکتی ہے۔ اسی کے ذریعہ اس کے ذہن اور دماغ میں علم کی روشنی سب سے مؤثر طریقے سے پھیلائی جا سکتی ہے۔ اسی لئے جمہوریت کا ایک مسلمہ اصول ہے کہ ہرشخص کو اپنی زبان میں تعلیم حاصل کرنے، اس کو برتنے اور استعمال کرنے، اس میں لکھنے اور پڑھنے کا حق ملنا چاہئے۔ یہ انسان کے بنیادی حقوق میں سے ایک حق ہے۔ 
چنانچہ ہندوستان کے آئین میں اس حق کو تسلیم کیا گیا ہے۔ ہندوستانی آئین میں چودہ زبانیں ایسی ہیں جن کو مساوی حیثیت سے یہاں کی قومی زبانیں مانا گیا ہے۔ اردو بھی ان چودہ میں سے ایک ہے۔ اسلئے تمام ان ہندوستانی شہریوں کیلئے جن کی زبان اردو ہے، یہ توقع کرنا کہ آزاد جمہوری ہندوستان میں انہیں اردو میں تعلیم دی جائے اور علوم وفنون اور ادب کی ترویج کے لئے اور تمام ان مواقع اور مقامات پر جہاں اردو جاننے والی پبلک کیلئے ترسیل خیال و مطلب کی ضرورت ہے، اردو کا استعمال ہونا چاہئے، ایک فطری، جائز اور برحق مطالبہ ہے۔ 
جو لوگ اس مطالبہ کی نفی کرتے ہیں ، براہِ راست یا بالواسطہ، وہ جمہوریت کے ایک بنیادی اصول کی نفی کرتے ہیں۔ ایسا کرنے کے معنی یہ ہیں کہ ہم ہندوستان کے لاکھوں باشندوں کو تعلیم، ترقی اور تربیت کے ان مواقع سے محروم رکھنا چاہتے ہیں جو کہ ایک آزاد جمہوری اور ترقی پسند نظام میں ان کو ملنا چاہئیں۔ اردو بولنے والے عوام کے خلاف ایسی پالیسی اختیار کرنا ناجائز، ناروا، غیر جمہوری اور غیرآئینی حرکت ہے۔ ہر جابرانہ اور غیر منصفانہ عمل کی طرح یہ ایک احمقانہ فعل بھی ہے۔ اسلئے کہ تاریخ یہ ثابت کرتی ہے کہ موجودہ زمانہ میں کسی قوم یا گروہ یا جماعت کو زیادہ دیر تک اس کے بنیادی جمہوری حقوق سے محروم نہیں رکھا جا سکتا۔ جو جماعتیں ، گروہ، پارٹیاں ، افراد ایسے افعال کے مرتکب ہوتے ہیں ، تاریخی قوتیں خودان کو مٹا دیتی ہیں۔ بزم جہاں کا اس وقت یہی انداز ہے۔ 
جب ہم گزشتہ دس سال پر نظر ڈالتے ہیں اور ہندوستان میں اردوکی موجودہ حالت کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں یہ ناخوشگوار حقیقت نظر آتی ہے کہ ٹھیک انہیں علاقوں میں جہاں سے اردو نکلی ہے اور جہاں لاکھوں آدمی اردو بولتے ہیں ، یعنی اتر پردیش، دہلی کے نواح، مشرقی پنجاب، بہار، مدھیہ پردیش اور راجستھان کے علاقے اور دکن کے بعض حصے، ان علاقوں میں طرح طرح کی پوچ اور لچر دلیلوں کو پیش کر کے اردو والوں کو ان کے بنیادی حقوق (جن میں سب سے اہم اور بڑا یہ ہے کہ اردو پڑھنے والے بچوں کی تعلیم کا معقول اور مکمل انتظام کیا جائے) سے بڑی حد تک محروم کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا چاہئے کہ اقلیتی زبان رکھنے والوں کو اپنے علاقے کی اکثریتی زبان بھی سیکھنا چاہئے۔ میں ان لوگوں کو سخت نادان، نافہم بلکہ جاہل سمجھتا ہوں جو اتر پردیش، دہلی، بہار، مدھیہ پردیش کے باشندے ہونے کے باوجود ہندی سے مغائرت برتتے ہیں یا اس کے سیکھنے پڑھنے، لکھنے سے کتراتے ہیں ، ایسا کر کے وہ اپنے آپ کو اپنے ہم قوم اور ہم وطن عوام اور ان کے تخلیق کیے ہوئے ادب سے کاٹ دیتے ہیں ، جس کا نتیجہ ادیبوں کے لئے تو خیر برا ہے ہی، روزمرہ کی زندگی میں بھی دشواریاں پیدا کرےگا اور خود ایسا کرنے والوں کو اپنے وطن میں اجنبی بنا دےگا۔ 
لیکن اگر اردو والوں کو صرف ہندی پڑھائی لکھائی جائے، اردو میں ان کی تعلیم کا انتظام نیچے سے لے کر اوپر تک نہ ہو، اور اس طرح اس بیش بہا تہذیبی خزانے کو برقرار نہ رکھا جائے جو محمد قلی قطب شاہ اور ولی سے لے کر ابوالکلام آزاد، پریم چند اور کرشن چندر تک ہمارے ملک میں اردو ادب کی شکل میں جمع ہوا ہے اور جو اردو داں عوام کا سب سے قیمتی ذہنی اور روحانی سرمایہ ہے، اگر اس کے مواقع نہ فراہم کیے جائیں کہ اس خزانہ میں مسلسل اضافہ ہوتا رہے تو اس سے بڑھ کر غیرمہذب اور وحشیانہ حرکت کا تصور ناممکن ہے۔ 
ہندوستان کی پانچ ہزار سال کی تہذیب میں بہت سی قومیں یہاں باہر سے آئیں ، اپنی تہذیبی سطح کے ساتھ وہ یہاں بس گئیں اور یہاں کی معاشرت کا ایک جزو بن گئیں۔ ان کی زبان اور ان کی تہذیب نے یہاں کی تہذیب پر اثر ڈالا اور پھر یہاں کی تہذیب نے ان اثرات کو اپنے اثرات میں جذب کر کے نئی تہذیبی شکلیں پیدا کیں۔ اس کے علاوہ بیرونی ملکوں سے لین دین کے سبب اور تجارت کے ذریعہ سے بھی بیرونی اثرات ہماری تہذیب پر پڑتے رہے۔ ہندوستان کی تہذیب نے اسی طرح آس پاس کے ملکوں پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ 
میرے خیال میں ہماری تہذیب پر سب سے گہرا اور صحیح معنوں میں انقلابی اثراس وقت پڑا جب انگریز یہاں آئے اور ان کے آنے کے سو سال بعد انیسویں صدی کے شروع میں نئی مشینی صنعت ہندوستان میں داخل ہوئی۔ اس صنعتی انقلاب نے جو ابھی تک جاری ہے، ہماری معیشت کی مادی بنیادوں کو بدلا۔ اس کی کامیابی پر ہی ہمارے سماجی اور اسی لئے تہذیبی اور تمدنی مسائل کا حل موقوف ہے۔ تاریخ کے اس عمل کو روکا نہیں جا سکتا، بالکل اسی طرح جیسے آریاؤں ، ہونوں اور ترکوں کے آنے سے ہمارے ملک کی تہذیب پر جو اثرات پڑے انہیں مٹایا نہیں جا سکتا۔ 
اردو انہی تاریخی حالات سے صدیوں پہلے ہندوستان کی سرزمین میں وجود میں آئی۔ مسلمان حکمرانوں کے ساتھ آٹھ صدیوں کے اقتدار کے زمانے میں سرکاری اور علمی زبان فارسی تھی لیکن اردو ہمارے بہت سے شہروں میں رہنے والے عوام کی زبان میں پنپتی رہی۔ وہ صوفیوں کی خانقاہوں میں بڑھی، بازاروں اور گھروں میں پھیلی حتیٰ کہ چور دروازوں سے امراء کے درباروں میں بھی داخل ہوئی۔ اس کی قوت اور مسلسل ترقی کا راز یہ تھا کہ وہ ہندوستانی عوام کے ایک بڑے حصے کے ان ذہنی اور جذباتی، کاروباری اور علمی تقاضوں کو پورا کرتی تھی جو تاریخی اور سماجی حالات کے سبب سے وجود میں آئے تھے۔ زبانیں اسی طرح وجود میں آتی ہیں، بڑھتی ہیں اور ترقی کرتی ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK