• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

اَدب اجتماعی شعور کی انفرادی دریافت اور تخلیقی اظہار کا نام ہے

Updated: July 21, 2024, 2:25 PM IST | Dr. Hanif Faq | Mumbai

یہ مشین سے نکلا ہوا پلیٹ فارم ٹکٹ نہیں اور نہ بٹن دبانے سے وجود میں آتا ہے۔ اس کے لئے فرد کو اپنی ذات اور اپنے ماحول میں نئی مطابقتیں قائم کرنا ہوتی ہیں۔

There is no denying that literature`s ability to dream has led us to the achievements of modern science. It is only through its recognition that we can better understand and explain the usefulness of literature. Photo: INN
ادب کے خواب دیکھنے کی صلاحیت نے موجودہ سائنس کے کارناموں تک ہمیں پہنچایا ہے ، اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے اعتراف کے ذریعہ ہی ہم ادب کی افادیت کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں، سمجھا سکتے ہیں۔ تصویر : آئی این این

پہلی بات تو یہ ہے کہ ادب کےتقاضوں اور عصر حاضر کے تقاضوں میں کوئی ایسی مغائرت نہیں کہ دونوں کا ذکر ایک ساتھ نہ کیا جائے۔ دونوں کی بنیاد انسان کا فطرت اور سماجی اداروں سے ربط باہم اور آویزش ِ پیہم ہے اور دونوں کی منزلِ مقصود انسان کا اپنے ماحول اور اپنی فطرت کے علم کے ذریعے انفرادی امکانات اور سماجی ارتباطات میں خوشگوار توازن قائم کرکے فرد کو کائنات کا طلسم کشا ہونا ہے۔ عصر حاضر نے ذرے میں جوہری توانائی کی دریافت سے مادی ترقی کے نئے دروازے کھول دیئے ہیں لیکن ادب اور تمام علومِ انسانی کا غایتی میلان یہ بھی ہے یا ہونا چاہئے کہ یہ توانائی انسانیت کیلئے زندگی کا پیغام لے کر آئے، موت کا نہیں۔ اس زندگی کے پیغام کے بہت سے مضمرات ہیں۔ انہیں سمجھنا اور سمجھانا ادب کا کام بھی ہے اور عصر رواں کا تقاضا بھی۔ 
  موجودہ سائنس کے کارناموں تک ہمیں ادب کے خواب دیکھنے کی صلاحیت نے پہنچایا ہے اور یہی صلاحیت ایک ایسے معاشرے بلکہ ایسے کرۂ ارض کی تشکیل بھی کرسکتی ہے جہاں انسان انسان کے خلاف نبردآزما ہونے کے بجائے فطرت کی ان قوتوں سے رزم آراء رہے جو اس کے انفرادی و اجتماعی امکانات ِ ترقی میں حائل ہیں۔ اس جنگ میں وہ اپنی ذات کا علم بھی حاصل کرتا ہے، اسے اپنے ماحول کا عرفان بھی ہوتا ہے اور وہ ان اجتماعی اور سماجی رشتوں کو بھی پہچانتا ہے جن سے اس کی زندگی عبارت ہے۔ اپنے ماحول کو بدلنے کی کوشش میں اجتماعی اور سماجی رشتوں کی تبدیلی کے ساتھ وہ انفرادی و ذہنی ترقی اور اجتماعی شعور کی نئی منزلیں طے کرتا ہے۔ عصر رواں کی تگ و دو ہمیں اس ذہنی ترقی اور ادب کو اپنی تخلیقی سرگرمیوں کےذریعے انسان کو نئے مقاصد، نئی اقدار سے آشنا کرتی ہے۔ سائنس کا شرر بھی اسی علم کے دہکتے انگارے کا کرشمہ ہے جس کی حرارت ادب کی تخلیقی توانائی جذب کرلیتی ہے۔ یہ توانائی جوہر توانائی کی حلیف بھی ہے اور حریف بھی۔ لیکن حلیف زیادہ ہے اور حریف کم۔ ادب جوہری توانائی کی طرح نئی جہتوں کی دریافت ہے لیکن اس دریافت کو بیک وقت خوابوں کی رنگینی اور حقیقت کی نیرنگی نے پُرمایہ بنایا ہے اسی لئے وہ نہ صرف نئی دریافتوں کی محرکانہ قوت ہے جو انسانی جدوجہد میں مضمر ہے بلکہ اس جدوجہد کو سمت و شعور عطا کرنا بھی اس کا کام ہے۔ اس لحاظ سے ادبی تقاضوں پر بحث کرتے وقت موجودہ عصر کی سماجی اور انسانی جدوجہد کو نظرانداز کرینا خود ادب کی اس بنیادی روح کو فراموش کردینا ہے جو اسے معنویت اور وقار بخشتی ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: عارفانہ اور متصوفانہ اشعار کی تفہیم (۱۲)

سائنس، سیاست اور بین الاقوامی استحصال کے مثلث نے جوہری طاقت رکھنے والی عظیم تر قوموں کے نظریہ کو جنم دیا ہے اور ان عظیم تر قوموں نے باقی دنیا کو اپنے حلقۂ اثر میں لانے کیلئے بازیچہ ٔ ستم بنا رکھا ہے۔ اگر سائنس اور ادب دونوں کا مرکز و محور انسان اور ہیئت ِ اجتماعی ہی ہے تو عظیم تر بتوں کی شکست بھی لازم ہے کہ انسان کی عظمت کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان خارجی شکنجوں سے آزاد ہو جنہیں مختلف خوبصورت ناموں سے استحصالی قوتیں پیش کرتی رہی ہیں۔ جہاں عصر حاضر کو کم ترقی یافتہ اقوام کی حریت ِ فکر و عمل کے نئے روشنی کے میناروں سے زیادہ سروکار رکھنا ہے وہیں ادب اور سائنس کو بھی تاریخ کی اس کشمکش میں اپنا مثبت فرض انجام دینا ہے۔ نیا سائنسی شعور عظیم تر اقوام کے استحصالی تصور کو رد کردیتا ہے اور نیا ادبی شعور اس جہد ِ مسلسل کا ترجمان ہے جو دُنیا کے مختلف خطوں کے عوام معاشی خوشحالی اور تہذیبی ترقی کے لئے قومی اور بین الاقوامی استبداد کے خلاف کررہے ہیں۔ یہ جدوجہد مختلف قوموں کے خوابوں کی امین ہے۔ ان خوابوں کی شکلیں مختلف ہیں اور ان خوابوں کے دیکھنے والے اظہار کے مختلف پیرائے رکھتے ہیں لیکن وہ ادبی فکر جسے خیال کی تنظیم کا علم کہا جاسکتا ہے، اس اختلاف میں جدوجہد کی بنیادی وحدت کی کارفرمائی دیکھتی ہے۔ یہی بنیادی وحدت اس امر کی آئینہ دار ہے کہ موجودہ نظامِ پیداوار اور تقسیم کی پیداکردہ خصوصی مہارت کی تقسیم کار کو برقرار رکھتے ہوئے بھی وحدت ِ علم کا وہ تصور ظہور میں آسکتا ہے جو انسانی مہارت کو خانوں میں بانٹنے کے بجائے کل نوعِ آدم کی میراث بنادے گا۔ 
  ادب بھی انفرادی ذہانت کی تخلیق ہے۔ نہ یہ کارخانوں میں ڈھل کر نکلتا ہے اور نہ کیمیاوی مرکبات ادبی صلاحیت کا بدل ہوسکتے ہیں۔ لیکن یہ انفرادی ذہانت اگر صحیح طور پر صرف کی جائے تو اجتماعی شعور کی راہ میں حائل نہیں بلکہ خود اس اجتماعی شعور کو فروغ دینے اور اس کی بلند ترین سطحوں تک پہنچنے کا بہترین آلہ ہے۔ ادب اور دوسرے انسانی علوم انفرادی ریاضت، ذہانت اور ذوق و شوق کے بغیر مشکل سے پروان چڑھ سکتے ہیں۔ نیا معاشرہ ذہانت اور ذوق وشوق کی خصوصیات کو عام کردے گا اس کے باوجود ایک مخصوص فن کی طرف ترجیحی رجحان اور مدارجِ تخلیق کا عرفان باقی رہے گا کہ یہ تقسیم کار انسانی تاریخ کے سفر کی دلیل ہے۔ اس کے برخلاف ترقی پسند تحریک کے بعض میکانیکی شعور کے حامیوں نے صرف موضو ع کی اہمیت پر زور دیا او ر موضوع و ہیئت کو نظرانداز کردیا لیکن ایک کے بغیر دوسرے کی تکمیل نہیں ہوتی۔ ان کا نظریۂ ادب فارمولے میں ڈھلی تخلیقات کو فروغ دینا چاہتا ہے جن سے پڑھنے والے جلد بیزار ہوجاتے ہیں کیونکہ ان میں وہ تخلیق کی لہر نہیں جو اپنے موضوع کو وجود کی گہرائیوں میں مضطرب پاتی ہے اور نئے تخلیقی اظہار کا انسانی جدوجہد سے رابطہ قائم کرتی ہے۔ ہر فنکارانہ تخلیق اپنے طور پر اجتماعی شعور کی وسعتوں کو سمیٹتی اور ماحول سے ذہن کے نئے تخلیقی رابطے استوار کرتی ہے۔ 
  ادب پیچیدہ عملِ تخلیق ہے، وہ مشین سے نکلا ہوا پلیٹ فارم ٹکٹ نہیں اور نہ بٹن دبانے سے وجود میں آتا ہے۔ اس کے لئے فرد کو اپنی ذات اور اپنے ماحول میں نئی مطابقتیں قائم کرنا ہوتی ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ بندھے ٹکے خیالات کا اظہار اور فرسودہ اسالیب کی تکرار اکتا دینے والی ہے لیکن تخلیق مسلسل جستجو کا عمل ہے۔ موضوع کے نت نئے پہلوؤں کے اعتبار سے بھی اور اسالیب ِ اظہار کی تازہ کاری کے لحاظ سے بھی۔ پھر انقلاب سے وابستگی کا صرف زبانی عمل کافی نہیں۔ اگر تخلیق وجود کی گہرائیوں کا اظہار ہے تو جدوجہد سے وابستگی وجود کی گہرائیوں تک ضروری ہے۔ 
 اس وابستگی کے بعد ہی وہ ادب ظہور میں آسکتا ہے جو اجتماعی شعور کا اظہار کرتے ہوئے بھی فرد کی اپنی کائنات کی دریافت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس مغالطے کا سدباب بھی ضروری ہے کہ شعورِ اجتماعیت انفرادی امکانات کے فروغ میں سدراہ ہے۔ فرد جب اپنی ذات سے باہر کا سفر کرتا ہے تو خود اپنی فردیت کی تکمیل کے عمل میں معاون ہوتا ہے۔ انفرادی آزادی کے نام پر کٹی پھٹی اور گھٹی ہوئی انفرادیت جو سماجی ناانصافی، معاشی جبر اور نظام ِ استحصال کی شکار ہے، کوئی بڑا تخلیقی کارنامہ سرانجام نہیں دے سکتی۔ ذات جب ہیبت اجتماعی سے وابستہ ہوتی ہے اور فرد کا ذہن کائناتی کشمکش کا عکس بن جاتا ہے تب ادب و فن کے عظیم کارنامے وجود میں آتے ہیں۔ دراصل ادب اجتماعی شعور کی انفرادی دریافت اور تخلیقی اظہار کا نام ہے اور ادبی واردات انفرادی رہتے ہوئے بھی عالمگیر تاریخی صداقتوں کا پیکر بن جاتی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK