• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

عارفانہ اور متصوفانہ اشعار کی تفہیم (۱۲)

Updated: July 15, 2024, 1:54 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai

اس ہفتے ملاحظہ کریں مشہور عالم دین اور بے ریا صوفی شاعر شاہ تراب علی قلندر کےحالات و اشعار۔

Hand painted picture of Shah Turab Ali Qalandar. Photo: INN
شاہ تراب علی قلندر کی ہاتھ سے بنائی گئی تصویر۔ تصویر : آئی این این

 ہندوستانی صوفیہ کے حلقے میں تصنیف وتالیف کا سلسلہ پندرہویں صدی عیسوی میں ہی شروع ہوچکا تھا۔ ان میں بعض کو عوامی شہرت ومقبولیت نصیب ہوئی، بعض کا ذکر ادبی تاریخوں تک محدود ہے اور بعض کے حالات ادبی تاریخوں اور تذکروں میں بھی نہیں ملتے۔ شاہ محمد کاظم قلندر کے نسبی، روحانی جانشین اور خانقاہ کاظمیہ(کاکوری) کے صاحبِ سجادہ شاہ تراب علی قلندر (۱۷۶۸۔ ۱۸۵۸ء) کے حالات اور کلام تذکروں میں دستیاب ہیں مگر وہ صوفی اور شیخ طریقت کے طورپر زیادہ مشہورہیں۔ وہ تین زبانوں ( فارسی، اردو، برج بھاشا) میں شعر کہتےتھے مگر شاعرکی حیثیت سے ان کی شہرت خواص تک محدود رہی، ہاں ان کے بعض اشعار خوب مشہور ہوئے مثلاً
(۱)مجھ کو دیوانہ کرکے کہتا ہے
تو نے یہ شکل کیا بنائی ہے
(۲) مری عاشقی کا مچا ہے شور کوئی دیکھے میرے جنوں کا زور
جو اجاڑ کھنڈ تھا قیس کا اسے جاکے میں نے بسادیا
(۳)مجھے یار سے اب یہی گفتگو ہے 
جو تو ہے سو میں ہوں جو میں ہوں سو تو ہے
(۴)شہر میں اپنے یہ لیلیٰ نے منادی کردی 
کوئی پتھر سے نہ مارے مرے دیوانے کو
(۵)ہوس ہے آرزو دنیا و دیں کی 
تراب اللہ بس باقی ہوس ہے
مقامی بولیوں میں شعر کہنے کی روایت بہت پرانی ہے مثلاً امیر خسرو سے دوسوسال پہلے سعد سلمان کا ذکر ملتاہے جومقامی بولی میں شعر کہتے تھے۔ امیر خسرو فارسی کے علاوہ مقامی بولی میں بھی شعر کہتے تھے۔ سنسکرت سے بھی واقفیت رکھتے تھے۔ ’تزک جہانگیری‘ میں شہزادہ دانیال کے ہندوستانی میں شعر کہنے کا ذکرموجود ہے، عبدالرحیم خانخاناں تو ہندی زبان کے مایہ ٔناز شاعر ہیں۔ جہانگیر کے دور میں غواصی نامی شاعر گزرا ہے جس کے ’طوطی نامہ ‘ میں ایک مصرع فارسی اور دوسرا ہندوستانی کا ہے۔ عبدالجلیل بلگرامی جو اورنگ زیب کے دربار سے وابستہ تھے ہندی یا ہندوستانی میں شعر کہتے تھے۔ اسی زمانے میں سید نظام الدین ’مد ھنایک ‘ بھی مقامی زبان میں شعر کہتے تھے۔ سید غلام نبی ’ برج بھاشا‘ میں شعر کہتے تھے۔ سید برکت اللہ مارہروی عالم، فقیہ اور صاحب دل شاعر تھے، اودھی اور برج بھاشا میں شعر کہتے تھے تخلص ’’پیمی‘‘ تھا۔ شاہ تراب علی قلندر نے جب شعر کہنا شروع کیا اس وقت خواجہ میردرد دہلی میں محفل سجائے ہوئے تھے۔ مرزا مظہرجان جاناں حیات تھے اور میرؔ، سودا ؔاور میرحسن لکھنؤ پہنچ چکے تھے۔ 

یہ بھی پڑھئے: عارفانہ اور متصوفانہ اشعار کی تفہیم (۱۱)

شاہ تراب علی قلندر کو تعلیم ظاہری کے ساتھ بارہ سال کی عمر سے ہی اذکار کی مشق کرائی جارہی تھی۔ شعر گوئی کا ملکہ وہبی تھا۔ قدرت کی عنایت یہ بھی تھی کہ نظم ونثر میں جو بھی زبان سے نکل جاتا سننے والوں کی کایا پلٹ کردیتاتھا۔ والد گرامی شاہ محمد کاظم قلندر بھی صاحب دل صوفی اور شاعر تھے۔ سکروجذب میں مبتلا ہوکر شعر بھی پڑھتے تھے۔ ایک روز والد گرامی کے غلغلۂ عشق اور نغمہ سرائی کے بارے میں کوئی جملہ زبان سے نکل گیا اورکسی نے والد گرامی کو اس کی اطلاع بھی دیدی۔ اس عارف کامل ( شاہ محمد کاظم قلندر) نے تبسم فرماتے ہوئے صرف اتنا کہا
جب لگھیے تب جنھیے
 اور شاہ تراب علی قلندر کے دل کی دنیا بدل گئی۔ اسی کیفیت میں یہ غزل کہی
کس مبتلا کی ہائے مجھے بددعا لگی
اس شوخ چشم سے جو مری آنکھ جا لگی 
رونے سے ایک پل نہیں فرصت فراق میں 
یہ آنکھ کیا لگی مرے پیچھے بلا لگی 
تصویر میری دیکھ کے کہتے ہیں سب یہی 
 کیا جانے اس غریب کے دل پر ہے کیا لگی
پوچھے تو کوئی اس بت ِ محجوب سے یہ بات
کیوں ہم کو قتل کرتے نہ تجھ کو حیا لگی
کیوں کر تراب اس سے کرے دل لگی بھلا
 مثل حباب جس کو ہے ہر دم فنا لگی
تصوف کےدقیق مسائل اور فلسفۂ اخلاق کو آپ نے اپنے شعروں میں بہت آسان لفظوں میں بیان کیاہے مثلاً تجلیات، توحید، تسلیم ورضا وغیرہ
(۱) موسیٰ نے جسے جلوہ نما طور سے دیکھا
کالبرق اسے میں نے بھی دور سے دیکھا
بجلی چمکے تو ابھی آنکھ جھپک جاتی ہے
بھر نظر کس نے بھلا صورت جاناں دیکھی
(۲) کوئی ایسی ذات کو کیا کہے جو نہ فرد ہے نہ وحید ہے
صفت اس کی ہو وے کسی سے کیا نہ وہ دیدہے نہ شنید ہے
بہ نگاہ کاظم رہنما بہ طفیل باسطِ مقتدیٰ
ہے وہی شہود تراب کا جو قلندروں کی بھی دید ہے
(۳)طینت انساں کی خاکساری ہے
جو تکبر کرے وہ ناری ہے
ایک غزل میں انسان کی پیدائش اور کارکردگی کے لحاظ سے اس کی حیثیت بیان کی ہے۔ اس غزل کو ’انسان نامہ ‘ بھی کہا جاسکتا ہے
خدا کی شکل پر آدم بنا ہے
یہ آدم کیا عجب عالم بنا ہے
دل اس کا ہے مثالِ لوح محفوظ 
اس کی نقل جام جم بنا ہے
کہیں موسیٰ کہیں فرعون و ہاماں 
کہیں عیسیٰ کہیں مریم بنا ہے
کہیں زاہد کہیں عابد کہیں رند
کہیں شبلی کہیں ادّھم بنا ہے
کہیں ہنستا کہیں روتا کہیں چپ 
کہیں شادی کہیں ماتم بنا ہے
کہیں حکمت کہیں دارو کہیں درد
کہیں زخمی کہیں مرہم بنا ہے
کہیں ذرہ کہیں خورشید عزہ 
کہیں قطرہ کہیں قلزم بنا ہے
تراب اس کو کسی دم بھولیے مت
کہ وہ ہردم ترا ہمدم بنا ہے
 ہرشعر بے پناہ آمد کا ثبوت ہے مگر شعر اس وقت کہتے تھے جب معمولات سے فارغ ہوچکے ہوں۔ کسی شعر پر نظرثانی نہیں کرتے تھے، لفظوں کی تہذیب سے بھی انہیں کوئی واسطہ نہیں تھا۔ شعر گوئی ان کے لئے تہذیب نفس کا وسیلہ تھی۔ تین زبانوں کی شاعری کے علاوہ تقریباً ۱۵؍ تصانیف یاد گار چھوڑی ہیں۔ آئندہ یا مستقبل میں رونما ہونے والے واقعات پر بھی ان کی نظر تھی۔ مثال کے طورپر امیر دوست محمد خاں کی حکمرانی کے دور میں جب انگریزوں نے کابل پر حملہ کیا تو آپ نے کہا
جس کا اقبال ہو تنزل پر
وہ چڑھے لے کے فوج کابل پر 
دنیا نے دیکھاکہ انگریزوں کے بعد روس وامریکہ نے بھی افغانستان پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تو ذلیل ورسوا ہوکر بھاگنے پر مجبور ہوئے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مندرجہ بالا شعر کسی ا یسے شخص نے کہا ہے مستقبل جس کی آنکھوں میں تھا۔ بے شک قلندروں اور اللہ والوں کی یہی شان ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK