وزیراعظم مودی اپنی انتخابی مہم اور بیانات کے ذریعہ بھلے ہی کچھ زیادہ ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں مگر سماج کو اس سے جو نقصان پہنچے گا اس کی بھرپائی مشکل ہوگی۔
EPAPER
Updated: May 05, 2024, 5:28 PM IST | Asim Jalal | Mumbai
وزیراعظم مودی اپنی انتخابی مہم اور بیانات کے ذریعہ بھلے ہی کچھ زیادہ ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں مگر سماج کو اس سے جو نقصان پہنچے گا اس کی بھرپائی مشکل ہوگی۔
وزیراعظم مودی کے ملک پر اقتدار کو ۱۰؍ سال مکمل ہو چکے ہیں۔ ۷۳؍سال کی عمر میں وہ تیسری بار الیکشن جیتنے کے دعویدار ہیں، حالانکہ ۷۵؍ سال سے زائد عمر کا حوالہ دیکر انہوں نے اپنے سیاسی گرو اڈوانی کو ’’مارگ درشک منڈل‘‘ میں ڈال دیاتھا۔ دعویدار ہی نہیں بلکہ ’’۴۰۰؍ پار‘‘کا نعرہ دے کر مودی نےاس اعتماد کااظہار بھی کیا ہے کہ وہ نہ صرف ایک بار پھر ملک کی باگ ڈور سنبھالنے والے ہیں بلکہ ۲۰۱۴ء کے بعد ۲۰۱۹ء میں سیٹوں کے اضافہ کی جو شرح(۲۸۲؍ سے بڑھ کر ۳۰۳) تھی وہ بھی غیر معمولی طور پر بڑھ جائے گی اور عوام ایسی بھاری اکثریت سے اقتدار سونپیں گے جو تاریخی ہوگی۔
عوام میں اپنی مقبولیت کا ایسا غیر معمولی یقین کسی بھی لیڈر کی بہت بڑی طاقت ہوتی ہے، مگر اس یقین کے بعد بھی وزیراعظم اگر ہندو مسلمان اور دروغ گوئی کا ہی سہارا لیں تو یہ افسوسناک ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ملک کا سر شرم سے جھکادینےکا باعث بھی ہے۔ افسوس کہ لوک سبھا کی انتخابی مہم میں مسلمان اور پاکستان کی شمولیت کا انتظار بہت زیادہ نہیں کرنا پڑا۔ پہلے مرحلے کی پولنگ مکمل ہوتے ہی وزیراعظم نے وہ کارڈ کھیلنا شروع کردیا جس کے وہ ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ اسے ان کی بے چینی کا نتیجہ قرار دیا جارہا۔ کہا جارہاہے کہ پہلے مرحلہ میں ہونےوالی کم پولنگ نے وزیراعظم مودی اور پوری بی جےپی کو بوکھلاہٹ میں مبتلا اور سیٹیں کم آنے کے خوف نے انہیں اپنی آزمودہ پچ پر لوٹنے پر مجبور کردیا ہے۔ انہیں یہ احساس بھی ہوگیا ہے کہ جن امیدوں کےساتھ وقت سے پہلے رام مندر کا افتتاح کردیاگیاتھا وہ امیدیں پوری نہیں ہورہی ہیں۔ اس کیلئے وزیراعظم ایک بار پھر وزارت عظمیٰ کے عہدہ کے وقار کی قربانی دینے سے بھی پیچھے نہیں ہٹے جیسا کہ وہ پہلے بھی کرچکے ہیں۔ استعاروں کا سہارالینے کے بجائے براہ راست مسلمانوں کا نام لے کر انہیں ’درانداز‘ اور’’زیادہ بچے پیدا کرنے والے‘‘ کا جو سلسلہ وزیراعظم نے شروع کیا اسے تیزی سے پارٹی کے تمام لیڈروں نے اپنایا۔
وزیراعظم کا راہل گاندھی کیلئےلفظ’’شہزادہ‘‘ کا استعمال کرنا، یہ کہنا کہ انہیں ’’مہاراجاؤں ‘‘ کے مظالم تو یادہیں مگر ’’نوابوں ‘‘ کے مظالم پر وہ خاموش رہتے ہیں، یا پھر ہندو خواتین کو یہ ڈرانا کہ کانگریس ان کے منگل سوتر چھین کر اپنے ’’ووٹ بینک‘‘ میں تقسیم کردے گی، یہ سب کچھ اس بات پردلالت کرتا ہے کہ گزشتہ ۱۰؍ برسوں کے اقتدار کے تعلق سے کئے گئے بلند بانگ دعوے محض دعوے ہیں، خود وزیراعظم یہ سمجھ رہے ہیں کہ انہوں نے ۱۰؍ برسوں میں جو کچھ بھی کیا ہے وہ اس لائق نہیں کہ عوام انہیں اس کی بنیاد پر دوبارہ اقتدار سونپ دیں گے۔ ان کے اشارہ کو بی جے پی لیڈروں نے بخوبی سمجھ لیا ہے کہ اقتدار اگر دوبارہ حاصل کرنا ہے تو ساری انتخابی مہم کا اکثریتی طبقے کو اقلیتوں سے متنفر کرنے کی کوششوں پر مرکوز رکھنا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی مودی کو کانگریس کے انتخابی منشور پر’’مسلم لیگ‘‘ کی چھاپ نظر آتی ہے تو کبھی یوگی وراثتی ٹیکس کے مفروضے سے عوام کو ڈراتے ہوئے اس کا موازنہ ’’جزیہ‘‘ سے کردیتے ہیں۔
بہت ممکن ہے کہ یہ سب کچھ پہلے مرحلے میں ووٹروں کے جوش وخروش میں کمی کی وجہ سے پیدا ہونے والے خوف کا نتیجہ ہو۔ اس خیال کو تقویت اس بات سے بھی حاصل ہوتی ہے کہ وزیراعظم نے ’’۴۰۰؍ کے پار‘‘ کا وہ نعرہ بلند کرنا کم بند دیا ہے جو انتخابی مہم کے شروع ہونے سے پہلے سے بلند کیا جانے لگا تھا۔ ’’مودی کی گیارنٹی‘‘ کی للکار بھی اب کم سنائی دیتی ہے۔ اس کے برخلاف ملک کے عوام کو کانگریس کے لوٹ آنے کے ’’اندیشوں ‘‘ میں مبتلا کرکے ڈرایا جارہاہے۔ انہیں ڈرایا جا رہاہے کہ اگر کانگریس لوٹ آئی تو اکثریتی فرقے کے وسائل کو چھین کر اقلیتوں کے حوالے کردے گی۔ محض ووٹوں اور اقتدار کیلئے ملک کے سب سے بڑے آئینی عہدہ پر فائز کسی شخص کا اتنی پستی تک چلے جانا ملک کے مستقبل کیلئے قطعی فال نیک نہیں ہے۔ وزیراعظم کا یہ کہنا کہ اگر کانگریس اقتدار میں آگئی تو آپ کی دو بھینسوں میں سے ایک بھینس چھین کر کانگریس ’’اپنے ووٹ بینک‘‘ کو دے دے گی، ان کے قد کو بہت چھوٹا کردیتاہے۔ وزیراعظم مودی اپنی اس انتخابی مہم اور اپنے اُن بیانات کے ذریعہ جن کا سچائی اور حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے، ممکن ہے کہ کچھ زیادہ ووٹ اور کچھ زیادہ سیٹیں جیت لیں مگر اس کی وجہ سے جو نقصان ہوگا اس بھرپائی مشکل ہوگی۔ یہ حقیقت ہی ان کی پوری انتخابی مہم پر سوال کھڑا کردیتی ہے کہ وہ موضوعات اٹھا رہے ہیں جن کا کانگریس کی انتخابی مہم میں دور دور تک ذکر بھی نہیں ہے۔ اس کی وجہ سے وہ لبرل طبقہ جو ترقی کی امید پر ان کے قریب آیاتھا، ان سے دور ہونے لگا ہے۔
ویسے یہ مقام افسوس ہی ہے کہ ملک کی ۸۰؍ فیصد آبادی کو ۲۰؍ فیصد سے بھی کم آبادی سے ڈرانے کی یہ حکمت عملی بڑی حد تک کامیاب ہے۔ وہ جھوٹ جو کئی دہائیوں سے بولے جارہے ہیں اور جن کے جھوٹ ہونے کو ایک سے زائد بار ثابت کیا جاچکاہے، آج بھی انہیں سچ سمجھنے والے نہ صرف موجود ہیں بلکہ ان کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ اسے ملک کی بڑی آبادی کے ذہنی دیوالیہ پن کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتاہے۔ اور عوام کو اس دیوالیہ پن میں مبتلا کرنے میں ہندوستانی میڈیا جو رول ادا کررہا ہے وہ تاریخ میں رقم ہورہاہے۔ ایسے میں ملک کے اُن ووٹروں کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے جو حالات کو سمجھ رہے ہیں۔ ان کیلئے ضروری ہے کہ بقیہ مراحل کے تعلق سے عوام میں بیداری پیدا کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ ایسی حرکتوں کا جواب ووٹوں کے ذریعہ پوری ذمہ داری کے ساتھ دیا جائے۔