اگر اپوزیشن کی انتخابی ریلیوں میں آنے والا ہجوم ووٹوں میں تبدیل ہو ا تو آئندہ تین دنوں میں ملک کا سیاسی منظرنامہ تبدیل ہو سکتا ہے۔
EPAPER
Updated: June 02, 2024, 5:09 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai
اگر اپوزیشن کی انتخابی ریلیوں میں آنے والا ہجوم ووٹوں میں تبدیل ہو ا تو آئندہ تین دنوں میں ملک کا سیاسی منظرنامہ تبدیل ہو سکتا ہے۔
۲۰۲۴ء کے پارلیمانی الیکشن کے نتائج جس شکل میں بھی ظاہر ہوں، یہ انتخاب کئی اعتبار سے عوام کو یاد رہے گا۔ تیسری مرتبہ حکومت سازی کا عزم لے کر میدان میں اُترنے والی بی جے پی اور اس کی حلیف پارٹیوں کو انڈیا اتحاد نے جس جوش اور ولولے سے ٹکر دی، اس نے گودی میڈیا کے اس پروپیگنڈہ کی قلعی اتار دی جس میں بار بار یہ جتانے کی کوشش کی جاتی رہی کہ اپوزیشن دن بہ دن کمزور ہوتا جا رہا ہے اور عوام سے اس کے رابطے میں خلا پیدا ہو چلا ہے۔ اس الیکشن کی انتخابی ریلیوں میں انڈیا اتحاد کے لیڈروں کو سننے کیلئے عوام کا جم غفیر یہ ظاہر کرتا رہا کہ گزشتہ دو انتخابات میں بی جے پی نے جن وعدوں کے دم پر ان کے ووٹ حاصل کئے ان سے بیشتر ’انتخابی جملے‘ ثابت ہوئے۔ اگر ریلیوں کا یہ ہجوم ووٹ میں تبدیل ہو ا تو اگلے تین دنوں میں ملک کا سیاسی منظرنامہ تبدیل ہو سکتا ہے۔ عوام اور سیاسی لیڈروں کے رابطہ کی حقیقت تو ووٹوں کی گنتی کے بعد ظاہر ہوگی لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس الیکشن میں وزیر اعظم کو سخت امتحان سے گزرنا پڑا۔
یہ امتحان سیاست میں جمہور کی قدر و منزلت کے تصور سے وابستہ نہیں ہے اور نہ ہی اس امتحان کی بنیاد گزشتہ ۱۰؍ برسوں کے ان کے اس طرز حکومت پر ہے جس میں عوامی بہبود کے نام پر صرف بڑی بڑی باتیں کی گئیں اور اقتدار اور اس کے ماتحت اداروں کا سارا زور سماج میں اس تعصب آمیز رجحان کو برقرار رکھنے پر رہا جس کے سہارے زعفرانی گروپ کی سیاسی دکان چلتی رہی ہے۔ اس امتحان کا تعلق صرف اور صرف وزیر اعظم کی ذات سے ہے۔ اس الیکشن نے ان کے باطن کی اس کشمکش کو پوری طرح عیاں کر دیا جو ان کی شخصیت سازی میں ناگزیر جزو کی حیثیت رکھتی ہے لیکن دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے وزیر اعظم ہونے کے ناتے شخصیت کے اس عنصر کو پوری طرح نمایاں ہونے کا موقع نہیں مل پاتا۔ اس الیکشن میں وزیر اعظم نے جتنی ریلیوں سے خطاب کیا اور جتنے انٹرویوز دئیے اگر ان سب کا تجزیہ اس زاویے سے کیا جائے تو یہ واضح نظر آئے گا کہ کس طرح ایک ہی وجود کے دو شخصی روپ الگ الگ موقعوں پر اپنی رفتار و گفتار بدل لیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: پونے کار حادثہ: انصاف اگر یہ ہے تو پھر انصاف کیا ہوگا؟
وزیر اعظم کی شخصیت کے دونوں روپ اصولی طور پر ایک دوسرے سے متضاد ہیں۔ ایک روپ جس میں وہ ملک کے سربراہ کے طور پر مختلف قسم کے آئینی اور اخلاقی ضابطوں کی پیروی کے مجاز ہیں اور دوسرا وہ روپ جس کی تعمیر و رتشکیل ان کے لڑکپن ہی سے ’سنگھ‘ کی سرگرمیوں کے ذریعہ ہونے لگی تھی۔ اب چونکہ وہ ملک کے سب سے بڑے سیاسی عہدے پر فائز ہیں تو ان کا وہ دوسرا روپ بھی پوری طرح کھل کر سامنے آنے کی کوشش کرتا رہتا ہے لیکن وزارت عظمیٰ سے وابستہ آئینی ذمہ داریوں کا زور اس روپ کو کھل کر سامنے نہیں آنے دیتا اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب وزیر اعظم انتخابی ریلیوں میں عوام سے روبرو ہوتے ہیں تواکثر یہ روپ ظاہر ہو جاتا ہے۔ اس روپ کے نمایاں ہونے کے بعد ان کی زبان سے مغل، مٹن اور مسلمان کی گردان کوئی حیرت کی بات نہیں کیونکہ اس روپ کی تعمیر جس خمیر سے ہوئی ہے اس میں مسلمانوں سے نفرت کا مادہ غالب ہے۔
وزیر اعظم کواس انتخاب میں جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اس میں حزب اختلاف کے لیڈروں کے ذریعہ عوامی مسائل پر ان کی حکومت کی ناکامیوں کا کچا چٹھا سامنے مسلسل سامنے لانا، ان کیلئے جتنا دقت طلب رہا اس سے کہیں مشکل مرحلہ اپنے اس روپ کو مخفی رکھنے کیلئے کی گئی ان کی محنت رہی ہوگی جس روپ کو ہندوستان میں مسلمانوں کا وجود گوارہ نہیں ہے۔ وزیر اعظم کی کشمکش کو وہی محسوس کر سکتا ہے جو بہ یک وقت ایسی دہری زندگی جیتا ہو جس کے دوروپ باہم ایک دوسرے سے متضاد ہوں۔ ہندوستان جیسی سیکولر جمہوریت کے سربراہ کے طور پر عوام کے تئیں ان کے جو فرائض ہیں ان میں کسی بھی طرح کے تعصب کی گنجائش نہیں ہے۔ آئین کی رو سے یہ ملک سیکولر کردار کا حامل ہے اور یہ اس ملک کا وہ نشان امتیاز ہے جو بین الاقوامی سطح پر اس کی قدر و منزلت کو دوبالا کرتا ہے۔ اب اگر ایسے ملک کے سب سے بڑے سیاسی عہدے پر کوئی تعصب زدہ شخص براجمان ہو جائے تو یہ بہرحال اس کیلئے سخت امتحان ہوگا کہ وہ اپنی رفتار و گفتار کو ملک کے سیکولر جمہوری کردار کے مطابق ظاہر کرتا رہے۔ اظہار کا یہ مرحلہ آسان نہیں ہوتا کیونکہ اس مرحلے سے گزرتے وقت کئی طرح کے نفسیاتی اور جذباتی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس انتخاب میں یہ صاف ظاہر ہورہا تھا کہ وزیر اعظم پر یہ دباؤ مسلسل بنا رہا۔
اپنی شخصیت کے درون میں جاری اس دباؤ کو سہارتے ہوئے وہ انتخابی ریلیوں میں عوام سے روبرو ہوتے رہے۔ اس دوران جب ان کا وہ روپ سامنے آتا جس میں وہ خود کو اتحاد و یکجہتی کی پاسداری کرنے والے ملک کے وزیراعظم کے طور پر دیکھتے تو وہ امن و اتحاد کی وکالت کرنے لگتے حتیٰ کہ یہ دعویٰ بھی کہ انھوں نے کبھی بھی ہندو، مسلمان کی بات نہیں کی، لیکن جب ان کی شخصیت کا دوسرا روپ نمایاں ہوتا تو ان کی باتوں میں مسلمانوں کی تضحیک اور تذلیل کا اظہار کبھی جارحانہ اور کبھی تمسخرانہ انداز میں ہونے لگتااور انتخابی مہم کے دوران ان کا یہی روپ بیشتر ان کی شخصیت پر غالب رہا۔ یہی سبب تھا کہ وہ انتخابی ریلیوں میں مسلمانوں سے متعلق ایسی بے سرو پا باتیں بھی کرتے رہے جن کااس ملک کے مسلمانوں کی سماجی اور معاشی زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔ اس طرز گفتار میں وہ ان سماجی حقائق کو بھی مسلسل ان دیکھا کرتے رہے جو یہاں کے مسلمانوں کی عوامی زندگی کی حتمی صداقت ہیں۔
ان کی شخصیت کے اس وجودی کشمکش کا اظہار بعض دفعہ ایسے حیرت انگیز طور پر بھی ہوا جس پر یقین کرنا مشکل ہے۔ اس اظہار ہی کا ایک روپ وہ تھا جس میں انھوں نے اپنے پسندیدہ کارپوریٹ گھرانوں کو بدعنوانوں کی صف میں کھڑا کر دیا۔ وہ اپنے اس حیرت انگیز بیان کے ذریعہ اگرچہ کانگریس کو ہدف بنانا چاہتے تھے لیکن جس حتمی انداز میں انھوں نے کالا دھن کا حوالہ دیا اس سے یہ سوال بہرحال پیدا ہوتا ہے کہ ان کی حکومت نے کیوں ایسے بدعنوان کارپوریٹ گھرانوں کی دلجوئی کی خاطر قومی وسائل کا منہ کھول دیا؟ کیا اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ ان کی سربراہی میں جو مشنری کام کر رہی ہے وہ دانستہ طور پر ایسے بدعنوان کارپوریٹ گھرانوں کی پشت پناہی کر رہی ہے؟ وزیر اعظم خود کو پرماتما کا ایسا نمائندہ بھی بتا چکے ہیں جو کسی خاص مقصد کیلئے زمین پر وارد ہوا ہے، اس صورت میں ان کے ایسے بیانات پر ان آئینی اداروں کو سنجیدگی سے توجہ دینا چاہئے جن کا اولین فرض ملک میں بلا امتیاز قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانا ہے، لیکن پھر وہیں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ملک اس وقت جن حالات سے گزر رہا ہے کیا ایسے میں ان اداروں سے ایسی توقع کی جاسکتی ہے؟ کیونکہ انتخابی مہم کے آخری مرحلے میں انھوں نے جیل بھیجنے کی گارنٹی کی بات کہہ کر خود ہی یہ ثابت کردیا کہ یہ ادارے آئین کے احکامات اور تقاضوں کی تکمیل کے بجائے ان کے اشاروں پر کام کر رہے ہیں۔
انتخابی مہم کے شروعاتی مرحلے میں وزیراعظم نے ایک بڑا پرجوش بیان یہ بھی دیا تھا کہ دس برسوں میں جو کچھ بھی ان کی حکومت نے کیا وہ ایک ٹریلر تھا، پکچر تو ابھی باقی ہے۔ ان دس برسوں میں حکومت کی کارکردگی کو پیش نظر رکھتے ہوئے اگر اس بیان کا تجزیہ کیا جائے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ اگر تیسری مرتبہ بھی انھیں حکومت سازی کا موقع ملتا ہے تو ان کے نزدیک روزگار، مہنگائی، تعلیم اور صحت جیسے بنیادی عوامی مسائل سے زیادہ ان موضوعات اور معاملات کو ترجیح حاصل ہوگی جو سماج میں تعصب آمیز رجحان کو فروغ دینے میں نمایاں حیثیت کے حامل ہوتے ہیں۔ جن افکار و نظریات کا خمیر ان کی شخصیت سازی میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے، وہی بیشتر ان کے شخصی اظہار پر غالب رہا ہے اور یہ اظہار بہرحال ہندوستان جیسے کثیر المذاہب ملک کیلئے مفید اور کار آمد نہیں ہو سکتا۔ اس ملک کا خیر خواہ ہر شہری بس یہی توقع کر سکتا ہے کہ اگر وزارت عظمیٰ کا قلمدان تیسری مرتبہ ان کے حصے میں آئے تو وہ اپنی ذات کی اس کشمکش پر اس طور سے قابو پا جائیں کہ خود کو اس ملک کے وزیر اعظم کے طور پر ہی دیکھیں نہ کہ کسی خاص مذہب کے ایسے مبلغ کے طور پر جو اس ملک کے سیکولر کردار کو ختم کرنے کے درپے ہو۔ اس عمل سے گزرنے میں انھیں نفسیاتی طور پر سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے لیکن پرماتما کا نمائندہ ہونے کی بنا پر یہ کچھ ایسا ناممکن بھی نہیں کہ جسے وہ نہ کر سکیں کیونکہ ان کی پارٹی پہلے ہی یہ دعویٰ کر چکی ہے کہ ’مودی ہے تو ممکن ہے۔ ‘