جوینایل جسٹس بورڈ نے اس حادثے کو انجام دینے والے رئیس زادے وکاس اگروال کے تئیں جو رویہ اختیار کیا، وہ انصاف کے نام پر ایک بدنما داغ ہے۔
EPAPER
Updated: May 26, 2024, 3:23 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai
جوینایل جسٹس بورڈ نے اس حادثے کو انجام دینے والے رئیس زادے وکاس اگروال کے تئیں جو رویہ اختیار کیا، وہ انصاف کے نام پر ایک بدنما داغ ہے۔
گزشتہ دنوں پونے میں ہونے والا کار حادثہ انصاف کے عمل میں در آئی خرابیوں کے علاوہ اس حادثے کی ان جہات پر بھی غور و فکر کا تقاضا کرتا ہے جو جہات نہ صرف انسانی حقوق کے تحفظ میں نمایاں کردار ادا کرتی ہیں بلکہ کسی مہذب سماج کی تشکیل میں بھی یہ جہات انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ پونے کے جوینایل جسٹس بورڈ نے اس حادثے کو انجام دینے والے رئیس زادے وکاس اگروال کی پاداش جس انداز میں کی وہ بنام انصاف، انصاف کے عمل کی تضحیک کے مترادف ہے۔ بورڈ نے وکاس اگروال کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا وہ صریح طور پر یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس کی امارت نے بورڈ کو انتہا درجے تک مرعوب کر لیا تھا تبھی تو دو افراد کی جان کے عوض میں اسے۳؍ سو الفاظ پر مشتمل ایک مضمون لکھنے اور ۱۵؍ دنوں تک ٹریفک پولیس کیساتھ کام کرنے کی سزا (سوغات) دی گئی۔ بورڈ کا یہ فیصلہ سسٹم پر امیر طبقے کے اس دبدبے کو ظاہر کرتا ہے جو دولت کے دم پر خود کو تمام ضابطوں اور قوانین سے بالاتر سمجھتا ہے۔
انصاف کی یہ انوکھی مثال اس تصور کو بھی پامال کرتی ہے جو قانون کی حکمرانی میں کسی بھی طرح کے امتیاز کو قبول نہیں کرتا۔ بورڈ نے وکاس اگروال کیلئے جو سزا طے کی اس سے نہ تو اس گناہ کی تلافی ہو سکتی ہے جس کے سبب دو جوان افراد کو اپنی جان گنوانی پڑی، نہ ہی اس حیرت انگیز فیصلے پر عمل کرنے کے بعد یہ حتمی دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ ملزم آئندہ ٹریفک ضابطوں کی پابندی پوری دیانت داری کے ساتھ کرے گا۔ ایسی صورت میں بورڈ کے اس فیصلے کو قانون کے ساتھ ایک مذاق کے طور پر ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ بورڈ کے اس فیصلے کے بعد عوامی غم و غصہ اور انتظامی امور سے وابستہ بعض افراد کے غیر جانب دارانہ رویہ کے بعد اس فیصلے کو کالعدم قرار دیاگیا لیکن بنیادی سوال تو یہی ہے کہ آخر وہ کون سے اسباب ہیں جو انصاف کے عمل کو اس حد تک سبوتاژ کرنے کی وجہ بنتے ہیں کہ یہ عمل انصاف کی پیشانی پر ایک داغ بن جاتا ہے؟
ان اسباب پرغور کرنے سے جو پہلا نمایاں سبب نظر آتا ہے وہ یہ کہ اصولی طور پر بھلے ہی کہا جائے کہ ملک کے عدالتی امور میں کسی بھی طرح کی تفریق و امتیاز کی گنجائش نہیں ہے لیکن اکثر ایسا ہوا ہے کہ عدالتی فیصلوں نے اس تفریق و امتیاز کو اظہر من الشمس کردیا ہے جبکہ آئین کی رو سے قانون کی حکمرانی کا تصور ان تمام امتیازات سے بالاتر ہے جو انصاف کے عمل کو ذات، مذہب، رنگ، نسل، علاقہ اور زبان کے حوالے سے متاثر کر سکتا ہے۔ اس ملک میں رہنے والے تمام شہریوں کیلئے انصاف کے عمل کی یکسانیت کے بغیر سماج میں انسانی اقدار کے نفاذ کو یقینی نہیں بنایا جا سکتا۔ سماج میں جرائم کی کم سے کم شرح کیلئے ان اقدار کا تحفظ ناگزیر ہے جو صالح عادات و اطوار کو پروان چڑھانے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ عادات و اطوار فرد کی ذات، اس کی گھریلو زندگی اور اس کی سماجی زندگی میں نہ صرف اس کے کردار و عمل کی شناخت کا حوالہ بنتی ہیں بلکہ یہ صالح عادات و اطوار پرامن سماج کی تشکیل میں بھی اہم رول ادا کرتے ہیں۔ وکاس اگروال جیسے رئیس زادے، جو سماج اور سسٹم کو اپنی خواہش و مرضی کا تابع سمجھتے ہیں وہ سماج کی ان نزاکتوں کو سمجھنے سے یا تو قاصر ہوتے ہیں یا پھر دانستہ طور پر سمجھنا ہی نہیں چاہتے۔ ایسی صورت میں ان کے والدین اور ان کے دیگر اہل خانہ بھی اخلاقی طور پر ایسے خطاکار کی حیثیت اختیا ر کر لیتے ہیں جن کی اپنے فرائض کے تئیں عدم توجہی پورے سماج کے لیے مسئلہ بن جاتی ہے۔ بعض دفعہ یہ مسئلہ اس قدر سنگین شکل اختیار کر لیتا ہے کہ لوگوں کی جان و مال اس کی زد میں آجاتے ہیں۔ پونے کا کار حادثہ بھی دراصل وکاس کے اہل خانہ کی ایسی ہی اخلاقی خطا کو آئینہ کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: یہ سارے قصے جھوٹے ہیں ہم انھیں قبول نہیں کرتے
وکاس کا تعلق اقتصادی سطح پر سماج کے جس طبقے سے ہے اس طبقے کے کم عمر اور نوجوان بیشتر اس گمان میں رہتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی کو جس طرح چاہیں گزارنے کا حق رکھتے ہیں۔ زندگی کو اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق جینے کا حق ہر فرد کو آئین نے فراہم کیا ہے لیکن اس حق کے ساتھ وہ حقوق بھی وابستہ ہیں جو سماج میں امن و آشتی کو برقرار رکھنے کیلئے ناگزیر ہیں۔ یہی وہ حقوق ہیں جو اخلاقی سطح پر ایک فرد کو دوسرے فرد سے مربوط کرتے ہیں اور اسی ربط کی بنیاد پر ایک سماج کی تشکیل عمل میں آتی ہے۔ اگر اس ربط میں رنگ، نسل، مذہب اور اس جیسے دیگر امتیازات کے علاوہ دھن دولت کو بنیاد بنایا جائے تو ایسے سماج کی تشکیل ممکن نہیں جو انسانی اقدار کی محافظت کا دعویٰ کر سکے۔ اس وقت ہندوستانی سماج میں بہ یک وقت کئی طرح کے تعصبات کا دباؤ واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
اس کا ر حادثہ میں ہلاک ہونے والے دونوں سافٹ ویئر انجینئروں کے اہل خانہ کے غم کی تلافی کیا صرف ۳؍ سو الفاظ پر مشتمل ایک مضمون اور پندرہ دنوں تک ٹریفک پولیس کے ساتھ کام کرنے سے ممکن ہے ؟ اس طرز کے حادثات کو انجام دینے والے خاطیوں کو جو بھی سزا دی جائے اس سے وہ خلا ء پر نہیں ہو سکتا جو کسی کی موت کے بعد اس کے متعلقین اور اہل خانہ کیلئے دائمی کرب کا باعث ہوتا ہے لیکن بنام انصاف ایسے مضحکہ خیز فیصلوں سے اس کرب کو مزید تکلیف دہ نہیں بنایا جانا چاہئے۔ بورڈ نے وکاس کے متعلق جس فیاضی کا مظاہرہ کیا وہ نہ صرف انصاف کے عمل کو مشکوک اور مضحکہ خیز بناتا ہے بلکہ یہ فیاضی صریح طور پر انسانیت سوز رویہ کو بھی ظاہر کرتی ہے۔ دو ایسے افراد جو اپنے اہل خانہ کی امیدوں کا چراغ تھے، ان کی ہلاکت کو بورڈ نے اپنی امارت پرستی کو ایک معمولی حادثہ بنادیا جسے انجام دینے والا ایک مضمون لکھ کر اپنے گناہ کی تلافی کر سکتا ہے۔
یہ فیصلہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے لوگ اپنی پوزیشن کے دم پر اصولوں اور ضابطوں کی مطلق پروا نہیں کرتے۔ ایسے عہدیدار اپنی مرضی اور خواہش کو تمام اصول و ضوابط سے مقدم سمجھتے ہیں اور وہی کچھ کرتے ہیں جو ان کی پیشہ ورانہ انا کی تسکین کا سامان فراہم کرے یا جس سے انھیں کسی بھی طرح کا فائدہ ہو سکے۔ یہ انا کی تسکین اور مفاد پرستی والا رویہ آئینی اداروں کے وقار و اعتبار کو متاثر کرتا ہے۔ یہ صورتحال عدلیہ سمیت ان تمام شعبوں میں دیکھی جاسکتی ہے جن کے قیام کا مقصد عوام کو انصاف فراہم کے ساتھ ہی ان کے معیار زندگی کو بہتر بنانا ہے۔ یہ کار حادثہ اس تلخ حقیقت کو بھی نمایاں کرتا ہے کہ وکاس اگروال جیسے امیر زادے جب سن شعور کو پہنچیں گے تو ان کے نزدیک اس ملک کے قوائین اور آئینی اصولوں کی پیروی کیا حیثیت رکھے گی؟ ایسی پرشکوہ اور پر آسائش زندگی جینے والا طبقہ اگر اس قدر بے حس اور شقی ہو جائے تو یہ سماج کی ترقی و بہبودی میں معاون ہونے کی بجائے سماج کیلئے ایک اضافی مسئلہ بن جاتا ہے۔
پونے کار حادثہ سے متعلق آئے دن جو انکشافات ہو رہے ہیں ان سے یہ ظاہر ہونے لگا ہے کہ یہ حادثہ بالآخر وہی صورت اختیار کر لے گا جس کا اندیشہ پہلے ہی ظاہر کیا گیا تھا۔ اب یہ خبر سامنے آرہی ہے کہ وکاس کے فیملی ڈرائیور نے یہ اعتراف کیا ہے کہ حادثے کے وقت گاڑی وہی چلا رہا تھا۔ ممکن ہے کہ ڈرائیور کا یہ اعتراف مبنی بر سچائی ہو لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حادثے کے تین چار دنوں کے بعد اس اعتراف کی قانونی حیثیت کیا ہوگی ؟ویسے دیکھا جائے تو حادثے کے بعد بیشتر مراحل پر قانونی ضوابط کی ان دیکھی کی گئی۔ ان سب کے پیچھے واضح طور پر وکاس کا وہ خاندانی پس منظر کارفرما رہا ہے جو اپنی اقتصادی حیثیت کی بنیاد پر سماج میں عزت و احترام کا ذریعہ بنتا ہے لیکن اگر یہی عزت و احترام انصاف کے عمل کو متاثر کرنے لگے تو معاملہ تشویش ناک صورت اختیار کر لیتا ہے۔ شاید جوینائل بورڈ نے صرف عزت و احترام والے پہلو ہی کو پیش نظر رکھا اور قانون کی حکمرانی کے اس تصور کو سرے ہی سے ان دیکھا کر دیا جو انصاف کی فراہمی میں کسی امتیاز کو ممنوع قرار دیتا ہے۔
یہ حادثہ ان والدین کیلئے بھی درس عبرت ہو سکتا ہے جو اقتصادی سطح پر بھلے ہی وشال اگروال (وکاس کے والد) کے برابر نہ ہوں لیکن اپنی اولاد کو خوش رکھنے کیلئے کم عمری ہی سے انھیں دو پہیہ اور چار پہیہ گاڑیاں فراہم کر دیتے ہیں۔ ان میں سے اکثر والدین اس کی بھی پروا نہیں کرتے کہ قانون کی رو سے ڈرائیونگ لائسنس کیلئے جو عمر طے کی گئی ہے اس سے قبل محض اولاد کی خوشی کی خاطر اسے گاڑی چلانے کی آزادی فراہم کرنا نہ صرف ایک قانونی جرم ہے بلکہ اس کے سبب اکثر ایسے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں جو پولیس اور عدلیہ کیلئے درد سر بننے کے ساتھ ہی سماج کیلئے بھی تشویش ناک مسائل کے پیدا ہونے کے سبب ہوتے ہیں۔