• Mon, 18 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

معاشیانہ: دو عددی معیشت ممکن تھی اگر نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کا نفاذ نہ ہوا ہوتا!

Updated: July 14, 2024, 5:20 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

۲۰۱۸ء میں سب سے بڑی معیشت والے ممالک کی فہرست میں ہندوستان ۷؍ ویں نمبر پر تھا مگر اب ۳ء۹۴؍ کھرب ڈالر کے ساتھ ۵؍ ویں نمبر پر ہے۔

A photograph of people standing outside an ATM during demonetisation. Photo: INN
نوٹ بندی کے وقت کی ایک تصویر جس میں لوگ اے ٹی ایم کے باہر کھڑے ہیں۔ تصویر : آئی این این

۲۰۱۸ء میں سب سے بڑی معیشت والے ممالک کی فہرست میں ہندوستان ۷؍ ویں نمبر پر تھا مگر اب ۳ء۹۴؍ کھرب ڈالر کے ساتھ ۵؍ ویں نمبر پر ہے۔ انٹرنیٹ پر دستیاب مختلف اخبارات کی رپورٹوں کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ عالمی بینک اور آئی ایم ایف نے مضبوط قوتِ خرید کے معاملے میں ہندوستان کو ٹاپ ۱۰؍ ممالک میں ۲۰۰۵ء ہی میں شامل کرلیا تھا جبکہ ۲۰۱۱ء میں کہا تھا کہ اس محاذ پر ہندوستان دنیا کی تیسری (امریکہ اور چین کے بعد) سب سے بڑی معیشت ہے البتہ جی ڈی پی (مجموعی گھریلو پیداوار) کے حجم کے معاملے میں ہندوستان ٹاپ ۱۰؍ ممالک میں ۲۰۰۸ء میں شامل ہوا تھا۔ یہ وہی سال تھا جب پوری دنیا ’’عظیم مندی‘‘ کا سامنا کررہی تھی۔ 
فی الحال دنیا کی سب سے بڑی معیشت والا ملک امریکہ (۲۶؍  کھرب ڈالر) ہے۔ اس کے بعد چین (۱۸ء۵۳؍ کھرب ڈالر)، جرمنی (۴ء۴؍ کھرب ڈالر) اور جاپان (۴ء۱۱؍ کھرب ڈالر) ہیں۔ حال ہی میں شائع ہونے والی انڈیا ریٹنگ اینڈ ریسرچ (آئی آر آر) کی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ ۲۰۱۶ء سے ۲۰۲۳ء کے درمیان ہندوستانی معیشت کو کم و بیش ۱۱ء۳؍ لاکھ کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔ اِن ۸؍ برسوں میں ہماری معیشت کو تین بڑے جھٹکے لگے، جس کا آغاز نومبر ۲۰۱۶ء میں نوٹ بندی سے ہوا تھا۔ اس کے بعد حکومت نے جلد بازی میں جی ایس ٹی کا نفاذ کیا اور پھر کووڈ۔ ۱۹؍ کی وباء کے سبب لگنے والے لاک ڈاؤن نے ہندوستانی معیشت کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ اہم بات یہ ہے کہ متذکرہ نقصان غیر منظم شعبے میں ۱ء۶؍ کروڑ ملازمت کے ختم ہونے کے علاوہ تھا۔ ان جھٹکوں سے عوام اورمعیشت اب تک نبرد آزما ہیں۔ ان کے طویل مدتی اثرات ہر شعبے میں نظر آرہے ہیں۔ بے روزگاری کی شرح کم ہونے کے بجائے بڑھ رہی ہے جبکہ ۲۰۱۱ء کی ہماری مضبوط قوت خرید بھی اب گھٹ رہی ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: معاشیانہ: آلودہ غذائیں بھی معیشت کو کمزور کرتی ہیں

اہم سوال یہ ہے کہ اگر ہندوستان کو نوٹ بندی، جی ایس ٹی اور لاک ڈاؤن جیسے بڑے جھٹکے نہیں لگتے تو آج حجم کے لحاظ سے بڑی معیشتوں میں ہم کون سے مقام پر ہوتے؟ ہندوستان (۵؍ ویں نمبر پر) اور جاپان (چوتھے نمبر پر) کی معیشتوں کے درمیان صرف ۰ء۱۷؍ کھرب ڈالر کا فرق ہے۔ آئی آر آر کی رپورٹ کے مطابق ہماری معیشت کو ۱۱ء۳؍ لاکھ کروڑ روپے کا نقصان پہنچا ہے، یعنی کم و بیش ۱۱؍ کھرب ڈالر۔ ہماری موجودہ جی ڈی پی ۳ء۹۴؍ کھرب ڈالر میں اگر ۱۱؍ کھرب ڈالر جمع کریں یہ ۱۴ء۹۴؍ کھرب ڈالر ہوجائے گی۔ اس لحاظ سے ہم دنیا کی تیسری (امریکہ اور چین کے بعد) سب سے بڑی معیشت بن سکتے تھے۔ صرف امریکہ اور چین ہی ایسے ۲؍ ممالک ہیں جن کی جی ڈی پی کا حجم دو عددی ہے۔ ہماری معیشت بھی دو عددی ہوسکتی تھی مگر برسراقتدار کے نزدیک جی ڈی پی کو مستحکم، ملک کو امیر، عوام کی قوت خرید میں اضافہ اور ہر شعبے کو مضبوط بنانے کے بجائے نوٹ بندی اور جی ایس ٹی جیسی معاشی اصلاحات اہم تھیں جن کے مثبت اثرات معیشت پر اب بھی نظر نہیں آئے ہیں۔ 
 کیا اتنے بڑے نقصان کی بھرپائی ممکن ہوسکے گی؟ ماہرین معیشت کہتے ہیں کہ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی نے ہماری معیشت کی رفتار کو اس قدر سست کردیا ہے کہ ۲۰۳۰ء کیلئے مقرر کئے گئے ہدف تک پہنچنے کیلئے مزید ۱۵؍ سال درکار ہوں گے۔ ملک کو ۱۵؍ سال پیچھے دھکیل کر ترقی اور بلند بانگ دعوے کرنے والی حکومت اگر واقعی معیشت اور عوام کی فکر کرتی تو آج ملک کے حالات کچھ اور ہوتے۔ ایسے میں ملک کی ایک بڑی آبادی متوسط طبقہ میں آجاتی اور متوسط درجے کے لوگ اَپر مڈل کلاس میں منتقل ہوجاتے۔ یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ ۸؍ سال میں ہمارے ملک میں انٹرپرینیورز اور اسٹارٹ اَپس کی تعداد بڑھی ہے، مگر ایسا حکومت اور اس کی پالیسیوں کے سبب نہیں بلکہ نوجوانوں کی اپنے منفرد آئیڈیاز، ہمت اور حوصلے کے سبب ممکن ہوا ہے۔ ان نوجوانوں نے نہ صرف ملک کی معیشت میں شراکت داری کی بلکہ سیکڑوں لوگوں کو روزگار بھی فراہم کیا۔ جو کام حکومت کو اپنے سنجیدہ اور معیشت کے حق میں مضبوط فیصلوں سے کرنا تھا، وہ کام ملک کے نوجوانوں نے اپنی سمجھ بوجھ سے کرنے کی کوشش کی۔ 
 پرائس ۲۰۲۱ء کی رپورٹ کہتی ہے کہ ملک میں غریب اور متوسط درجے سے تعلق رکھنے والے افراد کا فیصد کم و بیش ۴۹؍ ہے۔ دیگر ۵۱؍ فیصد میں اَپر مڈل، رِچ، سپر رِچ اور الٹرا رِچ آتے ہیں۔ حکومت کے غیراہم اور جلد بازی میں کئے گئے فیصلوں کا خمیازہ اُن کروڑوں افراد کو بھگتنا پڑرہا ہے جو غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان طبقات کیلئے کام کرنے کا دعویٰ کرنے والی حکومت نے اپنی ناقص پالیسیوں کے سبب انہیں ہی سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK