• Mon, 30 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

معاشیانہ: آلودہ غذائیں بھی معیشت کو کمزور کرتی ہیں

Updated: July 10, 2024, 2:56 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں ۶۰۰؍ ملین افراد یعنی ہر ۱۰؍ میں سے ایک شخص، آلودہ اور خراب غذا کھانے کے سبب بیمار پڑجاتا ہے جن میں سے۴؍ لاکھ ۲۰؍ ہزار ہلاک ہوجاتے ہیں۔

Eating contaminated food can cause a variety of illnesses, including food poisoning, long-term illnesses such as cancer, kidney or liver failure, mental disorders, epilepsy and arthritis. Photo: INN
آلودہ کھانا کھانے سے مختلف قسم کی بیماریاں ہوسکتی ہیں، جن میں فوڈ پوائزننگ کے علاوہ، کینسر، گردے یا جگر کی خرابی، دماغی امراض، مرگی اور گٹھیا جیسی طویل مدتی بیماریاں قابل ذکر ہیں۔ تصویر : آئی این این

گزشتہ ماہ شائع ہونے والی عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا تھا کہ ہر سال ۶۰۰؍ ملین افراد یعنی ہر ۱۰؍ میں سے ایک شخص، آلودہ غذا کھانے کے سبب بیمار پڑجاتا ہے جن میں سے۴؍ لاکھ ۲۰؍ ہزار ہلاک ہوجاتے ہیں۔ اس دوران ادارہ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر کازواکی میاگیشیما نے کہا تھا کہ ’’ہم نے (متاثرین کا) کم سے کم تخمینہ لگایا ہے، حقیقی اعدادوشمار کہیں زیادہ ہیں۔ ‘‘
 غذاؤں کی تجارت کو عام طور پر ’’فوڈ چین‘‘ کہا جاتا ہے۔ فصلوں کی پیداوار سے لے کر انہیں صارفین تک پہنچانے میں کئی ادارے اور افراد شامل ہوتے ہیں۔ غذا ایک بڑے عمل سے گزر کر حقیقی صارفین تک پہنچتی ہے۔ جو ممالک غذاؤں کی درآمد اور برآمد کرتے ہیں، ان کا فوڈ چین مزید پیچیدہ ہوتا ہے۔ یہ اس قدر وسیع ہے کہ اس میں بیک وقت کئی ممالک شامل ہوتے ہیں۔ ایک ملک سے دوسرے ملک میں غذا پہنچانا، وہ بھی اس طرح کہ یہ خراب یا آلودہ نہ ہو، ایک بڑا چیلنج ہے۔ غذاؤں سے ہونے والی بیماریوں کے پیش نظر ہی ’’فوڈ سیفٹی‘‘ کا آغاز ہوا تاکہ انہیں مکمل طور پر محفوظ بناکر ہی صارفین تک پہنچایا جائے۔ اس کے باوجود اس محفوظ چین میں آلودہ غذائیں نہ صرف شامل ہوتی ہیں بلکہ صارفین تک پہنچ بھی جاتی ہیں۔ 
 اسے ایک مثال کے ذریعے سمجھئے: ایک ملک میں فوڈ سیفٹی کا ادارہ تھوڑا کمزور ہے اور غذاؤں کا اچھی طرح معائنہ نہیں کرتا۔ اب یہاں سے نکلنے والی آلودہ غذائیں نہ صرف اس ملک کے شہریوں کو بیمار کر سکتی ہیں بلکہ جن ممالک میں غذائیں برآمد کی جارہی ہیں، وہاں کے صارفین کی بھی زندگیاں خطرے میں ڈال سکتی ہیں۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ سڑک کے کنارے سبزی ترکاریاں یا راشن محفوظ طریقے سے نہیں رکھا جاتا، اور یہ آلودہ ہوجاتا ہے۔ اس پورے میں عمل میں سب سے زیادہ نقصان ان کا ہوتا ہے جو آلودہ غذائیں کھا لیتے ہیں۔ خیال رہے کہ انہیں کھانے کے بعد مختلف قسم کی بیماریاں ہوسکتی ہیں، جن میں فوڈ پوائزننگ کے علاوہ، کینسر، گردے یا جگر کی خرابی، دماغی امراض، مرگی اور گٹھیا جیسی طویل مدتی بیماریاں قابل ذکر ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے: معاشیانہ: خواتین کا اشتراک معیشت کو۳۰؍ فیصد مستحکم کرسکتا ہے، مگر یہ کیسے ہو؟

کسی بھی ملک میں شہریوں کو معیشت کی سب سے بڑی طاقت تسلیم کیا جاتا ہے۔ شہری کاروبار یا ملازمت کرکے اپنے ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ہر شہری ملک کی جی ڈی پی کیلئے اہم ہوتا ہے، پھر چاہے وہ کمانے والا ہویا خرچ کرنے والا۔ ڈبلیو ایچ او نے رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں آلودہ غذائیں کم پہنچتی ہیں۔ انہیں عام طور پر غریب ممالک یا ترقی پذیر ممالک (جہاں پسماندہ علاقے زیادہ ہوں ) میں برآمد کیا جاتا ہے جن میں افریقہ اور برصغیر قابل ذکر ہیں۔ ان خطوں میں آلودہ غذاؤں سے ہونے والی اموات کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ متذکرہ ۶۰۰؍ ملین افراد میں ۴۰؍ فیصد، اور مرنے والے ۴؍ لاکھ ۲۰؍ ہزار میں سے ایک لاکھ ۲۵؍ ہزار بچے ہیں۔ 
بیماریاں، معیشت کی رفتار کو سست کرتی ہیں کیونکہ بیمار ہونے کے سبب جب ایک فرد کام نہیں کرپاتا تو جی ڈی پی کو نقصان پہنچتا ہے۔ ۲۰۱۶ء میں امریکہ میں کی جانے والی ایک تحقیق میں پایا گیا تھا کہ جب وہاں کام کرنے والا ایک شخص ایک دن کا وقفہ لیتا ہے تو معیشت کو ۱۳؍ ڈالر (کم و بیش ۱۱؍ سو روپے) کا نقصان پہنچتا ہے۔ ہندوستان میں یہ نقصان کم و بیش اتنا ہی ہوگا۔ اہم یہ ہوگا کہ حکومت اپنے شہریوں تک محفوظ غذا کی رسائی کو یقینی بنائے۔ غیر آلودہ اور معیاری غذاؤں کی بڑی مقدار امیر ممالک کو برآمد کرنے کے بجائے اپنے شہریوں کی صحت کو مد نظر رکھے۔ ہندوستان کا ہر شہری اور اس کی صحت اس لئے بھی ضروری ہے کہ ہم تیزی سے ترقی کرنے والی معیشت ہیں اور ہمیں افرادی قوت کی اشد ضرورت ہے۔ غذا، کا شمار بنیادی اشیاء میں ہوتا ہے، اور اگر اس بنیادی چیز کے سبب لوگ بیمار ہونے لگے تو ایک مضبوط ملک اور قوم کے طور پر ابھرنے میں ہمیں کافی وقت درکار ہوگا۔ 
 آلودہ غذاؤں کو صارفین تک پہنچنے سے روکنا مشکل ہے مگر ناممکن نہیں۔ برطانیہ کی متعدد یونیورسٹیوں نے حل پیش کیا ہے کہ جن ممالک میں آلودہ غذائیں پہنچتی ہیں، انہیں فوڈ چین میں موجود ہر فرد کو ٹریننگ دینی چاہئے۔ علاوہ ازیں، دکانداروں ، پھل اور سبزی فروشوں کو بھی تربیت دینی چاہئے کہ وہ غذاؤں کو کیسے محفوظ رکھیں۔ حکومتیں اپنے طور پر ٹھوس اقدامات کرکے اس بات کو یقینی بناسکتی ہیں کہ خراب اشیاء صارفین تک نہ پہنچیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK