• Sat, 22 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

اے آئی؛ معیشت اور روزگار پر بڑھتے اثرات

Updated: February 15, 2025, 7:17 PM IST | Shahebaz Khan | Mumabi

گولڈ مین ساخس نے اپنی ایک رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ آئندہ ۱۰؍ سال میں عالمی جی ڈی پی میں اے آئی ۷؍کھرب ڈالر کا اشتراک کرے گا۔

According to a report, the AI ​​market will grow at a rate of 36.6 percent every year from 2024 to 2030. Photo: INN
ایک رپورٹ کے مطابق اے آئی مارکیٹ ۲۰۲۴ء سے ۲۰۳۰ء تک ہر سال ۳۶ء۶؍ فیصد کے ساتھ ترقی کرے گا۔ تصویر: آئی این این

دنیا، ٹیکنالوجی کے میدان میں انقلاب برپا کرنے والے ’’اے آئی‘‘ (آرٹی فیشیل انٹیلی جنس، مصنوعی ذہانت ) کے دور سے گزر رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اے آئی اور ٹیکنالوجی کی ترقی سے عالمی شرح نمو بڑھے گی اور عالمی پیداوار نیز لوگوں کی آمدنی میں اضافہ ہوگا۔ مگر اس کے ساتھ ہی بے روزگاری اور عدم مساوات کا گراف بھی اوپر جائے گا۔ اے آئی نے پوری دنیا کو اپنے سحر میں جکڑ لیا ہے۔ اس کے متعلق جوش و خروش ہے مگر یہ خطرے کی گھنٹی بھی ہے۔ ماہرین نے کہا ہے کہ اے آئی پیچیدہ طریقوں سے معیشتوں کا حصہ بنے گا اور آہستہ آہستہ اس قدر طاقتور ہوجائے گا ہر شعبے پر اسی کی حکمرانی ہوگی۔
 میکینزی کے ایک حالیہ سروے میں بتایا گیاہے کہ آئندہ چند برسوں میں عالمی معیشت پر مصنوعی ذہانت (آرٹی فیشیل انٹیلی جنس، اے آئی) ڈرامائی طور پر اثر انداز ہوگی۔ لیکن اسی سروے نے غیر یقینی صورتحال کا انکشاف کیا ہے کہ یہ تبدیلی کیسی ہوگی، اور اس سے کیا کچھ متاثر ہوگا۔ اس سے قبل بین الاقوامی مالیاتی ادارے نے کہا تھا کہ اے آئی کے سبب دنیا بھر میں ۴۰؍ فیصد ملازمتوں پر خطرات کے بادل منڈلانے لگیں گے۔ گولڈ مین ساخس نے اپنی رپورٹ میں نشاندہی کی تھی کہ آئندہ ۱۰؍ سال میں عالمی جی ڈی پی میں اے آئی ۷؍کھرب ڈالر کا اشتراک کرے گا۔ اے آئی سے سب سے زیادہ فائدہ اور نقصان ترقی یافتہ ممالک کو ہوگا۔ ترقی یافتہ معیشتوں میں تقریباً ۶۰؍ فیصد ملازمتیں متاثر ہو سکتی ہیں۔ لیکن ملازمتوں کی بہت سی اقسام اس سے فائدہ بھی اٹھا سکتی ہیں جو اِن کی پیداواری صلاحیتوں میں اضافہ کرے گی۔ فی الوقت اور آئندہ چند برسوں میں اے آئی انسانوں کے ذریعے انجام پانے والے بعض کلیدی کاموں کو انجام دے سکتا ہے، جس سے مزدوروں کی مانگ میں کمی ہو سکتی ہے، ان کی اجرت گھٹ سکتی ہے اور روزگار کی شرح بھی متاثر ہوسکتی ہے۔ تاہم، اے آئی کا بلا سوچے سمجھے استعمال بعض ملازمتیں ختم بھی کرسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: معاشیانہ: ہوائی چپل پہننے والی آبادی کو ’ہوائی جہاز‘ سے سفر کروانے کا خواب

دریں اثناء، ابھرتی ہوئی معیشتوں اور کم آمدنی والے ممالک اے آئی سے بالترتیب ۴۰؍ فیصد اور ۲۶؍ فیصد متاثر ہوں گے۔ یہ نتائج بتاتے ہیں کہ ابھرتی ہوئی مارکیٹ اور ترقی پذیر معیشتوں کو اے آئی سے فوری طور پر زیادہ بڑا نقصان نہیں ہوگا۔ ان میں سے بہت سے ممالک کے پاس اے آئی سے فائدہ اٹھانے کیلئے بنیادی ڈھانچہ یا ہنر مند افرادی قوت نہیں ہے، جس سے یہ خطرہ بڑھتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ عدم مساوات مزید بڑھ سکتی ہے۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اے آئی کم تجربہ کار کارکنوں کو اپنی پیداواری صلاحیت کو زیادہ تیزی سے بڑھانے میں مدد کر سکتا ہے۔ اس کے ذریعے نوجوان کارکنوں کو مواقع سے فائدہ اٹھانا آسان ہو سکتا ہے جبکہ بڑی عمر کے کارکن موافقت کیلئے جدوجہد کر سکتے ہیں۔
 ۶؍ فروری کو اسٹینفورڈز اے آئی انڈیکس رپورٹ میں ۱۰؍ ممالک کے نام جاری کئے گئے جہاں اے آئی سب سے زیادہ استعمال ہورہا ہے۔ اس میں امریکہ سرفہرست ہے۔اس کے بعد چین، برطانیہ، ہندوستان، متحدہ عرب امارات، فرانس، جنوبی کوریا، جرمنی ، جاپان اور سنگاپور ہیں۔ اسی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اے آئی مارکیٹ ۲۰۲۴ء سے ۲۰۳۰ء تک ہر سال ۳۶ء۶؍ فیصد کے ساتھ ترقی کرے گا اور امسال ۲۴۳ء۷؍ بلین ڈالر کا ہندسہ پار کرلے گا۔ آج دنیا میں درجنوں اے آئی ایپس اور ویب سائٹس ہیں جن کی مدد سے متعدد  کام سیکنڈز میں کئے جاسکتے ہیں۔ حکومتوں کے ساتھ عام انسان بھی ان کا تیزی سے استعمال کررہا ہے جس کے فائدے کم نقصانات زیادہ نظر آرہے ہیں۔ اے آئی سے ہونے والے فراڈ بھی اب منظر عام پر ہیں۔
 اے آئی کی بڑھتی طاقت کے پیش نظر ممالک کیلئے یہ ضروری ہوگیا ہے کہ وہ سماجی تحفظ کے جامع نیٹ ورک قائم کریں اور  ملازمین کیلئے تربیتی پروگرام بنائیں تاکہ وہ اے آئی کے سبب اپنی ملازمتیں نہیں کھوئیں بلکہ اس کے  ذریعے اپنے آپ کو مزید باصلاحیت بنائیں اور طاقتور بنیں۔ ایسا کرکے معاش کی حفاظت کو یقینی بنانا ممکن ہے اور عدم مساوات بھی روکی جاسکتی ہے۔ ٹیکنالوجی کے منفی پہلوؤں سے انسانوں کو بچانےکیلئے ہر ملک کو فریم ورک تیار کرنا ہوگا اور صارفین تک انہیں پہنچاتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھنا ہوگا کہ وہ اس سے فیض حاصل کرنے کی کوشش کریں نہ کہ اس کے عادی بن جائیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK