ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں ۴۱؍ ایئرپورٹس غیر فعال ہیں جہاں ایئر لائنز کمپنیوں نے مسافروں کی کم مانگ کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی پروازوں کی تعداد کم کردی ہے
EPAPER
Updated: February 07, 2025, 11:42 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai
ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں ۴۱؍ ایئرپورٹس غیر فعال ہیں جہاں ایئر لائنز کمپنیوں نے مسافروں کی کم مانگ کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی پروازوں کی تعداد کم کردی ہے
اکتوبر ۲۰۲۱ء میں اس وقت کے مرکزی وزیر برائے ہوا بازی جیوترادتیہ سندھیا نے کہا تھا کہ ’’وزیر اعظم مودی چاہتے ہیں کہ چپل پہننے والے شہری بھی ہوائی جہاز کا سفر کریں، یہی وجہ ہے کہ حکومت چھوٹے شہروں میں بھی ایئرپورٹس بنانے پر توجہ دے رہی ہے۔ ‘‘ایئرپورٹ اتھاریٹی آف انڈیا (اے اے آئی) کے مطابق ہندوستان میں ۴۱؍ ایئرپورٹس غیر فعال ہیں۔ خیال رہے کہ ان میں محدود پروازوں والے ہوائی اڈے بھی شامل ہیں۔ پریس انفارمیشن بیورو کی ستمبر۲۰۲۴ء کی ایک رپورٹ کہتی ہے کہ۲۰۱۴ء کے ۷۴؍ ایئرپورٹس کے مقابلے ۲۰۲۴ء میں ان کی تعداد۱۵۷؍ ہوگئی جبکہ ۲۰۴۷ء تک حکومت ۳۵۰؍ سے ۴۰۰؍ ایئرپورٹس تعمیر کرنے کیلئے پُرعزم ہے۔
یہ بھی پڑھئے: معاشیانہ:’’لوسٹ اینڈ فاؤنڈ‘‘ بھول گئے مگر دوبارہ پانے کی کوشش نہیں کی!
گزشتہ ہفتے فنانشیل ایکسپریس کی ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ حکومت نے جتنے نئے ایئرپورٹس تعمیر کئے ہیں ان میں سے بیشتر ’’گھوسٹ ایئرپورٹس‘‘ بنتے جارہے ہیں۔ گھوسٹ ایئرپورٹس کا معنی ہے ایسے ہوائی اڈے جو پوری طرح تیار ہیں مگر کوئی بھی فضائی کمپنی ان ہوائی اڈوں سے پرواز نہیں بھرتی، یا، دن میں صرف ۲؍ سے۳؍ پروازیں ہی اڑان بھرتی ہیں یا لینڈ ہوتی ہیں۔ چھوٹے قصبوں یا شہروں میں نئے ایئرپورٹس کی تعمیر کیلئے حکومت کا ’’پُرجوش‘‘ اقدام اب اس کیلئے دردِ سر بنتا جارہا ہے۔ ان میں سے کئی ایئرپورٹس مسافروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کیلئے جدوجہد کررہے ہیں۔ بھاری سرمایہ کاری کے باوجود، نئے ہوائی اڈے جیسے اتر پردیش میں کشی نگر اور مہاراشٹر میں سندھو درگ بڑے پیمانے پر غیر فعال ہیں کیونکہ ایئر لائنز نے مسافروں کی کم مانگ کا حوالہ دیتے ہوئے ان ہوائی اڈوں پر اپنی پروازوں کی تعداد کم کردی ہے۔ متذکرہ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پڈوچیری ایئرپورٹ پر مسلسل ۸؍ ماہ ایک بھی پرواز اتری نہ اڑان بھری۔
کشی نگر انٹرنیشنل ایئرپورٹ کا افتتاح اکتوبر ۲۰۲۱ء میں ہوا تھا جو مشرقی اترپردیش اور بہار کو جوڑنے اور بودھ مت کے ماننے والوں کی خدمت کیلئے بنایا گیا تھا مگر فی الحال یہ پوری طرح سے خالی پڑا ہوا ہے۔ نئے ہوائی اڈوں جیسے کرنول (آندھرا پردیش)، پاکیونگ (سکم) اور سندھو درگ (مہاراشٹر) کا بھی یہی حال ہے۔ شولا پور ایئرپورٹ (مہاراشٹر) ۶۵؍ کروڑ روپے کی تعمیر نو کے بعد بھی غیر فعال ہے۔ سندھو درگ ایئرپورٹ کا مقصد گوا جیسی ساحلی سیاحت سے مقابلہ اور کشی نگر کا مقصد مذہبی سیاحت کو فروغ دینا تھا۔ لیکن کم مانگ اور فضائی کمپنیوں کی ان ہوائی اڈوں سے بے رغبتی نےانہیں ’گھوسٹ‘ بنادیا ہے۔ خیال رہے کہ ہندوستانی ایئرلائنز کا دعویٰ ہے کہ اندرون ملک پروازوں کی قیمتیں سستی ہوگئی ہیں مگر ملک میں بعض روٹس ایسے ہیں جہاں مسافروں کی تعداد اتنی کم ہے کہ وہاں سے اڑان بھرنا نقصان کا سامنا کرنے کے مترادف ہے۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں متعدد ہوائی کمپنیاں بند ہوگئی ہیں اس لئے چھوٹے قصبوں اور شہروں کے ایئرپورٹس پر ’لینڈنگ‘ اور’ٹیک آف‘ شاذ ونادر ہی ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ اندرون ملک سب سے زیادہ مہنگی پروازوں کی فہرست میں ہندوستان بھی شامل ہے۔
یہ بھی پڑھئے: معاشیانہ: کیا مہاجر، تارکین وطن اور پناہ گزیں، عالمی معیشت پر بوجھ ہیں؟
گلاس ڈور کی حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستانیوں کی اوسط ماہانہ تنخواہ ۲۷؍ ہزار ۳۰۰؍ روپے ہے۔ اسی تنخواہ میں اسے مہینے بھرگھر کا خرچ چلانا ہے، کنبے کی دیکھ بھال کرنی ہے اور اپنی ضرورتیں بھی پوری کرنی ہے۔ اس محدود تنخواہ اور بڑھتی مہنگائی میں وہ نقل و حمل کے عوامی ذرائع ہی کا استعمال کرسکتا ہے۔ قوت خرید میں اضافہ اور مہنگائی پر لگام کسنے کے اقدامات کرنے کے بجائے وزیراعظم اس خواہش کا اظہار کیسے کرسکتے ہیں کہ چپل پہننے والا ہندوستانی ہوائی جہاز میں سفر کرے؟ بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے بجائے لگژری سہولیات عوام کے کس کام کی؟ اکنامک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ملک میں صرف ۳؍ فیصد افراد ایسے ہیں جو باقاعدہ ہوائی سفر کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں، ۶۵؍ سے زائد فیصد آبادی نے اب تک ہوائی جہاز سے سفر نہیں کیا ہے۔
ان چیلنجوں کے باوجود حکومت پر امید ہے اور ’’وکست بھارت ۲۰۴۷ء‘‘ ویژن کے تحت ۹؍ نئے ہوائی اڈوں کیلئے منظوری دی جا چکی ہے، جن میں الور (راجستھان)، سنگرولی (مدھیہ پردیش)، اور پرندور (تمل ناڈو) کے نام قابل ذکر ہیں۔ مگر حکومت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ صرف ایئرپورٹ بنادینا کافی نہیں ہے۔ شہریوں میں اتنی استطاعت بھی ہونی چاہئے کہ وہ ہوائی سفر کرنے کے قابل ہوسکیں۔ گزشتہ ۱۰؍ سال میں ہندوستان کا انفراسٹرکچر بہتر بنانے کی کوشش ہورہی ہے مگر اب بھی ایسے سیکڑوں علاقے ہیں جہاں بنیادی سہولتیں حتیٰ کہ سڑکیں تک نہیں ہیں۔ حکومت قومی شاہراہوں کے ذریعے چھوٹے دیہاتوں اور قصبوں کو جوڑنے کا کام تو کررہی ہے مگر ان دیہاتوں اور قصبوں کا اندرونی انفراسٹرکچر بنانے پر توجہ نہیں دے رہی ہے۔ ٹھوس اقدامات اور بنیادی سہولیات کے بغیر ’’ہوائی چپل‘‘ پہننے والی آبادی کو ’’ہوائی جہاز‘‘ کا سفر کروانے کا خواب، خواب ہی رہ جائے گا۔ n