• Thu, 30 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

معاشیانہ: کیا مہاجر، تارکین وطن اور پناہ گزیں، عالمی معیشت پر بوجھ ہیں؟

Updated: January 28, 2025, 3:49 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

’’میگرینٹ‘‘ (Migrant) اور ’’آئی میگرینٹ‘‘ (Immigrant) اکثرایک دوسرے کے متبادل کے طور پر استعمال ہوتے ہیں مگر ان میں واضح فرق ہے۔

The focus of the election campaign of the newly elected President of the United States, Donald Trump, has been the subject of immigration. Photo: INN
امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونالڈٹرمپ کی انتخابی مہم کا محور ہی تارکین وطن کی بدری کاموضوع رہا ہے۔ تصویر: آئی این این

’’میگرینٹ‘‘ (Migrant) اور ’’آئی میگرینٹ‘‘ (Immigrant) اکثرایک دوسرے کے متبادل کے طور پر استعمال ہوتے ہیں مگر ان میں واضح فرق ہے۔ اردو زبان میں پہلے لفظ کیلئے ’’مہاجر‘‘ اور دوسرے کیلئے ’’تارک وطن‘‘ استعمال ہوتا ہے۔ وہ شخص جو اپنے آبائی شہر/ گاؤں / وطن کو ملازمت کے بہتر مواقع یا اپنا معیار زندگی بہتر بنانے کیلئے مختصر مدت کیلئے چھوڑ دیتا ہے، ’’میگرینٹ‘‘ (مہاجر)  کہلاتا ہے۔ یہ وہ ہے جو مختصر مدت کے بعد اپنے آبائی ملک/قصبے کو لوٹتا ہےجبکہ ’’آئی میگرینٹ‘‘ (تارک وطن) سے مراد وہ ہے جو مستقل طور پر کسی غیر ملک میں رہنے یا کام کرنے کیلئے اپنا آبائی وطن چھوڑ دے۔ خیال رہے کہ ’’پناہ گزیں ‘‘ کو انگریزی میں Refugee کہتے ہیں۔ 
 فی الحال دنیا میں سب سے بڑا مسئلہ غیرقانونی طور پر کسی ملک میں رہنے والے تارکین وطن اور پناہ گزنیوں کا ہے۔ اگر اعدادوشمار پر غور کریں تو دنیا کی ۴؍ فیصد آبادی (۳؍ ارب ۲۰؍ کروڑ ۸۰؍ لاکھ) مہاجرین کے زمرے میں آتی ہے یعنی یہ اپنے آبائی وطن لوٹنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور لوٹتے بھی ہیں۔ ۳ء۶؍ فیصد (۲؍ ارب ۸۸؍ کروڑ ۷۲؍ لاکھ) تارکین وطن ہیں اور ۱ء۵؍ فیصد (ایک ارب ۲۰؍ کروڑ ۳۰؍ لاکھ) پناہ گزین ہیں۔ اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق تارکین وطن دنیا کے ایسے ممالک کا رُخ کرتے ہیں جہاں کی معیشت مستحکم ہو، معیار زندگی بہتر ہو، روزگار کے مواقع ہوں، مضبوط تعلیمی نظام ہو اور لوگوں کو تحفظ کا احساس ہو۔ ۱۹۹۵ء میں تارکین وطن کیلئے امریکہ سب سے بڑی منزل تھا جہاں ۲۴ء۶؍ ملین تارکین وطن آباد ہوئے۔ اس کے بعد روس (۱۱ء۹؍ ملین)، جرمنی (۷ء۳؍ ملین)، ہندوستان (۶ء۷؍ ملین) اور فرانس (۶؍ ملین) تھے۔ حالات تبدیل ہوئے مگر ۲۰۲۰ء میں بھی امریکہ تارکین وطن (۴۳ء۴؍ ملین) کی پہلی پسند رہا۔ اس کے بعد جرمنی (۱۴ء۲؍ ملین)، سعودی عربیہ (۱۳؍ ملین)، روس (۱۱ء۶؍ ملین) اور برطانیہ (۸ء۹؍ ملین) تھے۔ اس فہرست میں ہندوستان ۱۹۹۵ء کے چوتھے مقام سے پھسل کر ۱۳؍ ویں نمبر (۴ء۵؍ ملین) پر چلا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تارکین وطن کے دیگر ممالک میں سکونت اختیار کرنے کے معاملے میں ہندوستان ۱۹۹۵ء میں دوسرے نمبر (۷ء۲؍ ملین) پر اور ۲۰۲۰ء میں پہلے نمبر (۱۷ء۸؍ ملین) پر تھا، یعنی دیگر ممالک میں آباد تارکین وطن کی سب سے بڑی تعداد ہندوستانیوں کی ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے:معاشیانہ: اسکرولنگ، اٹینشن اکنامی اور موسمی بحران

اہم سوال یہ ہے کہ ہندوستانی اپنا ملک کیوں چھوڑ رہے ہیں ؟ اس کی وجوہات معاشی، سماجی، سیاسی اور ثقافتی مسائل ہیں۔ ۶ء۵؍ فیصد کی شرح نمو کے باوجود ہندوستان اپنے شہریوں کو بہتر معیار زندگی فراہم کرنے میں اب تک کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔ ملک کے بیشتر حصوں میں اب بھی بنیادی انفرااسٹرکچر نہیں ہے اور سیاسی مفادات کیلئے شہریوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے جس سے شہری خود کو غیرمحفوظ خیال کررہے ہیں۔ علاوہ ازیں، ہر قسم کی آلودگی اور ٹیکس کا پیچیدہ نظام، ہندوستانیوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کررہا ہے۔ ’’لبرل آٹو پالیسی‘‘ نے سڑکوں پر ٹریفک بڑھادیا ہے۔ سرکاری تخمینوں کے مطابق، ہندوستان میں ۲۱؍ کروڑ دو پہیہ اور ۷؍ کروڑ چار پہیہ گاڑیاں ہیں۔ خراب سڑکوں اور ٹریفک کے سبب کسی بھی بڑے شہر میں کار کی اوسط رفتار صرف ۵؍  کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں ہندوستان کے متعدد شہر ہیں۔ تقریباً تمام شہروں میں غیر مجاز تعمیرات کے ساتھ عوامی مقامات جیسے پارکس، کھیل کے میدان، حتیٰ کہ فٹ پاتھوں پر تجاوزات نے صحت اور حفاظت کے بارے میں شعور رکھنے والے شہریوں کی زندگیوں کو ناقابل برداشت بنا دیا ہے۔ فٹ پاتھ، ’’فوڈ مارٹس‘‘ میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ اس کے باوجود نظام کی خرابی کیلئے کبھی کسی اعلیٰ سرکاری ملازم یا پولیس اہلکار سے کوئی بازپرس نہیں کی گئی۔ بیوروکریسی اور انتظامیہ کی کمزوری اور حکومت کی ناقص پالیسیوں کا خمیازہ عام قانون پسند باشندوں کو بھگتنا پڑ تاہے۔ سست قانونی نظام بھی ہندوستانیوں کیلئے ناقابل برداشت ہوگیا ہے۔ 
 ملک کا انفرااسٹرکچر بہتر بنانے کی کوشش کی جارہی ہے، یونیورسٹیوں، میڈیکل کالجوں، تحقیقی اداروں، اسٹارٹ اپس اور یونیکورنس کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے لیکن ان میں سے کوئی بھی متمول ہندوستانیوں کو ملک میں روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ غریب اور متوسط طبقے کے ہندوستانی بھی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ملازمت کیلئے بیرون ملک جانے کو ترجیح دیتے ہیں، اور موقع ملتے ہی سرحدوں سے نکل جاتے ہیں۔ 
 ورلڈ اکنامک فورم کی ایک رپورٹ کے مطابق ہجرت عالمی معیشت میں ترقی کی اہم وجوہات میں سے ایک ہے۔ اس کے ذریعے ترقی یافتہ ممالک سے غریب اور ترقی پذیر ممالک میں کم وبیش ۶۷۰؍ بلین ڈالر کی گردش ہوتی ہے، جو براہ راست سرمایہ کاری سے کئی گنا زیادہ ہے۔ تارکین وطن کسی بھی ملک کی افرادی قوت کا حصہ بنتے ہیں اور معیشت کو رفتار دینے کا کام کرتے ہیں۔ اسی طرح پناہ گزین، جس ملک میں داخل ہوتے ہیں روزی روٹی کیلئے کام کرتے ہیں۔ ملک کی سرحد میں رہنے والا ہر شخص مقامی اور عالمی معیشت میں حصہ دار بنتا ہے۔ مگر دنیا بھر میں مہاجرین، تارکین وطن اور پناہ گزینوں کیلئے ’’بیرونی افراد‘‘ اور ’’گھس پیٹھیوں ‘‘ جیسی منفی اصطلاحات استعمال کی جارہی ہیں جبکہ یہ افراد اپنے فن اور صلاحیتوں سےعالمی معیشت کو تقویت پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ایسی ’’منفی‘‘ اصطلاحات سے چھٹکارہ پانے کیلئے ہی غالباً ’’گلوبل سٹیزن‘‘ (بین الاقوامی شہری) جیسی اصطلاح تیزی سے مقبول ہورہی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK