• Mon, 18 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

معاشیانہ: فلمی صنعت میں مصنوعی ذہانت؛ کیا فنکار ختم ہوجائیں گے؟

Updated: June 02, 2024, 10:36 AM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

(آرٹی فیشیل انٹیلی جنس، یا، اے آئی) مختلف شعبوں میں تیزی سے اپنی جگہ بنارہی ہے۔ دنیا بھر کے ماہرین اس کے بڑھتے عمل دخل سے پریشان ہیں جبکہ ایک طبقہ اس کا بھرپور استعمال کررہا ہے۔

Artificial Intelligence i.e. AI can bring dead actors back to life on screen, not only that but it can also compose songs in the voice of singers who are no longer alive. Photo: INN
آرٹی فیشیل انٹیلی جنس یعنی اے آئی ایسے اداکاروں کو پردے پر دوبارہ زندہ کرسکتا ہے جو دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں، صرف اتنا ہی نہیں بلکہ وہ ان گلوکاروں کی آواز میں نغمے بھی تیار کرسکتا ہے جو اَب حیات نہیں ہیں۔ تصویر : آئی این این

مصنوعی ذہانت (آرٹی فیشیل انٹیلی جنس، یا، اے آئی) مختلف شعبوں میں تیزی سے اپنی جگہ بنارہی ہے۔ دنیا بھر کے ماہرین اس کے بڑھتے عمل دخل سے پریشان ہیں جبکہ ایک طبقہ اس کا بھرپور استعمال کررہا ہے۔ ہزاروں کمپنیاں اب اے آئی میں سرمایہ کاری کررہی ہیں۔ تصویر بنانا ہو، آڈیو ویڈیو تیار کرنا ہو، یا، موسیقی ترتیب دینا ہو، اب ہر کام اس کے ذریعے ممکن ہے۔ اگر اے آئی کے استعمال کے اصول و ضوابط نہیں بنائے گئے تو وہ دن دور نہیں جب سبھی شعبوں سے انسانوں کا عمل دخل ختم ہوجائے گا۔ اے آئی کے نقصانات پر متعدد مباحثے ہوچکےہیں اور اس پر ہزاروں مضامین لکھے جاچکے ہیں۔ تاہم، فلمی صنعت سے اس کے ختم ہونے کے آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔ 
 ۲۰۲۳ء میں مہینوں جاری رہنے والا مظاہرہ ’’رائٹرس گلڈ آف امریکہ‘‘ صرف اسی لئے شروع ہوا تھا کہ اے آئی وہاں کے فنکاروں کی ملازمت ختم کردینے کے در پے تھا۔ ہالی ووڈ کے بڑے بڑے اسٹوڈیوز، پروڈکشن ہاؤسیز اور فلم کمپنیاں، اپنے فنکاروں کو اے آئی سے تحفظ فراہم کرنے کے بجائے، اس کا استعمال کرنے کو ترجیح دے رہی تھیں۔ اگر یہ احتجاج نہ ہوتا، اور فنکار اپنے تحفظات کیلئے آواز بلند نہیں کرتے تو یقینی طور پر اُن کا کریئر چند مہینوں میں ختم ہوجاتا۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اے آئی اسکرپٹ لکھنے سے لے کر اداکاروں کی حرکات و سکنات کی مدد سے پوری فلم تیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ وہ ایسے اداکاروں کو پردے پر دوبارہ زندہ کرسکتا ہے جو دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔ یہی نہیں، وہ ان گلوکاروں کی آواز میں نغمے بھی تیار کرسکتا ہے جو اَب حیات نہیں ہیں۔ چند سیکنڈز کے ویڈیوز کو۳؍ گھنٹے کی فلم میں تبدیل کرسکتا ہے، ایک منٹ کی موسیقی سن کر ۵؍ گھنٹے کی موسیقی بناسکتا ہے، چند کرداروں کی مدد سے پورا ناول لکھ سکتا ہے، موضوع دیجئے اور وہ اس پر نظمیں، کہانیاں، ناول، فلم اسکرپٹ، نیا سافٹ ویئر، حتیٰ کہ اپنا ’’ریپلیکا‘‘ (اپنے جیسا دوسرا سافٹ ویئر) تک تیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: معاشیانہ: معیشت کو استحکام بخشنے میں ای کامرس ویب سائٹس کا اشتراک

ہندوستانی فلمی صنعت ۲۰؍ لاکھ سے زائد افراد کو روزگار فراہم کرتی ہے جبکہ ہالی ووڈ میں اس سے ۴۴۱؍ ہزار افراد وابستہ ہیں۔ تفریحات کے اس شعبے میں اگر نصف فیصد بھی اے آئی استعمال ہونے لگے تو اس سے وابستہ نصف سے زائد افراد بے روزگار ہوجائیں گے جن میں فنکاروں سے لے کر سپورٹنگ اسٹاف تک ہوگا۔ فنکاروں کی ملازمت جب اے آئی کرنے لگے گا تو فنکار کیا کریں گے؟اے آئی کے فوائد کے ساتھ نقصانات بھی ہیں۔ 
 اے آئی کی سب سے بڑی خامی ہے اس کا جذبات سے عاری ہونا۔ یہ ناول اور کہانیاں لکھ تو سکتا ہے، اس پر فلمیں بھی تیار کرسکتا ہے مگر کردار کی مانگ کی مناسبت سے جو جذبات درکار ہوتے ہیں، انہیں تخلیق کرنے میں اے آئی ناکام ہوجاتا ہے۔ اسی طرح ڈیپ فیک ویڈیوز بھی تیزی سے وائرل ہورہے ہیں۔ اس کے ذریعے کسی بھی شخص کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ اے آئی، کاپی رائٹ اور مالکانہ حقوق کے مسائل بھی پیدا کرے گا، خاص طور پر موسیقی کے شعبے میں۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ چند فلمساز اپنا بجٹ کم رکھنے کیلئے اے آئی کی مدد سے فلمیں بنائیں گے جو جذبات سے عاری ہوں گی۔ یہ اور بات ہے کہ فلم شائقین میں وہ مقبول نہیں ہوں گی۔ 
 مصنوعی ذہانت سے فلمی صنعت کو سب سے بڑا خطرہ بے روزگاری اور فنون لطیفہ کا ختم ہوجانا ہے۔ ہمارے ملک میں بے روزگاری کی شرح بڑھتی جا رہی ہے، ایسے میں اگر فلم شعبہ یا حکومت، اے آئی کے استعمال کیلئے اصول و ضوابط وضع نہیں کرتا تو اس شرح میں مزید اضافہ ہوگا۔ ایک طاقتور ہندوستان کی تشکیل اسی وقت ممکن ہوگی جب یہاں کے نوجوانوں کے پاس روزگار ہوگا اور ان کا معیار زندگی بہتر ہوگا۔ فنون لطیفہ کے ختم ہوجانے کا مطلب ہے کہ دنیا میں فنکار پیدا نہیں ہوں گے، پھر چاہے وہ اداکار ہو، مصور ہو، موسیقار ہو یا گلوکار۔ 
 کیا اے آئی سے تیار کردہ فلمیں باکس آفس پر ہٹ ہوں گی؟ کون سی فلم کمپنیاں اس تجربے سے گزرنا چاہیں گی؟ خیال رہے کہ فلم شائقین جذبات سے پُر فلمیں دیکھنا پسند کرتے ہیں جبکہ اے آئی سے تیار کردہ ویڈیوز جذبات سے عاری ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں، فلمساز فلم کی شوٹنگ کے دوران مختلف قسم کی تبدیلیاں کرتے ہیں، ان کا ایک وژن ہوتا ہے اور ان کی اپنی تخلیقات ہوتی ہیں، جن کا مقابلہ اے آئی کبھی نہیں کرسکتا۔ فلم شائقین ایسی فلم نہیں دیکھیں گے جو بالکل سادہ اور عجیب و غریب سنیماٹوگرافی والی ہو۔ اسی طرح ہندوستانی فلموں کی ایک خاصیت یہاں کے نغمے ہیں۔ اے آئی کی کوئی آواز نہیں ہے، اور اے آئی نغمے گا نہیں سکتا۔ البتہ مشہور گلوکاروں کی آواز کاپی کرکے ان کی مدد سے گانے ضرور تیار کرسکتا ہے مگر ایسے میں گلوکار (یا ان کے خاندان کے فرد) کمپنی پر کاپی رائٹ کا مقدمہ کرسکتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ بالی ووڈ شائقین میں ’اسٹار پاور‘ کا سکہ قائم ہے جسے اے آئی کبھی ختم نہیں کرسکتا۔ فلمی صنعت میں اگر اے آئی کا استعمال محدود کیا جائے تو کسی کو خطرہ نہیں ہوگا لیکن ہر امور کیلئے اس کا سہارا لینا بے وقوفی ہوگی، خاص طور پر اُن کاموں کیلئے جو فائن آرٹس، وژول آرٹس اور پرفارمنگ آرٹس سے منسلک ہوں۔ 

 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK