• Sat, 21 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

معاشیانہ: خواتین کا اشتراک معیشت کو۳۰؍ فیصد مستحکم کرسکتا ہے، مگر یہ کیسے ہو؟

Updated: June 30, 2024, 3:47 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

۲۰۲۳ء کے اعدادوشمار کے مطابق خواتین کی آبادی کے لحاظ سے ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ عالمی سطح پر صنف نازک کی مجموعی آبادی میں ہندوستانی خواتین کا اشتراک ۱۷ء۴؍ فیصد جبکہ ملک کی آبادی میں تقریباً  ۴۹؍ فیصد ہے۔

Women constitute about 49 percent of the country`s population but contribute only 18% to the country`s GDP. Photo: INN
ملک کی آبادی میں خواتین تقریباً  ۴۹؍ فیصد ہیں لیکن ملک کی جی ڈی پی میں ان کا اشتراک صرف ۱۸؍ فیصد ہے۔ تصویر : آئی این این

۲۰۲۳ء کے اعدادوشمار کے مطابق خواتین کی آبادی کے لحاظ سے ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ عالمی سطح پر صنف نازک کی مجموعی آبادی میں ہندوستانی خواتین کا اشتراک ۱۷ء۴؍ فیصد جبکہ ملک کی آبادی میں تقریباً  ۴۹؍ فیصد ہے۔ تاہم، مارچ ۲۰۲۴ء کی اکنامک ٹائمز کی ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ خواتین کی اتنی بڑی آبادی ہونے کے باوجود ملک کی جی ڈی پی (گراس ڈومیسٹک پروڈکٹ یا مجموعی گھریلو پیداوار) میں ان کا اشتراک صرف ۱۸؍ فیصد ہے۔ عالمی بینک کی ۲۰۱۹ء کی رپورٹ کہتی ہے دنیا کی مجموعی جی ڈی پی میں خواتین کا اشتراک ۳۷؍ فیصد ہے۔ اسی طرح آرمینیا ایسا ملک ہے جس کی افرادی قوت میں سب سے زیادہ خواتین یعنی ۵۲ء۷۶؍ فیصد ہیں، اس کے بعد ترکمانستان، بورونڈی، موزامبیق اور جنوبی سوڈان کا نمبر آتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ فہرست کے ٹاپ ۱۰؍ ممالک میں ایک بھی ترقی یافتہ ملک نہیں ہے جبکہ ہندوستان ۱۶۶؍ ویں نمبر پر ہے۔ 
 اسٹیٹسٹا کی ایک رپورٹ کہتی ہے کہ ۲۰۲۲ء میں آئس لینڈ ایسا ملک تھا جہاں ۸۱؍ فیصد خواتین (کام کرنے کی اہل) برسرروزگار تھیں۔ اس کے بعد سان مرینو(۸۰؍ فیصد)، آرمینیا (۵۲ء۷۶؍ فیصد)، ترکمانستان (۵۲ء۶۱؍ فیصد)، بورونڈی (۵۱ء۹۶؍ فیصد) اور موزامبیق (۵۱ء۶۳؍ فیصد) کا نمبر آتا ہے۔ اس فہرست میں بھی ٹاپ ۱۰؍ میں کوئی ترقی یافتہ ملک شامل نہیں ہے۔ یہ جان کر حیرت ہوگی کہ یہ وہ ممالک ہیں جن کا نام خبروں میں شاذ و نادر ہی آتا ہے۔ روس، امریکہ، برطانیہ، اٹلی اور اسپین جیسے امیر اور ترقی یافتہ ممالک جو ہمہ وقت خواتین کے حقوق کیلئے آواز بلند کرتے نظر آتے ہیں، وہ ان دو فہرستوں میں ٹاپ ۱۵؍ میں بھی نہیں شامل ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے: معاشیانہ: کروڑ پتیوں کی ہجرت اور ملک کی معیشت پر اُس کے اثرات

اہم سوال یہ ہے کہ ملک کی آبادی میں خواتین کا فیصد ۴۹؍ ہونے کے باوجود وہ افرادی قوت کا حصہ کیوں نہیں ہیں ؟ اس کی کئی وجوہات ہیں جن میں سب سے اہم ان کیلئے روزگار کے یکساں مواقع فراہم نہ کرنا ہے۔ سینٹر فار مانیٹرنگ دی انڈین اکنامی کی گزشتہ سال کی رپورٹ کہتی ہے کہ ملک میں صرف ۱۰؍ فیصد خواتین (کام کرنے کی اہل) افرادی قوت کا حصہ ہیں، یا، روزگار کی تلاش میں ہیں۔ اس کا مطلب ہے صرف ۳۹؍ ملین خواتین کام کررہی ہیں جبکہ برسرروزگار مردوں کی تعداد ۳۶۱؍ ملین (۶۶؍ فیصد) ہے۔ ہندوستان میں تعلیم حاصل کرنے والی بیشتر خواتین ایسی ہیں جو تعلیم مکمل کرنے کے بعد ملازمت نہیں کرتیں۔ بعض خواتین ایسی بھی ہیں جو بحالت مجبوری، یا، اپنے طور پر ملازمت نہ کرنے کا فیصلہ کرتی ہیں۔ جو خواتین کام کرتی ہیں ان میں صرف ۳؍ فیصد ہی ایسی ہیں جو اعلیٰ عہدوں تک پہنچتی ہیں۔ متعدد تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ خواتین کو ان کی پسند کی ملازمت پانے کیلئے کافی جدوجہد کرنی پڑتی ہے اور اگر ملازمت مل جائے تو دفاتر یا ورک پلیس پر انہیں صنفی امتیاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اکثر معاملات میں ہوتا ہے کہ صلاحیتیں ہونے کے باوجود انہیں پروموٹ نہیں کیا جاتا بلکہ ان کے بجائے کسی مرد کو ترجیح دی جاتی ہے۔ 
 خواتین اپنے حقوق کیلئے برسوں سے لڑ رہی ہیں مگر اب بھی اس ضمن میں کئی محاذوں پر کام کرنا باقی ہے۔ معاشرے میں بعض کام ایسے ہیں جنہیں خالصتاً خواتین کیلئے مخصوص کردیا گیا ہے، اور انہیں اس عہدے سے آگے بڑھنے نہیں دیا جاتا۔ اسی طرح خواتین کیلئے نقل و حمل اور تحفظ کے مسائل بھی ہیں۔ اور یہ مسائل اسی وقت حل ہوسکتے ہیں جب حکومت اور کارپوریٹ سیکٹر مشترکہ طور پر ٹھوس اقدامات کریں۔ ہندوستان کے متعدد علاقوں میں آج بھی لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کی آزادی نہیں ہے۔ خواتین بامعاوضہ ملازمت میں حصہ لینے کی خواہشمند ہیں، اس کے باوجود انہیں سماجی اور اقتصادی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان رکاوٹوں کی شناخت اور انہیں ختم کرنے کیلئے زیادہ موثر پالیسیاں بنائی جاسکتی ہیں۔ تمام اداروں میں مرد اور خواتین کارکنوں کی مساوی نمائندگی کو یقینی بنانے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ خواتین کو دہری ذمہ داریاں ادا کرنی ہوتی ہیں۔ انہیں دفتر کے ساتھ گھر بھی سنبھالنا ہوتا ہے۔ ایسے معاملات بھی سامنے آئے ہیں جب خاتون نے اپنا گھر سنبھالنے کیلئے ملازمت چھوڑ دی ہے۔ 
 اکنامک ٹائمز کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر صنفی امتیاز ختم کرنے کی کوشش کی جائے تو ہماری جی ڈی پی ۳۰؍ فیصد کا اضافہ ہوسکتا ہے۔ ہمارے پاس ذرائع ہیں مگر ہم ان کا درست طریقے سے استعمال نہیں کررہے ہیں۔ لیبر فورس میں صنفی تفاوت کو ختم کرنا صرف خواتین اور ان کے خاندانوں کیلئے ہی نہیں بلکہ قومی اور بین الاقوامی معیشت کیلئے بھی مفید ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK