ملک میںکریڈٹ کارڈ استعمال کرنے والوں میں سے ۱ء۸؍ فیصد ایسے ہیں جو کریڈٹ کارڈ سے خریداری کرنے کے بعد بینک کو قرض کی رقم نہیں لوٹا پاتے۔
EPAPER
Updated: November 10, 2024, 12:13 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai
ملک میںکریڈٹ کارڈ استعمال کرنے والوں میں سے ۱ء۸؍ فیصد ایسے ہیں جو کریڈٹ کارڈ سے خریداری کرنے کے بعد بینک کو قرض کی رقم نہیں لوٹا پاتے۔
نوٹ بندی سے پہلے ہندوستان کا شمار ایسے ممالک میں ہوتا تھا جہاں کے شہری نقدی میں لین دین کرنے میں یقین رکھتے تھے۔ یہاں کے تاجروں کے بزنس ٹرانزیکشن چیک کے ذریعے ہوتے تھے۔ نوٹ بندی کے دوران لوگوں کی بڑی تعداد کو جی پے، گوگل پے، پے ٹی ایم اوردیگر یو پی آئی کے متعلق علم ہوا، اور پھر انہیں استعمال کرنے والوں کی تعداد رفتہ رفتہ بڑھنے لگی۔ آج ہندوستان، دنیا کا ایسا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے جہاں سب سے زیادہ ڈجیٹل ادائیگیاں کی جاتی ہیں۔ہندوستان کو یہ خطاب محض ۴؍ برسوں (۲۰۱۶ء سے ۲۰۲۰ء) میں حاصل ہوا۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ یو پی آئی سے قبل بھی ہندوستان میں ڈجیٹل پے منٹس ہوتی تھیں۔ اگرچہ ان کی تعداد کم تھی مگر ملک کے لاکھوں افراد ڈیبٹ کارڈز، کریڈٹ کارڈز اور نیٹ بینکنگ کے ذریعے لین دین کرتے تھے۔
یو پی آئی نے ہندوستان میں ڈیبٹ کارڈ کی مارکیٹ کو نمایاں طور پر متاثر کیا ہے، جس کی اہم وجہ یو پی آئی کا آسان استعمال ہے۔ اس کے ذریعے ادائیگی میں صارفین کو کوئی اضافی فیس بھی ادا نہیں کرنی ہوتی۔ یو پی آئی سے ایک روپے سے لے کر ۵؍ لاکھ روپے تک کی ادائیگی کرنا ممکن ہے۔ تاہم، کریڈٹ کارڈز کی مارکیٹ نسبتاً لچکدار رہی ہے کیونکہ یہ مختلف اخراجات کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں جیسے بڑی خریداری اور ’رِیوارڈ‘ کے پروگرام جن سے صارفین کو فائدہ ہوتا ہے۔ پہلے کریڈٹ کارڈ کا مفہوم سمجھ لیجئے: کریڈٹ کا معنی ہے قرض، یعنی یہ ایسا کارڈ ہے جس کی مدد سے صارف خریداری کرکے بینک کو قرض کی رقم بعد میں ادا کرسکتا ہے۔
گزشتہ ماہ شائع ہونے والی بینک بازار کی ایک رپورٹ میں واضح ہوا کہ گروسری سے لے کر الیکٹرانکس تک، ملک کے میٹرو شہروں (ممبئی، کولکاتا، نئی دہلی، حیدرآباد، چنئی، بنگلور، کوچی، جے پور، لکھنؤ، نوئیڈا، گڑگاؤں، ناگپور، پونے اور کانپور) میں کریڈٹ کارڈز مختلف قسم کی خریداریوں کیلئے ادائیگی کا متبادل بن گئے ہیں۔ تہواروں کے موسم میں کریڈٹ کارڈ استعمال کرنے کا رجحان بڑھ جاتا ہے۔ لوگ ’رِیوارڈ‘ حاصل کرنے یا انہیں استعمال کرنے کیلئے بڑے پیمانے پر کریڈٹ کارڈ سے ادائیگی کو ترجیح دیتے ہیں۔ اسی رپورٹ میں کریڈٹ کارڈ کے متعلق دلچسپ اعدادوشمار پیش کئے گئے۔ اس میں انکشاف ہوا ہے کہ ملک کے غیر میٹرو شہروں میں روزمرہ کے اخراجات کیلئے کثرت سے کریڈٹ کارڈ استعمال ہورہے ہیں۔کریڈٹ کارڈ کے استعمال کے معاملے میں غیر میٹرو شہروں کے باشندے ، میٹرو کے شہریوں کو پیچھے چھوڑ رہے ہیں۔ عام طور پر کریڈٹ کارڈ کبھی کبھار یا بڑی خریداری کیلئے سوائپ کیا جاتا ہے لیکن غیر میٹرو کےشہروں میں رہنے والے ماہانہ اخراجات اور چھوٹی موٹی خریداری کیلئے بھی کریڈٹ کارڈ استعمال کررہے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: معاشیانہ: زومیٹو/سویگی سے پارسل آیا ہے! لیکن آپ نے کیا قیمت ادا کی؟
واضح رہے کہ یہ رجحان میٹرو اور غیر میٹرو باشندوں کے درمیان کریڈٹ کارڈ کے استعمال کی ترجیحات میں تبدیلی کو نمایاں کرتا ہے۔ غیر میٹرو علاقوں میں تقریباً ۴۵؍ فیصد لوگ ماہانہ اخراجات پورے کرنے کیلئے کریڈٹ کارڈ استعمال کرتے ہیں جبکہ میٹرو شہروںمیں یہ شرح ۳۹؍ فیصد ہے۔ یہ فرق معمول کے اخراجات کیلئے کریڈٹ (قرض) پر بڑھتے ہوئے مالی انحصار کو نمایاں کرتا ہے۔ ملک کی معیشت کیلئے لین دین اہم ہے۔ یہ رجحان ظاہر کرتا ہے کہ چھوٹے شہروں کے رہائشی اخراجات کیلئے کریڈٹ کا سہارا لے رہے ہیں، جو اُن کی خرچ کرنے کی عادات میں تبدیلی کی عکاسی کرتا ہے۔ بینکوں اور ملک کی معیشت کیلئے یہ اقدام صحت مند قرار دیا جاسکتا ہے لیکن ایسے صارفین کی تعداد زیادہ ہے جو کریڈٹ کارڈ پر خریداری تو کرلیتے ہیں مگر بینکوں کو رقم لوٹانے (پوری یا کم سے کم رقم) سے قاصر ہوتے ہیں۔
جون ۲۰۲۴ء کے اعدادوشمار کے مطابق ملک بھر میں کریڈٹ کارڈ استعمال کرنے والوں میں سے ۱ء۸؍ فیصد ایسے ہیں جو کریڈٹ کارڈ سے خریداری کرنے کے بعد بینک کو قرض کی رقم نہیں لوٹا پاتے۔ یہ فیصد گزشتہ سال کے مقابلے میں ۰ء۱؍ فیصد زیادہ ہے۔ فیصد کم ضرور ہے مگر بینکوں کو اس ضمن میں ۲ء۶؍ لاکھ کروڑ روپے نہیں ملے ہیں۔ اس خطیر رقم کو ’ڈیفالٹ‘ (رقم ملنے کی امید ختم ہوجانا) کردیا گیا ہے۔ خیال رہے کہ جو صارف قرض کی ادائیگی میں ناکام ہوجاتے ہیں انہیں بینکوں کی جانب سے قرض یا نیا کریڈٹ کارڈ اس وقت تک نہیں دیا جاتا جب تک کہ اس کا بینک اسٹیٹ مینٹ صحت مند نہ نظر آنے لگے۔ بینک بازار میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ غیر میٹرو کے ۲۲؍ فیصد رہائشی کریڈٹ کارڈ کے بل بالکل ادا نہیں کرپاتے۔ اپنے شوق اور اخراجات کے سبب وہ کارڈ استعمال کرلیتے ہیں مگر ادائیگی کے دوران انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بینکوں کی جانب سے انہیں کئی مہینوں تک ہراساں کیا جاتا ہے مگر آخر میں نتیجہ’ڈیفالٹ‘کی صورت میں نکلتا ہے۔ ان تمام اعدادوشمار اور نتائج کی بنیاد پر اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معیشت کے استحکام کیلئے لین دین ضروری ہے مگر کریڈٹ کارڈ سے بڑھتا ٹرانزیکشن اور ڈیفالٹ کی بڑھتی تعداد، کیا معیشت اور ڈجیٹل لین دین کیلئے یہ صحتمند رجحان ہے؟