• Thu, 19 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

معاشیانہ: ڈجیٹل اسکرین، اسکرین ٹائم، نسلِ نو اور عالمی معیشت

Updated: September 15, 2024, 4:55 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

متعدد تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اگر لوگوں کو، خاص طور پر بچوں کواسکرین سے دور نہیں کیا گیا تو آئندہ ۵؍ برسوں میں دنیا بالکل مختلف نظر آئے گی۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

ہفتے کے آغاز میں سویڈن سے خبریں عام ہوئیں کہ یہاں کے محکمۂ صحت نے اسکرین ٹائم کو محدود کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات کی سفارش کی ہے۔ سفارشات میں ہے کہ ۲؍ سال کی عمر تک کے بچوں کو کسی بھی قسم کی ڈجیٹل اسکرین سے دور رکھا جائے، پھر چاہے وہ ٹی وی ہی کیوں نہ ہو۔ ۲؍ سے ۵؍ سال کی عمر کے بچوں کو زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹہ اور ۶؍ سے ۱۲؍ سال کی عمر کے بچوں کو ۲؍ گھنٹے تک کی اجازت دی جائے۔ نوعمروں (۱۲؍ سال سے زائد اور ۱۸؍ سال سے کم) کیلئے اسکرین ٹائم کو ۳؍ گھنٹے تک محدود کیا جائے۔ 
  واضح رہے کہ اسکرین ٹائم کو محدود کرنے کی سفارش کرنے والا یہ پہلا ملک نہیں ہے۔ اس سے قبل امریکہ، آئر لینڈ، کنیڈا، آسٹریلیا اور فرانس نے بھی بڑھتے اسکرین ٹائم پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ فرانس نے کہا تھا کہ ۳؍ سال سے کم عمر کے بچوں کو کسی بھی اسکرین کے سامنے نہ لایا جائے جبکہ آئرلینڈ اور امریکہ نے ۲؍ سال سے کم عمر بچوں کو ویڈیو کال کے دوران اسکرین پر آنے کی اجازت دینے کی بات کہی تھی۔ اسے سرکاری طور پر نافذ کیا جانا چاہئے یا نہیں ؟ اس پر اب بھی مباحثے جاری ہیں۔ 
 کورونا وائرس کی وباء نے بچوں کو اسکرین تک لانےاور اس پر گھنٹوں صرف کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ لاک ڈاؤن اور ورک فرام ہوم (گھر سے کام) کلچر نے والدین کے ساتھ بچوں کو بھی گھروں میں قید کردیا۔ والدین نے ورک فرام ہوم کی مصروفیت کے سبب بچوں کے ہاتھوں میں اسمارٹ فون، ٹیبلٹ یا ٹی وی کا ریموٹ تھما دیا تاکہ ان کے کام میں خلل نہ پڑے اور وہ سکون سے کام کرسکیں۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ بچوں کے کلاس روم بھی بذریعہ ’’زوم‘‘ ڈجیٹل اسکرین پر آگئے۔ کورونا وائرس کے ڈیڑھ سے ۲؍ برسوں نے ننھے ذہنوں کے ساتھ ہی بڑوں کو بھی اسکرین کا عادی بنا دیا۔ حال ہی میں ہونے والی متعدد تحقیقات میں اسکرین کے جو نقصانات بیان کئے گئے ہیں، وہ اس قدر پریشان کن ہیں کہ اگر لوگوں کو، خاص طور پر بچوں کو ان سے دور نہیں کیا گیا تو آئندہ ۵؍ برسوں میں دنیا بالکل مختلف نظر آئے گی۔ 

یہ بھی پڑھئے:معاشیانہ: ’’ٹرینڈز‘‘ کی بدولت عالمی معیشت کا بدلتا منظر نامہ

 ’’جاما پیڈیاٹرکس‘‘کی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ ڈجیٹل اسکرین دیکھنے پر ایک سال سےکم عمر کے بچے میں سیکھنے اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں متاثر ہوتی ہیں۔ وہ کوئی بھی کام دیر سے سیکھتا ہے۔ ۲؍ سے ۴؍ سال کی عمر میں اس کی ’ازخود مسئلہ حل کرنے کی قوت‘ کمزور ہوجاتی ہے۔ بعض معاملات میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو کام بچے کو۴؍ سال کی عمر میں کرنے آجانے چاہئیں، وہ ۶؍ سے ۸؍ سال کی عمر میں آتے ہیں۔ اسکرین بچے کی آنکھیں متاثر کرتی ہے، اس کے دماغ کی نسوں پر اثر پڑتا ہے، ہاتھوں کی نسوں میں اکڑن پیدا ہوتی ہے اور بے خوابی کی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ نوعمروں میں ان علامات کے ظاہر ہونے کے ساتھ وہ ڈپریشن کا بھی شکار ہوجاتے ہیں۔ ڈجیٹل دور میں بلاشبہ ہم تیزی سے ترقی کررہے ہیں مگر ہم اس جانب توجہ نہیں دے رہیں کہ ہم نسلوں کو ذہنی اور جسمانی طور پر کمزور بھی کررہے ہیں۔ 
 حکومتیں اس ضمن میں اس لئے اقدام کررہی ہیں کیونکہ بچے ہی ملک اور قوم کا مستقبل ہیں۔ اگر ایسی ٹیکنالوجی سے وہ ذہنی اور جسمانی طور پر متاثر ہوتے رہیں گے تو دنیا ترقی کے بجائے تباہی کی جانب بڑھے گی۔ ترقی یافتہ ممالک کو اسمارٹ فون اور بڑھتے اسکرین ٹائم کے اثرات نظر آنے لگے ہیں کیونکہ ان ممالک میں ’’فنکاروں ‘‘ کی کمی ہورہی ہے۔ اب تنقیدی اور تخلیقی سوچ رکھنے والے افرا دکم ہورہے ہیں، نامور مصور پیدا نہیں ہورہے ہیں، سنجیدگی سے کتابیں لکھنے اور پڑھنے والے کم ہوتے جارہے ہیں، وہ ہنر اور صلاحیتیں جو آج سے ۱۰؍ سال پہلے اہمیت رکھتی تھیں، ان کی جانب کسی کا رجحان نہیں ہے، خاص طور پر نوعمروں میں۔ وہ ٹک ٹاک، شاٹس اور ریلز کے ذریعے راتوں رات شہرت حاصل کرنے اور دولتمند ہونے کے خواب دیکھ رہے ہیں، اور اسی خواب میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کی تخلیقی اور پیداواری صلاحیتیں تیزی سے ختم ہورہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی ممالک کے بیشتر اسکولوں نے کیمپس میں موبائل فون کے استعمال پر پابندی عائد کردی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی حکومتوں نے میٹا، ٹک ٹاک، ایکس اور اسنیپ چیٹ جیسی بڑی کمپنیوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنا الگورتھم تبدیل کریں تاکہ نوعمر اپنا فون دیر تک دیکھنے کی عادت سے بچیں۔ ڈجیٹل دور نے دنیا کی معیشت کو استحکام ضرور بخشا ہے مگر انہیں استعمال کرنے کے رہنما اصول نہ ہونے کی وجہ سے لوگ، خاص طور پر بچے اور نوجوان، اس کا مثبت استعمال کرنے کے بجائے اس کے عادی ہوتے جارہے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK