• Tue, 17 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

معاشیانہ: گھوسٹ جابس؛ امیدوار ’حقیقی‘ اور ’جعلی‘ ملازمتوں میں تفریق کرنے سے قاصر

Updated: August 25, 2024, 3:58 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

ایک رپورٹ کے مطابق بعض کمپنیاں جعلی ملازمتیں اسلئے بھی پوسٹ کرتی ہیں تاکہ اپنے ملازمین کو یقین دلاسکیں وہ ان پر کام کا بوجھ کم کرنے کیلئے نیا عملہ ہائر کرنا چاہتی ہیں۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

زید نے ایک کمپنی کی ویب سائٹ پر ’ضرورت ہے‘ کا اشتہار دیکھ کر فوری طور پر درخواست بھیج دی۔ زید کو جاب کی سخت ضرورت تھی اور اس کی صلاحیتیں ویب سائٹ پر درج ملازمت کیلئے درکار اہلیت پر پوری اترتی تھیں۔ کئی مہینے گزر گئے مگر کمپنی کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔ زید کو اب بھی امید ہے کہ اسے کمپنی کی جانب سے انٹرویو کا کال ضرور آئے گا۔ بلال نے بھی ایک ویب سائٹ پر ’ضرورت ہے‘ کے اشتہار کے تحت درخواست دی۔ چند دنوں بعد اسے انٹرویو کا کال آیا۔ اس نے انٹرویو میں کامیابی بھی حاصل کرلی تاہم، اسے ملازمت کی پیشکش نہیں کی گئی بلکہ کہا گیا کہ ’’جب کمپنی میں ضرورت ہوگی توتمہیں کال کیا جائے گا۔ ‘‘ پہلی صورت میں ’ضرورت ہے‘ کے تحت درج ملازمت کیلئے امیدوار کو کال ہی نہیں کیا گیا جبکہ دوسری صورت میں انٹرویو میں کامیابی حاصل کرلینے کے بعد بھی امیدوار کو ملازمت نہیں ملی۔ ان دونوں امیدواروں کے ساتھ کیا ہوا؟
ملازمت تلاش کرنے والے گزشتہ سال سے اس مسئلہ کا سامنا کررہے ہیں۔ وہ جس ملازمت کیلئے درخواست دیتے ہیں، انہیں کمپنی کی جانب سے کال نہیں آتا، یا، انٹرویو میں کامیابی کے باوجود انہیں ملازمت کی پیشکش نہیں کی جاتی۔ ایسی ملازمتوں کو ’گھوسٹ جابس‘ (بے اصل ملازمتیں ) کہتے ہیں، یعنی ایسی ملازمتیں جن کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ قومی ہو یا بین الاقوامی، بڑی بڑی کمپنیاں اپنی ویب سائٹس پر ’گھوسٹ جابس‘ پوسٹ کررہی ہیں۔ یہی نہیں، یہ ملازمتیں ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس (لنکڈاِن، انسٹاگرام، ایکس اور فیس بک وغیرہ) پر بھی پوسٹ کی جاتی ہیں مگر ان کی حقیقت نہیں ہوتی۔ اہم سوال یہ ہے کہ پھر کمپنیاں ایسا کیوں کرتی ہیں؟

یہ بھی پڑھئے:معاشیانہ: سوشل میڈیا کی طاقت، فلموں کی ’’ری ریلیز‘‘ کا رُجحان

بعض کمپنیاں اپنے متبادلات کو’اوپن‘ رکھنے کیلئے ایسا کرتی ہیں۔ اسے یوں سمجھئے: آپ کا انسٹا گرام اکاؤنٹ ہے، آپ اس پر کچھ پوسٹ نہیں کرتے مگر اس کے ذریعے دیگر سرگرمیوں پر نظر رکھتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح کمپنیاں یہ ملازمتیں ’اوپن‘ رکھتی ہیں تاکہ اچھے امیدوار اُن کی طرف متوجہ ہوں، حالانکہ وہ فوری طور پر ان کی خدمات حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتیں۔ اس ضمن میں ان کے پاس جو ’ریزیومے‘اور’سی وی‘ جمع ہوتی ہیں، انہیں وہ اپنے پاس محفوظ رکھتے ہیں اور جب کمپنی کی طرف سے بجٹ ترتیب دیا جاتا ہے، یا،انہیں اس رول کیلئے کسی امیدوار کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ اسی فہرست میں سے امیدواروں کو تلاش کرتی ہیں۔ 
علاوہ ازیں، مقبول سائٹس پر ملازمت کی باقاعدہ پوسٹنگ مارکیٹ میں کمپنی کی ساکھ مضبوط رکھتی ہے۔ ’ضرورت ہے‘ کے اشتہارات یہ تاثر پیدا کرتے ہیں کہ کمپنی پھل پھول رہی ہے۔ اس طرح سرمایہ کار اور کلائنٹس ان کی جانب متوجہ ہوتے ہیں۔ بعض صورتوں میں، کمپنیاں، ریسرچ کیلئے جاب پوسٹ کرتی ہیں تاکہ وہ ان مہارتوں کو سمجھ سکیں جن کی زیادہ مانگ ہے۔ ماہرین معاشیات ’گھوسٹ جابس‘ کو ’’فیک جابس‘‘ (جعلی ملازمتیں ) اور ’اسکیم‘ (Scam) بھی قرار دیتے ہیں۔ ریزیومے بلڈر نے اس ضمن میں ۶۰۰؍ سے زائد انٹرنیشنل کمپنیوں کا سروے کیا، جس میں انکشاف ہوا کہ۶۰؍ فیصد سے زائد کمپنیاں جعلی ملازمتیں اس لئے پوسٹ کرتی ہیں تاکہ اپنے ملازمین کو یقین دلاسکیں وہ ان پر کام کا بوجھ کم کرنے کیلئے نیا عملہ ہائر کرنا چاہتی ہیں۔ ان میں سے۶۲؍ فیصد نے کہا کہ وہ اپنے ملازمین میں خوف پیدا کرنے کیلئے ’گھوسٹ جابس‘ پوسٹ کرتی ہیں تاکہ ملازمین ملازمت چھن جانے کے ڈر سے اپنا کام خوش اسلوبی سے انجام دیں۔ 
 گزشتہ سال سے بیشتر کمپنیوں نے مجموعی طور پر لاکھوں ملازمتیں ختم کی ہیں۔ جب بے روزگار ہونے والے افراد نے ملازمت کیلئے درخواستیں دینی شروع کیں تو انہیں درج بالا سطور میں تحریر دو صورتوں میں سے کسی ایک سے گزرنا پڑا۔ ایسے میں ’گھوسٹ جابس‘ کی اصطلاح منظر عام پر آئی ہے۔ اب جاب مارکیٹ کا حال یہ ہے کہ’حقیقی‘ (ریئل) اور ’جعلی‘ (گھوسٹ) ملازمت کے اشتہار میں فرق کرنا مشکل ہوگیا ہے، خاص طور پر آئی ٹی اور انجینئرنگ کے شعبے میں۔ اگر آپ لنکڈ اِن کا جائزہ لیں تو احساس ہوگا کہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر ایسے لاکھوں افراد ہیں جو اس کیفیت سے گزر رہے ہیں۔ وہ ’اوپننگ‘ کیلئے اپلائی کرتے ہیں اور انتظار کرتے رہ جاتے ہیں مگر انہیں کمپنیوں کی جانب سے کوئی کال موصول نہیں ہوتا جبکہ کمپنیاں اپنے بزنس کی غلط شبیہ پیش کرکے سرمایہ کاروں کو اپنی جانب راغب کرکے پھل پھول رہی ہیں۔ ’گھوسٹ جابس‘ کے دور میں سب سے زیادہ نقصان ان نوجوانوں اور امیدواروں کا ہورہا ہے جو صلاحیتیں ہونے کے باوجود ملازمتیں پانے سے قاصر ہیں۔ واضح رہے کہ ریزیومے بلڈر نے اپنی رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ ان کمپنیوں، جاب پورٹلس اور سوشل میڈیا پر پوسٹ کی جانے والی ۱۰؍ میں سے ۷؍ ملازمتیں جعلی ہوتی ہیں۔ اہم سوال یہ ہے کہ اس صورتحال میں حکومت اور کارپوریٹ سیکٹرکیا اقدامات کریں گے؟ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK