• Thu, 19 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

معاشیانہ: سوشل میڈیا کی طاقت، فلموں کی ’’ری ریلیز‘‘ کا رُجحان

Updated: August 18, 2024, 3:34 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

صورتحال یہ ہے کہ پی وی آر اور آئی ناکس جیسی بڑی کمپنیوں میں اب ایسےافراد کو ملازمتیں دی جارہی ہیں جو سوشل میڈیا پر موضوع بحث فلموں پر نظر رکھتے ہیں۔

When Aamir Khan`s film `Dangal` was released in 2016, it did good business at that time and also collected well in its `re-release`. Photo: INN
عامر خان کی فلم ’دنگل‘ ۲۰۱۶ء میں جب ریلیز ہوئی تھی، اُس وقت اچھا کاروبار کیا تھا اور ’ری ریلیز‘ میں بھی اچھا کلیکشن کیا۔ تصویر : آئی این این

وبائی حالات سے پہلے تک سوشل میڈیا اتنا طاقتور نہیں تھا جتنا اس کے دوران اور پھر بعد کے دور میں ہوا۔ قومی سطح ہو یا بین الاقوامی سطح، سوشل میڈیا اور اس پر بننے والے مشمولات پر سنجیدگی سے توجہ نہیں دی جاتی تھی مگر لاک ڈاؤن کے محض چند مہینوں میں یہ اس قدر طاقتور ہوگیا کہ مظاہروں کے قیام سے لے کر حکومتوں کا تختہ پلٹنے تک کیلئے اسے استعمال کیا جانے لگا۔ بعض معاملات میں اس کا استعمال اتنے بہترین اور منظم طریقے سے کیا گیا کہ حکومتوں کو اپنے متنازع بیانات اور بل تک واپس لینے پڑے۔ تاہم، ہندوستان میں سوشل میڈیا کی طاقت کا اندازہ اس وقت ہوا جب اس کا استعمال ۱۴؍ جون ۲۰۲۰ء کو بالی ووڈ اداکار سشانت سنگھ راجپوت کی خودکشی کے بعد ہندی فلموں کے بائیکاٹ کیلئے کیا گیا۔ 
 اَن لاک کے بعد بالی ووڈ کی کوئی بھی فلم سپر ہٹ کیا ہٹ بھی نہیں ہوسکی۔ فلمساز اور سنیما گھروں کے مالکان پریشان تھے کہ ان کا بزنس مندی کا شکار تھا۔ اچھے موضوعات پر بننے والی فلمیں تک بری طرح فلاپ ہوئیں۔ سوشل میڈیا پرمنظم طریقے سے بالی ووڈ کا بائیکاٹ جاری رہا اور اس دوران ہالی ووڈ اور جنوبی ہند کی فلمیں ہٹ ہی نہیں بلکہ بلاک بسٹر تک کے زمرے میں شامل ہوئیں۔ بائیکاٹ گینگ نے ہندو مسلم موضوعات کی ایسی فلموں کو خوب فروغ دیا جس میں مسلمانوں کی شبیہ غلط انداز میں پیش کی گئی تھی۔ فلموں کے فلاپ ہونے کی وجہ او ٹی ٹی پلیٹ فارمز اور پائریسی بھی تھے۔ تاہم اوٹی ٹی اور فلمسازوں کے درمیان ہونے والے معاہدوں نے فلموں کے نقصان کو تھوڑا کم کر دیا۔ پائریسی کے معاملے میں حکومت نے سخت نوٹس لیا اور اب اس پر کسی حد تک قابو پا لیا گیا ہے۔ تاہم فلموں کے کاروبار کی رونق اس وقت لوٹی جب ۲۰۲۳ء میں شاہ رخ خان کی فلم ’پٹھان‘ ریلیز  ہوئی۔ اس کے بعد ریلیز ہونے والی فلموں نے کافی اچھا کاروبار کیا اور بائیکاٹ گینگ بھی ٹھنڈا پڑگیا۔ 

یہ بھی پڑھئے:معاشیانہ: معیشت کو سالانہ ۳؍ فیصد نقصان کی وجہ ناقص تغذیہ ہے

اب ناظرین کے پاس مشمولات کی بھرمار ہے اسلئے وہ معیاری اور اچھے موضوعات پر بننے والی فلمیں، ویب سیریز یا ٹی وی سیریز دیکھ رہے ہیں۔ جو فلمیں اچھی ہوں یا جن میں ان کا پسندیدہ اداکار ہو، شائقین اب ان ہی فلموں میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کی طاقت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے اب صارفین سوشل میڈیا پر جن فلموں کے متعلق ’میمز‘، مختصر ویڈیو اور آن لائن پٹیشن چلاتے ہیں، فلمساز اور سنیما مالکان ان پر نظر رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ۲۰۲۴ء میں کئی فلمیں دوبارہ ریلیز (ری ریلیز) ہوئی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان فلموں میں سے متعدد نے ری ریلیز میں اوریجنل ریلیز سے زیادہ روپوں کا کاروبار کیا ہے۔ 
 خیال رہے کہ فلموں کو ری ریلیز کرنے کا رواج مغرب میں تھا۔ وہاں کے فلم شائقین ری ریلیز فلموں کو بڑے شوق سے دیکھتے ہیں۔ چند ماہ پہلے تک ہندوستانی فلمسازوں کا خیال تھا کہ ہندوستانی شائقین فلموں کی ری ریلیز میں دلچسپی نہیں لیتے۔ جو فلمیں ایک مرتبہ ریلیز ہوجائیں اور سنیما گھروں میں اپنا لائف ٹائم کلیکشن پورا کرلیں تو انہیں ری ریلیز کرنے کا کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ مگر ہندوستان میں ایسے کئی ادارے ہیں جو سنیما کے بزنس میں نہیں ہیں لیکن وہ محدود طریقے سے پرانی فلمیں ری ریلیز کرتے ہیں۔ جب ہندوستانی شائقین میں اس کا رجحان بڑھنے لگا تو سنیما گھر مالکان اور فلمسازوں نے اُن فلموں کو ری ریلیز کرنے کا فیصلہ کیا، جن کے متعلق سوشل میڈیا پر بحثیں چھڑی رہتی ہیں۔ اس طرح امسال لیلیٰ مجنوں (۲۰۱۹ء)، راک اسٹار (۲۰۱۱ء)، راجہ بابو (۱۹۹۴ء)، گول مال ریٹرنس (۲۰۰۸ء)، دنگل (۲۰۱۶ء)، لو آج کل (۲۰۰۹ء)، پارٹنر (۲۰۰۷ء)، ہم آپ کے ہیں کون (۱۹۹۴ء) اور دل والے دلہنیا لے جائیں گے (۱۹۹۴ء) کے نام قابل ذکر ہیں۔ یہی نہیں، ہندوستان میں ہالی ووڈ کی فلمیں جیسے ٹائی ٹینک (۱۹۹۷ء)، امریکن گرافٹی (۱۹۷۳ء)، فروزن (۲۰۱۳ء)، انٹرسٹیلار (۲۰۱۴ء)، ٹوائے اسٹوری (۱۹۹۵ء)، گریویٹی (۲۰۱۳ء)، دی ڈارک نائٹ (۲۰۰۸ء) اور، دی لارڈ آف دی رنگز (۲۰۰۳ء) وغیرہ بھی ری ریلیز ہوئیں۔ 
 دلچسپ بات یہ ہے کہ اب پی وی آر اور آئی ناکس جیسی بڑی کمپنیوں نے اپنے اداروں میں ایسےافراد کو ملازمت پر رکھا ہے جن کا کام سوشل میڈیا پر موضوع بحث فلموں پر نظر رکھنا ہے۔ یہی نہیں اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر سنیما کمپنیاں سروے بھی جاری کرتی ہیں جن میں یہ جاننے کی کوشش کی جاتی ہے کہ کون سی پرانی فلم وہ دوبارہ دیکھنا پسند کریں گے۔ اگر سنیما کمپنیاں نئی فلموں سے کاروبار نہیں کرپارہی ہیں تو ان کی کوشش ہے کہ شائقین کی پسندیدہ پرانی فلمیں ریلیز کی جائیں اور ان کے ذریعے کاروبار کو باقی رکھا جائے۔ کاروبار کی یہ حکمت عملی ان کیلئے موثر ثابت ہورہی ہے۔ اس طرح ایسی کئی فلمیں نہ صرف دوبارہ ریلیز ہوں گی بلکہ اچھا کاروبار بھی کریں گی، جو اپنی اوریجنل ریلیز میں بری طرح فلاپ ہوگئی تھیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK