• Fri, 20 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

معاشیانہ: ’ہی کی کوموری‘، معیشت کو سالانہ کھربوں ڈالر کا نقصان پہنچانے کا موجب

Updated: July 28, 2024, 4:40 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

یہ ایک جاپانی اصطلاح ہے جس کا معنی ہے، ایسی حالت جس میں کوئی شخص کم از کم ۶؍ ماہ تک بغیر کسی سماجی میل جول کے اپنے گھر میں الگ تھلگ رہے،یہ کافی نقصاندہ ہے۔

According to a report of the World Health Organization, 10 percent of the world`s youth and 25 percent of the elderly population are suffering from this disease. Photo: INN
عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کی ۱۰؍ فیصد نوجوان اور ۲۵؍ فیصد معمر آبادی اس مرض کا شکار ہے۔ تصویر : آئی این این

’’ہی کی کو موری‘‘ (Hikikomori) ایک جاپانی اصطلاح ہے جس کا معنی ہے، ایسی حالت جس میں کسی شخص کا کم از کم ۶؍ ماہ تک بغیر کسی سماجی میل جول کے اپنے گھر میں الگ تھلگ رہنا۔ یہ اصطلاح ایسے شخص کیلئے استعمال کی جاتی ہے جو اپنے آپ کو گھر میں بند کرلیتا ہے، اور خاموش اور تنہائی پسند ہوجاتا ہے۔ اکیلا رہنے کا خواہشمند ہوتا ہے اسلئے خاندان کے کسی فرد سے بات چیت بھی نہیں کرتا۔ یہ شخص ڈپریشن اور متعدد ذہنی مسائل کا شکار ہوجاتا ہے۔ کووڈ ۱۹؍ کے دوران اور اس کے بعد ’’ہی کی کوموری‘‘ تیزی سے پھیلا لیکن اس کا سب سے زیادہ شکار نوجوان ہوئے، وہ بھی ایسے نوجوان جنہیں اپنے اسمارٹ فون پر گیمز کھیلنا اور سوشل میڈیا پر وقت گزارنا اچھا لگتا تھا۔ وبائی حالات کے بعد متعدد ممالک سے ایسی کئی رپورٹیں جاری ہوئیں جن میں بتایا گیا تھا کہ وہاں کے باشندے ڈپریشن اور اکیلے پن کا شکار ہوگئے ہیں۔ اس کیفیت سے چھٹکارا پانے کیلئے ہزاروں افراد ماہرین نفسیات کا رُخ کررہے ہیں تاکہ ذہنی استحکام حاصل کرسکیں۔ 

یہ بھی پڑھئے: معاشیانہ: غیر منظم شعبہ: معیشت کو استحکام بخشنے والے شعبوں سے حکومت کی بے پروائی

اس ضمن میں جنوبی کوریا کی حکومت نے ایک منفرد اقدام کیا۔ اس نے ’’ہیپی نیس فیکٹری‘‘ نامی ایک پروگرام شروع کیا جو اُن والدین کیلئے ہے جن کی اولادیں ڈپریشن، شخصی عدم توازن، بے خوابی اور الزائمر جیسے امراض کا شکار ہیں، یا جنہیں ’’ہی کی کوموری‘‘ لاحق ہے۔ اس فیکٹری میں متاثرہ نوجوان کے والدین اپنی رضا مندی سے بغیر فون اور انٹرنیٹ کے چند دن گزارتے ہیں۔ یہ فیکٹری دراصل ایک عمارت ہے جس میں وقت گزارنے والے والدین کو نیلے رنگ کا یونیفارم دیا جاتا ہے اور وہ کم از کم ۳؍ دن یا زیادہ سے زیادہ ۱۳؍ ہفتے تک بیرونی دنیا سے بغیر کسی رابطہ کے عمارت کے ایک چھوٹے سے کمرے میں اپنا وقت گزارتے ہیں۔ ان کے کمروں کے دروازوں میں ایک چھوٹا سا سوراخ ہوتا ہے جس سے انہیں غذا دی جاتی ہے۔ اس پروگرام کا مقصد ہے کہ والدین اپنے بچوں کی تنہائی اور وہ کس ذہنی کرب سے گزر رہے ہیں، اسے سمجھنے کی کوشش کریں۔ ٹیکنالوجی، خاص طور پر اسمارٹ فون نے والدین اور بچوں کے درمیان ایک خلاء پیدا کردیا ہے۔ یہ پروگرام اس خلاء کو دور کرنا چاہتا ہے تاکہ والدین اور بچوں کے درمیان صحتمند گفتگو ہوسکے۔ بچہ اگر تنہائی محسوس کرے تو وہ بلا جھجک اپنے والدین سے بات کرے۔ اگر بچہ تنہائی پسند ہوگیا ہے تو والدین اس کی حالت کو سمجھیں اور پھر اسے اس صورتحال سے باہر نکالنے کی تدبیر کریں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اس مرض کے علاج کا آغاز گھر سے ہونا چاہئے، خاص طور پر والدین کی جانب سے۔ یہی وجہ ہے کہ جنوبی کوریائی حکومت نے اسے وقت کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے بغیر کسی فیس کے اس پروگرام کا آغاز کیا۔ 
 گلوبل اسٹیٹ آف کنکشنز رپورٹ ۲۰۲۳ء میں انکشاف ہوا تھا کہ دنیا کی ۱ء۲۵؍ بلین آبادی ’ہی کی کوموری ‘ کا شکار ہے۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے اس ضمن میں کہا کہ دنیا کی ۱۰؍ فیصد نوجوان اور ۲۵؍ فیصد معمر آبادی اس مرض کا شکار ہے۔ تاہم، درست اعدادوشمار اس سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ اکیلا پن صرف ایک ذہنی مرض نہیں ہے۔ یہ جسمانی صحت کو بھی متاثر کرتا ہے۔ اکثر معاملات میں اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ ہندوستان، نوجوانوں کی آبادی والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ نوجوانوں میں وہ افراد آتے ہیں جن کی عمریں ۱۲؍ سے ۲۷؍ سال کے درمیان ہیں اور انہیں ’جین زی‘ یا ’زومرس‘ بھی کہا جاتا ہے۔ آن لائن گیمز، سوشل میڈیا، سماجی میل جول، توقعات، خاندان پر انحصار، بے روزگاری، مہنگائی، کم وقت میں کچھ کر دکھانے کا جنون، اپنی زندگی کا دوسروں سے موازنہ اور آمدنی کا بڑھتا خلاء وغیرہ جیسے عوامل کے سبب زومرس ذہنی تناؤ کا شکار ہورہے ہیں۔ 
  ہندوستان میں ذہنی صحت کی جانب توجہ دینے کا آغاز گزشتہ چند برسوں میں ہوا ہے۔ اس سے قبل اسے مرض ہی خیال نہیں کیا جاتا تھا۔ تحقیقات کہتی ہیں کہ ۷۱؍ فیصد ہندوستانی آج بھی ذہنی بیماریوں کے متعلق غیر حساس اصطلاحات استعمال کرتے ہیں۔ ۲۰۱۶ء میں وال اسٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ کے مطابق، نوجوان ہندوستانی ۲۵؍ دیگر ممالک میں اپنے ہم مناصب کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ کام کرتے ہیں، اوسطاً ۵۲؍ گھنٹے فی ہفتہ۔ ایسے حالات، ملازمت کا عدم تحفظ، چیلنجنگ پروجیکٹس، بڑے اہداف، سخت ڈیڈ لائنز اور بہترین کارکردگی کا دباؤ، ذہنی تناؤ کی سطح کو بلند کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔ امتیازی سلوک، ہراساں کرنا، دشمنی، دفتری سیاست اور کام کے طویل اوقات، جسمانی، جذباتی اور ذہنی صدمے کا سبب بنتے ہیں۔ اگر ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی طور پر صحتمند ایک شخص جی ڈی پی میں ۱۰۰؍ فیصد کا اشتراک کرتا ہے تو، ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی طور پر پریشان شخص کی پیداواری قوت بالترتیب ۷۰، ۵۰؍ اور ۷۵؍ فیصد تک کم ہوجاتی ہے۔ ۲۰۳۰ء تک ملک کی معیشت کو ۴ء۵۸؍ کھرب ڈالر نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے جس کی وجہ ملازمین اور نوجوانوں کا ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی طور پر غیر استحکام ہونا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کی ایک رپورٹ کہتی ہے کہ نوجوانوں اور ملازمین میں ذہنی صحت متاثر ہونے کے سبب ہندوستانی معیشت کو ۲۰۱۲ء سے ۲۰۳۰ء کے درمیان ۱ء۰۳؍ کھرب ڈالرکا نقصان ہوگا۔ حکومت ہند کو نوجوانوں اور ملازمین کے اس سنگین مسئلہ کی جانب توجہ دینے اور ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا ہندوستانی معیشت کھربوں ڈالر کے نقصان کی متحمل ہے؟ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK