• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

معاشیانہ: غیر منظم شعبہ: معیشت کو استحکام بخشنے والے شعبوں سے حکومت کی بے پروائی

Updated: July 21, 2024, 4:38 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

ہندوستانی معیشت میں غیر منظم شعبہ کا اشتراک ۷۵؍ فیصد سے زائد ہے مگر سرکاری پالیسیوں کے سبب سب سے زیادہ نقصان اسی شعبے کو اٹھانا پڑتا ہے۔

Demonetisation, GST and lockdown have shut down many small businesses in the country`s unorganized sector, leaving more than 16.45 lakh people unemployed. This sector contributes more than 50 per cent to the gross domestic product. Photo: INN
نوٹ بندی، جی ایس ٹی اور لاک ڈاؤن نے ملک کے غیر منظم شعبے کے کئی چھوٹے کاروبار کو بند کردیا جس سے ۱۶ء۴۵؍ لاکھ سے زائد لوگ بے روزگار ہوگئے۔یہ شعبہ مجموعی پیداوار میں ۵۰؍ فیصد سے زائد کا اشتراک کرتا ہے۔ تصویر : آئی این این

کسی بھی ملک کی معیشت میں منظم اور غیر منظم شعبوں کا اہم کردار ہوتا ہے۔ ترقی پذیر اور غریب ممالک میں غیر منظم شعبہ ہی معیشت کو استحکام بخشتا ہے۔ ہندوستانی معیشت میں غیر منظم شعبہ کا اشتراک ۷۵؍ فیصد سے زائد ہے مگر سرکاری پالیسیوں کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان اسی شعبے کو اٹھانا پڑتا ہے۔ ملک کے غریب اور کمزور ترین افراد غیر منظم شعبے میں کام کرتے ہیں۔ بلاشبہ، غیرمنظم شعبے میں کام کرنے والے تمام افراد غریب نہیں ہیں اور تمام کام کرنے والے غریب غیر منظم شعبہ کا حصہ نہیں ہیں لیکن غیر منظم شعبہ میں کام کرنے اور غریب ہونے کے درمیان موہوم سا فرق ہے۔ گزشتہ ہفتے اس کالم میں بتایا گیا تھا کہ اگر ہندوستان کو نوٹ بندی، جی ایس ٹی اور لاک ڈاؤن جیسے جھٹکے نہیں لگتے تو دو عددی معیشت ممکن تھی۔ ان تینوں جھٹکوں نے معیشت کو استحکام بخشنے والے غیر منظم سیکٹر کو اتنا بڑا نقصان پہنچایا ہے کہ یہ شعبہ اب بھی اس کے منفی اثرات سے پوری طرح ابھر نہیں سکا ہے۔
 اینول سروے آف اَن انکارپوریٹڈ انٹرپرائزیس (اے ایس یو ایس ای)کی حالیہ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ نوٹ بندی، جی ایس ٹی اور لاک ڈاؤن نے ملک کے غیر منظم شعبے کے کئی چھوٹے کاروبار کو بند کردیا جس سے ۴۵ء۱۶؍ لاکھ سے زائد لوگ بے روزگار ہوگئے۔ غیر منظم شعبہ ملک کے بے شمار چھوٹے اور متوسط درجے کے کاروبار کا مجموعہ ہے۔ یہ شعبہ ملک کی مجموعی پیداوار میں ۵۰؍ فیصد سے زائد کا اشتراک کرتا ہے اور مجموعی افرادی قوت میں سے تین چوتھائی سے زیادہ افراد کو روزگار دیتا ہے۔

یہ بھی پڑھئے :معاشیانہ: دو عددی معیشت ممکن تھی اگر نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کا نفاذ نہ ہوا ہوتا!

گزشتہ ۷؍ سال میں یہ شعبہ اس قدر کمزور ہوگیا ہے کہ اسے پہلے جیسی حالت میں آنے کیلئے ابھی مزید کئی سال لگیں گے۔ نوٹ بندی یعنی نومبر ۲۰۱۶ء سے پہلے اس شعبے میں۱۳ء۱۱؍ کروڑ ملازم تھے جن کی تعداد ۲۰۲۳ء کے مالی سال میں گھٹ کر ۱۰ء۹۶؍ کروڑ ہوگئی۔ بین الاقوامی سطح پر مجموعی افرادی قوت میں سے ۶۱؍ فیصد (۲؍ بلین) غیرمنظم شعبہ سے وابستہ ہیں۔ اس شعبے کے حالات کارپوریٹ سیکٹر کی طرح نہیں ہوتے۔ یہاں کم پڑھے لکھے یا غیر تعلیم یافتہ افراد کو اپنی گزر بسر کیلئے انتہائی معمولی اجرت پر ملازمت کرنی پڑتی ہے۔ یہ افراد عام طور پر فیکٹریوں میں کام کرتے ہیں جہاں ان کے تحفظ پر زیادہ دھیان نہیں دیا جاتا۔ اس شعبے کے ملازمین کام کے نہ کسی معاہدے پر دستخط کرتے ہیں ، نہ انہیں بامعاوضہ چھٹیاں اور دیگر رعایتیں اور فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ 
 نوٹ بندی میں بینکوں کے باہر طویل قطاروں میں ایسے افراد کی تعداد زیادہ تھی جو غیر منظم شعبے سے وابستہ تھے۔ جی ایس ٹی کے نفاذ کے بعد سب سے زیادہ پریشانیاں چھوٹے اور متوسط درجے کے تاجروں کو اٹھانی پڑیں ، جو اَب بھی اس ٹیکس نظام کی پیچیدگیوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ یہی نہیں شہریوں کو بھی جی ایس ٹی ادا کرنا ہوتا ہے۔ لاک ڈاؤن نے غیر منظم شعبہ پر چند ماہ کیلئے مکمل طور پر تالہ لگادیا اور بے روزگار ہوئے افراد روزگار کی تلاش میں یہاں وہاں بھٹکتے رہے۔ پے در پے جھٹکے کھانے کے باوجود ہندوستانی معیشت سنبھلنے میں صرف اس لئے کامیاب رہی کہ شہریوں نے ایک دوسرے کی نہ صرف سماجی بلکہ معاشی طور پر بھی مدد کی۔ حکومت ہند نے غربا کی مدد کیلئے اناج تقسیم کی مہم ضرور شروع کی تھی مگر بدعنوانیوں کے سبب یہ اناج مستحقین تک نہیں پہنچا، یا، ان کی ایک بڑی تعداد اس مدد سے محروم رہ گئی۔ پی ایم کیئرز فنڈ سے شہریوں کو کیا ملا؟ اس کے متعلق کوئی رپورٹ شائع نہیں ہوئی۔ ایمرجنسی اور قدرتی آفات کے دوران عوام کی دیکھ بھال کے نام پر شروع کئے جانے والے اس فنڈ میں مخیر اور انسان دوست عطیہ کنندگان نے کتنی رقم دی، اس کی تفصیل تک عوامی سطح پر ظاہر نہیں کی گئی۔
 ماہرین معاشیات کے مطابق، ہندوستانی معیشت کو بنیاد فراہم کرنے کا کام غیر منظم شعبہ کرتا ہے مگر حکومت جب معاشی پالیسیوں کا نفاذ کرتی ہے تو وہ اس شعبہ کو مکمل طور پر نظر انداز کردیتی ہے جس کا ثبوت ان کے نافذ ہونے کے بعد نظر آنے والے مناظر ہوتے ہیں۔ چھوٹے اور متوسط درجے کے تاجر، اپنا کاروبار جاری رکھنے کیلئے تگ و دو کرتے رہتے ہیں جبکہ یومیہ اجرت پر کام کرنے والے کام کی تلاش میں در در بھٹکتے رہتے ہیں۔ منظم شعبے کو استحکام بخشنے کیلئے حکومت غیر منظم شعبے، جس سے ہندوستان کی نصف سے زائد آبادی وابستہ ہے، کو دیکھ کر بھی اَن دیکھا کردیتی ہے۔ غیر منظم شعبہ کمزور ہونے لگتا ہے تو لاکھوں افراد بے روزگار ہوجاتے ہیں ، جس کا منفی نمایاں اثر معیشت پر نظر آتا ہے۔ معیشت کی ترقی کا دعویٰ کرنے والی حکومت کو غیر منظم شعبہ کو مستحکم کرنے کیلئے بھی پالیسیاں ترتیب دینی چاہئے۔ حکومت جانتی ہے کہ اس شعبے کے افراد کن حالات میں کام کرتے ہیں ، اسلئے انہیں ان کے حالات بہتر کرنے کیلئے بھی اقدامات کرنے چاہئیں۔ اس کے بعد ہی ہم ایک ایسے ہندوستان کا خواب شرمندہ تعبیر کرنے کے قابل ہوں گے جہاں مساوات ہوگی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK