گزشتہ ۱۰؍ سال میں ہندوستانی معیشت نے مختلف قسم کے اتار چڑھاؤ کا سامنا کیا ہے۔ ایک جانب، سرکاری اعداد و شمار معیشت کا حجم بڑھنے اور جی ڈی پی میں ترقی کا دعویٰ کرتے ہیں، وہیں عالمی سطح پر جاری ہونے والی رپورٹیں اس کے برعکس ہوتی ہیں۔
EPAPER
Updated: January 28, 2024, 4:46 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai
گزشتہ ۱۰؍ سال میں ہندوستانی معیشت نے مختلف قسم کے اتار چڑھاؤ کا سامنا کیا ہے۔ ایک جانب، سرکاری اعداد و شمار معیشت کا حجم بڑھنے اور جی ڈی پی میں ترقی کا دعویٰ کرتے ہیں، وہیں عالمی سطح پر جاری ہونے والی رپورٹیں اس کے برعکس ہوتی ہیں۔
گزشتہ ۱۰؍ سال میں ہندوستانی معیشت نے مختلف قسم کے اتار چڑھاؤ کا سامنا کیا ہے۔ ایک جانب، سرکاری اعداد و شمار معیشت کا حجم بڑھنے اور جی ڈی پی میں ترقی کا دعویٰ کرتے ہیں، وہیں عالمی سطح پر جاری ہونے والی رپورٹیں اس کے برعکس ہوتی ہیں۔ ماہرین معاشیات ہوں یا عام شہری، سبھی تذبذب کا شکار ہیں کہ آیا کون سی رپورٹوں پر یقین کریں۔ ہندوستانی معیشت کو زبردست نقصان پہنچانے والے نوٹ بندی کے فیصلے کے بعد حکومت نے جی ایس ٹی (گڈز اینڈ سروسیز ٹیکس، اشیاء و خدمات ٹیکس) کو ان دعوؤں کے ساتھ نافذ کیا تھا کہ اس سے ہمارا پرانا ’پیچیدہ‘ ٹیکس نظام ختم ہوجائے گا۔ یہ نظام ختم تو ہوا لیکن درست طریقے سے نفاذ نہ ہونے کے سبب جی ایس ٹی نے عوام کو مشکلات میں ڈال دیا۔ جی ایس ٹی، ہندوستانی ٹیکس نظام کو آسان بنانے کیلئے لایا گیا تھا مگر یہ پرانے ٹیکس نظام سے زیادہ پیچیدہ ہوگیا ہے۔
آمدنی (انکم) ٹیکس اور جی ایس ٹی میں آسان فرق یہ ہے کہ جی ایس ٹی اشیاء و خدمات کی ’’سپلائی چین‘‘ کے مختلف مرحلوں پر لگایا جاتا ہے جسے بالواسطہ طور پر عام شہری ادا کرتے ہیں جبکہ آمدنی ٹیکس بلا واسطہ کسی فرد کی آمدنی پر عائد ہوتا ہے۔ سینٹرل بورڈ آف ڈائریکٹ ٹیکسیز کی حالیہ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ ٹیکس کے معاملے میں ہمارے ’کے شیپ‘ (K-Shape) کا خلاء بڑھ گیا ہے۔ سب سے پہلے یہ جان لیجئے کہ ’’کے شیپ‘‘ کیا ہے؟ اس میں معیشت کے مختلف حصوں کی کارکردگی گراف پر حرف ’’K‘‘ کی طرح نظر آتی ہے۔ یہ گراف اس وقت بنتا ہے جب معیشت کے کچھ حصے مضبوط ترقی کا تجربہ کرسکتے ہیں جبکہ دیگر میں کمی جاری رہتی ہے، یعنی معیشت کے کچھ حصے ترقی جبکہ کچھ تنزلی کا شکار ہوتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: معاشیانہ: کچھ میٹھا ہوجائے ملک میں چاکلیٹ کا بڑھتا مارکیٹ
مذکورہ رپورٹ کہتی ہے کہ گزشتہ ۵؍ سال (۲۰۱۸ء تا ۲۰۲۳ء) میں انفرادی طور پر ٹیکس وصولی ۷۶؍ فیصد بڑھی ہے جبکہ کارپوریٹ سے ٹیکس وصولی صرف ۲۴ء۴۵؍ فیصد ہے۔ ۲۰۱۹ء کے مالی سال میں انفرادی ٹیکس وصولی ۴؍ لاکھ ۷۳؍ ہزار ۱۷۹؍ کروڑ روپے تھی جو ۲۰۲۳ء میں ۸؍ لاکھ ۳۳؍ہزار ۳۰۷؍ کروڑ روپے ہوگئی ہے۔ دوسری جانب کارپوریٹ ٹیکس وصولی جو ۲۰۱۹ء میں ۶؍ لاکھ ۶۳؍ ہزار ۵۷۲؍ کروڑ روپے تھی گزشتہ مالی سال میں ۸؍ لاکھ ۲۵؍ ہزار ۸۳۴؍ کروڑ ہوگئی۔ اس میں معمولی اضافہ ہوا ہے۔ یہ اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ انفرادی طور پر ٹیکس وصولی کیلئے سرکاری پالیسیاں سخت ہیں۔ تاہم، ہزاروں کروڑوں کے منافع والی کمپنیوں کو آسانیاں فراہم کی گئی ہیں۔ واضح رہے کہ ۲۰۱۹ء میں کارپوریٹ سیکٹر کو وزیر خزانہ نے متعدد مراعات کے ساتھ کارپوریٹ ٹیکس میں کمی کا تحفہ بھی دیا تھا۔ اسے ۳۰؍ فیصد سے کم کرکے ۲۲؍ فیصد کردیا گیا تھا۔
دوسری جانب، بالواسطہ ٹیکس وصولی میں بھی خاصا اضافہ ہوا ہے جو ملک میں اشیاء و خدمات خریدنے والا ہر شخص ’’انجانے‘‘ میں ادا کرتا ہے۔ وہ خواہ امیر ہو، غریب ہو، یا خط افلاس کے نیچے زندگی گزارنے والا، سبھی کو اشیاء و خدمات خریدتے وقت انڈائریکٹ ٹیکس (بالواسطہ ٹیکس) ادا کرنا ہی پڑتا ہے۔ گزشتہ ماہ جاری ہونے والی نیوز کلک کی ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا تھا کہ مودی حکومت نے پیٹرول اور ڈیزل پر ایکسائز ڈیوٹی بڑھا دی ہے جس سے حکومت کو ہونے والا منافع، ۹۹؍ ہزار کروڑ روپے (۱۵۔ ۲۰۱۴ء) سے بڑھ کر ۳ء۷۳؍ لاکھ کروڑ روپے (۲۰۔ ۲۰۲۱ء) ہوگیا، یعنی صرف ۷؍ سال میں ۲۷۷؍ فیصد کا اضافہ۔ اس مدت میں پیٹرول کی قیمتوں میں ۷۹؍ فیصد جبکہ ڈیزل کی قیمتوں میں ۱۰۱؍ فیصد کا اضافہ ہوا۔ یہی نہیں بلکہ رسوئی گیس کی قیمتیں بھی کئی گنا بڑھ چکی ہیں۔
اکتوبر ۲۰۲۳ء میں بزنس اسٹینڈرڈ کی ایک رپورٹ میں واضح ہوا تھا کہ مارچ ۲۰۱۹ء کے بعد سے ’’اپنے آپ کو دیوالیہ‘‘ قرار دینے والے امیر افراد (جو قرض ادا کرنے کی طاقت رکھتے ہیں مگر ادائیگی نہیں کرنا چاہتے) کی تعداد اتنی زیادہ بڑھ گئی ہے کہ بینک اور مالیاتی ادارے اس ضمن میں روزانہ کی بنیاد پر ۱۰۰؍ کروڑ سے زائد بڑی رقم ’معاف‘ (نقصان برداشت) کررہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ۲۰۱۴ء میں اس ضمن میں ۱ء۲؍ لاکھ کروڑ روپے معاف کئے گئے تھے، اور اب کم و بیش ۳؍کھرب روپے معاف کئے جاچکے ہیں۔
مودی حکومت ان محاذوں پر ٹھوس اقدامات کرنے کے بجائے ان کا مورد الزام کانگریس کو ٹھہرا کر اپنا پلہ جھاڑ لیتی ہے۔ در حقیقت، سرکاری پالیسیوں کا فائدہ امیروں اور کارپوریٹ سیکٹر کو مل رہا ہے جبکہ عام شہری خطِ افلاس کے اطراف ہی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ متذکرہ تمام رپورٹوں اور اعدادوشمار سے ظاہر ہے کہ یومیہ ۶؍ ڈالر (تقریباً ۵۰۰؍ روپے) کمانے والے ۸۴؍ فیصد ہندوستانیوں کیلئے ایک بہتر ہندوستان بنانے میں اقتدار ناکام رہا ہے لیکن ملک کے سیاسی، سماجی اور معاشی حالات کے پیش نظر یہ کہنا زیادہ آسان ہے کہ شہریوں کے معیار زندگی کو بہتر اور معیشت کو مستحکم بنانے کی فکر حکومت کو ہے نہ ۸۴؍ فیصد ہندوستانیوں کو۔