کسی بھی ملک کی خوشحالی کا اندازہ وہاں کی آبادی کے معیار زندگی سے لگانا ممکن ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں اتنی ترقی ہوگئی ہے کہ اب دنیا کے کسی بھی حصے میں آباد باشندوں کے معیار زندگی کے متعلق معلوم کرنا زیادہ مشکل نہیں رہ گیا ہے۔
EPAPER
Updated: January 07, 2024, 3:22 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai
کسی بھی ملک کی خوشحالی کا اندازہ وہاں کی آبادی کے معیار زندگی سے لگانا ممکن ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں اتنی ترقی ہوگئی ہے کہ اب دنیا کے کسی بھی حصے میں آباد باشندوں کے معیار زندگی کے متعلق معلوم کرنا زیادہ مشکل نہیں رہ گیا ہے۔
کسی بھی ملک کی خوشحالی کا اندازہ وہاں کی آبادی کے معیار زندگی سے لگانا ممکن ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں اتنی ترقی ہوگئی ہے کہ اب دنیا کے کسی بھی حصے میں آباد باشندوں کے معیار زندگی کے متعلق معلوم کرنا زیادہ مشکل نہیں رہ گیا ہے۔ متعدد ریسرچ کمپنیاں اپنے طور پر سال بھر تحقیق کرنے کے بعد مختلف شعبوں میں دنیا کے حالات کے متعلق رپورٹ پیش کرتی ہیں۔ کسی ملک کی امارت جاننا ہو، خواتین کی آزادی ہو، صحافتی آزادی ہو یا بھوک، اب اعدادوشمار کے ذریعے کسی بھی ملک کے متعلق قیاس قائم کیا جاسکتا ہے کہ وہاں کے حالات کیسے ہیں۔
گزشتہ دنوں’صرف شارک‘ کی جانب سے ’’ڈجیٹل کوالیٹی آف لائف انڈیکس‘‘ (ڈجیٹل معیار زندگی کی فہرست) کی ایک رپورٹ شائع ہوئی۔ ۱۲۱؍ ممالک کی اس فہرست میں ہمارا ملک ۵۲؍ ویں جبکہ پہلے نمبر پر فرانس ہے۔ یہ فہرست ۵؍ اہم اشاریوں کی بنیاد پر بنائی جاتی ہے:انٹرنیٹ کا معیار، انٹرنیٹ خریدنے کی طاقت، ڈجیٹل تحفظ، ڈجیٹل انفراسٹرکچر اور ڈجیٹل انتظام۔ یہ فہرست بتاتی ہے کہ ہماری ڈجیٹل دنیا بہت کمزور نہیں ہے۔ اگر ان تمام اشاریوں میں ہندوستان کی رینکنگ علاحدہ علاحدہ دیکھی جائے تو ہمارے ملک میں انٹرنیٹ کا معیار کافی بہتر ہے یعنی ۷۶؍ ایم بی پی ایس ہے۔ یہاں انٹرنیٹ سستا ہے یعنی ہندوستانیوں کو انٹرنیٹ خریدنے کیلئے ماہانہ صرف ایک گھنٹہ ۴۸؍ منٹ کام کرنا ہوگا۔ تاہم، ڈجیٹل سیکوریٹی، ڈجیٹل انفراسٹرکچر اور ڈجیٹل انتظام کے معاملے میں ہم ترقی یافتہ ممالک سے کمزور ہیں۔ اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ ہماری ڈجیٹل دنیا بہت زیادہ محفوظ نہیں ہے البتہ اسے محفوظ بنانے کے حوالے سے کافی کچھ اقدامات کئے جارہے ہیں۔ اس فہرست میں براعظم ایشیاء میں ہمارا ملک ۱۳؍ ویں نمبر پر ہے۔
ہندوستانیوں کا ڈجیٹل معیار زندگی کا موازنہ روایتی معیار زندگی سے کیا جانا چاہئے۔ گزشتہ سال ’’کوالیٹی آف لائف انڈیکس‘‘ (معیار زندگی کی فہرست) میں ہندوستان ۵۴؍ ویں جبکہ نیدرلینڈس پہلے نمبر پر تھا۔ براعظم ایشیاء میں ہمارا ملک ۱۵؍ ویں نمبر پر ہے جبکہ اس خطے میں عمان میں معیار زندگی سب سے بہتر ہے۔ یہ فہرست اِن اشاریوں کی بنیاد پر تیار کی جاتی ہے: قوتِ خرید، تحفظ، صحت، اخراجات، پراپرٹی کی قیمتیں، سفر کا وقت، آلودگی اور آب وہوا۔ کسی بھی ملک میں ایک اچھی اور صحت مند زندگی گزارنے کیلئے یہ بنیادی چیزیں ہیں۔ اس فہرست میں دنیا کے ۸۴؍ ممالک حصہ لیتے ہیں جن میں ہم ۵۴؍ ویں نمبر پر ہیں، یعنی نچلے ۳۰؍ ممالک میں ہمارا شمار ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: معاشیانہ: سبکدوشی کی عمر، ملازمت کے مواقع اور نسل ِ نو کا مستقبل
اسی طرح دنیا کے خوشحال ممالک کی فہرست میں ہندوستان ۱۲۶؍ ویں جبکہ فن لینڈ پہلے نمبر پر ہے۔ اس فہرست میں کل ۱۵۰؍ ممالک ہیں۔یہ فہرست اِن اشاریوں کی بنیاد پر تیار کی جاتی ہے: فی کس آمدنی، صحت، سماجی معاونت، انتخاب کی آزادی، بھروسہ اور سخاوت۔ ان تمام محاذوں پر ہم سخت کمزور ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گھانا اور گامبیا جیسے غریب ممالک بھی ہم سے بہتر ہیں۔
عالمی سطح پر مہینوں کی تحقیق کے بعد نہایت تفصیل سے جاری ہونے والی ان فہرستوں میں ہندوستان کا نمبر دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے شہری اور حکومت کون سی دنیا میں زیادہ خوش ہیں اور کون سے محاذ پر زیادہ کام کیا جا رہا ہے۔ ہم ڈجیٹل محاذ پر مضبوط ہیں لیکن حقیقی دنیا میں حقیقی مسائل کے ساتھ زندگی گزارنے کے محاذ پر اب بھی کافی کمزور ہیں۔ متعدد تحقیقات میں یہ سامنے آیا ہے کہ ہندوستانی روزانہ اوسطاً ۵؍ گھنٹہ انٹرنیٹ کی نذر کردیتے ہیں۔
ڈجیٹل دنیا حقیقی دنیا نہیں ہے۔ اس دنیا میں بھوک پیاس نہیں لگتی، بیمار ہونے کا خطرہ اور تحفظ کا احساس نہیں ہوتا، آلودگی اور آب و ہوا نہیں ہوتی، اور یہاں آپ سفر نہیں کرسکتے۔ ہندوستانی حقیقی دنیا میں رہتے ہوئے ڈجیٹل دنیا میں رہنا زیادہ آسان تصور کررہے ہیں جبکہ وہ یہ بات بھول رہے ہیں کہ مسائل کا سامنا انہیں حقیقت میں کرنا ہے۔ موجودہ حالات کے پیش نظر یہ کہنا زیادہ آسان ہے کہ غالباً شہری حقیقت میںجینا ہی نہیں چاہتے، اس لئے وہ تمام مسائل، مثلاً بے روزگاری، مہنگائی، قوت خرید میں کمی، وغیرہ، جن کے خلاف انہیں آواز بلند کرنی چاہئے، سوالات قائم کرنے چاہئیں، اُن پر پوری طرح سے خاموشی ہے۔ تاہم، ڈجیٹل دنیا پر چند بٹن دبا کر اپنی ’ذمہ داری‘ ادا کرنے کا رجحان بڑھ گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری حکومت شہریوں کیلئے ڈجیٹل دنیا ہی مستحکم کررہی ہے تاکہ وہ اسی دنیا کو حقیقت تسلیم کرلیں اور حقیقی دنیا میں، جہاں مسائل ہیں، خاموش ہوجائیں۔