• Tue, 19 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

معاشیانہ: سبکدوشی کی عمر، ملازمت کے مواقع اور نسل ِ نو کا مستقبل

Updated: December 31, 2023, 3:01 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

ہندوستان میں قانونی طور پر کام کرنے کی عمر ۱۸؍ سال ہے۔ شہریوں کو بچہ مزدوری، استحصال اور کمپنیوں اور فیکٹریوں میں ہونے والے حادثات سے محفوظ رکھنے کیلئے آئین ہند نے ملازمت کی یہ حد مقرر کی ہے۔

The highest retirement age in the world (67 years) is in Australia, Denmark, Greece, Iceland and Italy. Photo: INN
دنیا میں سبکدوشی کی سب سے زیادہ عمر (۶۷؍ سال) آسٹریلیا، ڈنمارک، یونان، آئس لینڈ اور اٹلی میں ہے۔ تصویر : آئی این این

ہندوستان میں قانونی طور پر کام کرنے کی عمر ۱۸؍ سال ہے۔ شہریوں کو بچہ مزدوری، استحصال اور کمپنیوں اور فیکٹریوں میں ہونے والے حادثات سے محفوظ رکھنے کیلئے آئین ہند نے ملازمت کی یہ حد مقرر کی ہے۔ اس کے بعدایک ہندوستانی اپنے ملک میں ۵۸؍ یا ۶۰؍ سال کی عمر تک کام کرسکتا ہے، پھر اسے ریٹائرمنٹ لینا ہوتا ہے۔ جو افراد عمر کی اس حد تک پہنچ جاتے ہیں وہ اپنے آپ کو ملک کی افرادی قوت سے علاحدہ کرلیتے ہیں تاہم، متعدد کمپنیاں اور ادارے ایسے ہیں جو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اُن افراد کی خدمات حاصل کرتے ہیں جو قابل، باصلاحیت اور کام کرنے کے خواہشمند ہوتے ہیں۔ ان میں بھی۲ ؍قسم کے لوگ ہوتے ہیں : ایک وہ جو پوری عمر کام کرتے ہیں ، دوسرے وہ جو مزید کچھ سال کام کرنے کے بعد سبکدوش ہوجاتے ہیں۔
 ٹریڈنگ اکنامکس کے تازہ اعدادو شمار میں واضح ہوا ہے کہ دنیا میں سبکدوشی کی سب سے زیادہ عمر (۶۷؍ سال) آسٹریلیا، ڈنمارک، یونان، آئس لینڈ اور اٹلی میں ہے۔اس کے بعد نیدرلینڈس، امریکہ پرتگال، اسپین، آئرلینڈ اور برطانیہ کا نمبر آتا ہے جہاں سبکدوشی کی عمر ۶۶؍ سال ہے۔ فہرست میں ابتدائی ۴۰؍ ممالک میں ہندوستان شامل نہیں ہے۔ ۴۰؍ ویں نمبر پر لیختینسائن ہے جہاں ریٹائرمنٹ کی عمر ۶۴؍ سال ہے۔ سبکدوشی کی عمر بڑھانے کی کئی وجوہات ہیں جن میں سب سے اہم یہ ہے کہ صحت کے شعبے میں ٹھوس اقدامات ہونے کی وجہ سے اب لوگوں کی ’لائف ایکسپیکٹنسی‘ (متوقع زندگی یا عمر) بڑھ گئی ہے، یعنی کم عمر میں اموات کا خدشہ اب کم ہوگیا ہے۔ عالمی سطح پر اوسط متوقع عمر ۷۳؍ سال ہے جبکہ ہندوستان میں ۷۰؍ سال ہے۔ حکومتوں کا خیال ہے کہ ایسے میں ۵۸؍ یا ۶۰؍ سال کی عمر میں لوگوں کو سبکدوش کرنا غیر منصفانہ ہوگا یہی وجہ ہے کہ بیشتر ممالک نے اپنے شہریوں کیلئے سبکدوشی کی عمر میں اضافہ کردیا تاکہ پنشن کی شکل میں ان کے اکاؤنٹ میں جمع ہونے والی رقم آئندہ چند برسوں کیلئے انہیں ’سپورٹ‘ کرنے میں معاون ہو۔ دوسری جانب، دنیا کے تمام ممالک نے اپنے شہریوں کو اپنے طور پر ’اَرلی ریٹائرمنٹ‘ (سبکدوشی کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی ریٹائرمنٹ) کی بھی سہولت دی ہے۔

یہ بھی پڑھئے : معاشیانہ: ملک میں بڑھتی بے روزگاری معیشت کی سست روی کی اہم وجہ ہے
 کسی بھی ملک کی معیشت میں استحکام وہاں کے شہریوں کے سبب ہی ممکن ہے۔ ملازمت کے آغاز سے لے کر سبکدوشی تک ایک شخص اپنی زندگی کا بڑا حصہ کام کرتے ہوئے گزارتا ہے۔ وہ جس شعبے میں کام کرتا ہے، اس کو استحکام بخشنے کی روزانہ کی بنیاد پر کوشش کرتا ہے۔ تجربہ حاصل کرتا ہے اور اپنی قابلیت اور صلاحیتوں کو بنیاد پر وہاں کی معیشت کو مضبوط کرتا ہے۔ اس شعبے کا ہر شخص اپنے بعد آنے والی نسل کیلئے سہولیات پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ سبکدوشی کی عمر کی طرف گامزن ہوتا ہے تو نسل نو اپنے کریئر کا آغاز کررہی ہوتی ہے، اور اسے ان پریشانیوں یا مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا جو پچھلی نسلوں نے کیا تھا۔ پھر نئی نسل کام کرتے ہوئے سبکدوشی تک پہنچتی ہے تو اگلی نسل اس شعبے میں شامل ہوتی ہے۔ کام کا یہ چکر کئی صدیوں سے چل رہا ہے۔ لوگ بدلتے ہیں ، کام کرنے کا انداز بدلتا ہے، ایجادات سے تبدیلیاں آتی ہیں ، ان کی بنیاد پر ہنر سیکھے جاتے ہیں اور لوگ افرادی قوت میں شامل ہوتے رہتے ہیں اور کام کے اس چکر سے نکلتے رہتے ہیں۔
 گزشتہ چند برسوں سے عالمی سطح پر موضوع بحث ہے کہ ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانا درست ہے یا نہیں ؟ اس موضوع پر انٹرنیٹ پر بے شمارمضامین، مباحثے اور خبریں دستیاب ہیں ۔ تاہم، ہندوستان کے پس منظر میں یہ کافی پیچیدہ ہے۔ یہ درست ہے کہ ہندوستان دنیا کی ’نوجوان آبادی‘ والا سب سے بڑا ملک ہے۔ آئندہ چند برسوں میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ملک کی افرادی قوت میں شامل ہوگی مگر گزشتہ چند برسوں میں لگنے والے پے در پے جھٹکوں کے سبب ہماری معیشت سکڑ گئی ہے۔ کاروبار شروع کرنے سے لے کر سرمایہ کاری تک، ہر مرحلہ پیچیدہ ہوگیا ہے۔ بے روزگاری کی شرح بڑھ رہی ہے۔ پڑھے لکھے نوجوان ملازمت کی تلاش میں در در بھٹک رہے ہیں مگر ان کیلئے ’مناسب‘ مواقع نہیں ہیں ۔ نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ میں بیشتر ماہرین معیشت نے خیال پیش کیا ہے کہ اگر سبکدوشی کی عمر ۵۵؍ سے ۶۰؍ سال کے درمیان مقرر کی جائے تو بے روزگاری کی شرح کم کی جاسکتی ہے۔ تاہم، افرادی قوت میں ایسے افراد شامل ہونے چاہئیں جو کام کیلئے موزوں ہوں ۔ اگر باصلاحیت افراد یا کسی مخصوص کام کے ماہر افراد، افرادی قوت کا حصہ نہیں بنیں گے تو وہ شعبہ بری طرح متاثر ہوگا جس کا براہ راست اثر ملک کی جی ڈی پی پر پڑے گا۔ خیال رہے کہ یہ باتیں امریکہ کے پس منظر میں کہی گئی ہیں ۔ تاہم، معاشی محاذ پر جب ہندوستان کی بات کی جاتی ہے تو یہاں کے صارفین اور افرادی قوت کے لحاظ سے منظر نامہ تبدیل ہوجاتا ہے۔ مگر یہ سوال اہم ہے کہ آئندہ چند برسوں میں ہماری افرادی قوت میں نوجوانوں کی شرح کتنی ہوگی؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK