ہندوستان بھر میں انتخابی سرگرمیاں زوروں پر ہیں۔ سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے پر الزام تراشیوں میں مصروف ہیں۔ ایک دوسرے کے منشوروں میں ایسے نکات تلاش کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں جن کی بنیاد پر تنازع کھڑا کر کے لوگوں کو تقسیم کیا جاسکے۔
EPAPER
Updated: April 28, 2024, 3:48 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai
ہندوستان بھر میں انتخابی سرگرمیاں زوروں پر ہیں۔ سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے پر الزام تراشیوں میں مصروف ہیں۔ ایک دوسرے کے منشوروں میں ایسے نکات تلاش کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں جن کی بنیاد پر تنازع کھڑا کر کے لوگوں کو تقسیم کیا جاسکے۔
ہندوستان بھر میں انتخابی سرگرمیاں زوروں پر ہیں۔ سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے پر الزام تراشیوں میں مصروف ہیں۔ ایک دوسرے کے منشوروں میں ایسے نکات تلاش کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں جن کی بنیاد پر تنازع کھڑا کر کے لوگوں کو تقسیم کیا جاسکے۔ مذہب، زبان اور ذات پات جیسے بنیادی عوامل، جن کی مدد سے برسہا برس سے الیکشن کا رُخ تبدیل کیا جاتا رہا ہے، آج بھی یہی اہم ہیں، اور مایوس کن حقیقت یہ ہے کہ انہی کی بنیاد پر ہار جیت کا فیصلہ ہوتا ہے۔ آزادی کے ۷۶؍ سال بعد بھی تمام ہندوستانی ایک معاشرے کے طور پر اسی جگہ کھڑے ہیں، جہاں سے چلے تھے۔ روزگار، صحت، بھوک، ناقص تغذیہ، تعلیم، میڈیا کی آزادی اور معاشیات جیسے کئی عوامل ایسے ہیں جن کی بنیاد پر الیکشن لڑا اور جیتا جانا چاہئے مگر سوال یہی ہے کہ ہندوستان میں یہ عوامل ’بنیادی‘ کب بنیں گے؟ عوام کو ٹھوس حقائق اور اعدادوشمار کی بنیاد پر یہ دیکھنا چاہئے کہ موجودہ حکومت نے جب اقتدارسنبھالا تھا تو ملک کے حالات کیا تھے اور اب کیا ہیں۔ کسی بھی حکومت کی کامیابی کا اندازہ اُن عوامل کی مدد سے لگانا چاہئے جو ہم ہندوستانیوں کیلئے اب تک ’’بنیادی‘‘ نہیں بن سکے ہیں۔
۲۰۱۴ء میں وزیر اعظم مودی کی قیادت میں جب این ڈی اے اقتدار میں آئی تھی تو گلوبل ہنگر انڈیکس (بھوک ختم کرنے کا محاذ) پر ہندوستان ۵۵؍ ویں نمبر پر تھا۔ اب جبکہ ہم تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشتوں میں سے ایک ہیں اور یہاں کروڑ پتیوں کی تعداد تیزی سے بڑھتی جارہی ہے، شہری یہی سمجھتے ہیں کہ ملک سے ’بھوک‘ ختم ہوگئی ہے اور اب کوئی بھی خالی پیٹ نہیں سوتا مگر ۲۰۲۳ء کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ اس فہرست میں شامل ۱۲۵؍ ممالک میں ہم ۱۱۱؍ ویں نمبر پر ہیں۔ اس محاذ پر حکومت ناکام رہی ہے۔ کیا ہر ہندوستانی اپنی آمدنی، قوت خرید، روزگار اور معیار زندگی سے خوش ہے؟یقیناً نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ۲۰۱۴ء میں ’’ورلڈ ہیپی نیس انڈیکس‘‘ میں ہم ۱۱۷؍ ویں نمبر پر تھے۔ مہنگائی اور بے روزگاری سے چھٹکارا دلانے کے وعدے کے ساتھ اقتدار میں آنے والی بی جے پی کا فریضہ تھا کہ وہ اپنے وعدے پوری کرتی مگر ایسا نہیں ہوا۔ ۱۰؍ سال اقتدار میں رہنے کے باوجود وہ ہندوستانیوں کو خوش نہیں رکھ سکی اور ۱۴۳؍ ممالک کی فہرست میں پھسل کر ہم ۱۲۶؍ ویں نمبر پر پہنچ گئے ہیں۔ اس محاذ پر حکومت ناکام رہی ہے۔
کیا ہر ہندوستانی کو معیاری اور کافی مقدار میں اناج یا کھانے پینے کی اشیاء دستیاب ہے؟ برسر اقتدار کا ایک وعدہ یہ بھی تھا کہ وہ مہنگائی کم کرکے کھانے پینے کی اشیاء کی رسائی ہر طبقے، خاص طور پر غریبوں، تک آسان بنائے گی۔ مگر ہندوستانی حکومت آج بھی آبادی کے ہر حصے کو کم قیمتوں میں اناج پہنچانے میں کامیاب نہیں ہوئی ہے۔ ۲۰۱۴ء میں فوڈ سیکوریٹی انڈیکس پر درج ۷۶؍ ممالک کی فہرست میں ہم ۵۶؍ ویں نمبر پر تھے اور ۲۰۲۳ء میں ۱۲۵؍ ممالک کی فہرست میں ۱۱۱؍ ویں نمبر پر ہیں۔ اس محاذ پر حکومت ناکام رہی ہے۔
طویل، صحتمند اور معیاری زندگی کی پیمائش بھی ممکن ہے۔ اسے ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس کا نام دیا گیا ہے۔ ۲۰۱۴ء میں ۱۸۸؍ ممالک کی فہرست میں ہندوستان ۱۳۰؍ ویں نمبر پر تھا۔ ۲۰۲۳ء میں ۱۹۳؍ ممالک کی فہرست میں پھسل کر ہم ۱۳۴؍ویں نمبر پر آگئے۔ اس محاذ پر حکومت ناکام رہی ہے۔
کیا ہندوستان میں بے گھر افراد کا مسئلہ ختم ہوگیا ہے؟ اس ضمن میں ہندوستان میں ۲۰۱۱ء کے بعد سےسروے ہی نہیں کیا گیا ہے۔ بزنس اسٹینڈرڈ کی ایک رپورٹ کہتی ہے کہ ۲۰۱۱ء میں ملک بھر میں ۱۷؍ لاکھ ۷۰؍ ہزار بے گھر افراد تھے۔ سب سے زیادہ بے گھر افراد کی ۵۲؍ ممالک کی فہرست میں ہندوستان ۸؍ ویں نمبر پر تھا۔ اگرچہ اس ضمن میں سروے نہیں کیا گیا ہے مگر ۲۰۲۱ء میں جاری ہونے والی متعدد رپورٹوں میں یہ واضح ہوچکا ہے کہ کووڈ کے بعد ۲۳۰؍ ملین ہندوستانی خط افلاس سے نیچے چلے گئے ہیں۔ ان میں بے گھر ہونے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔ یہی نہیں بلکہ امیری اور غریبی کا خلاء بھی بڑھ رہا ہے۔ اس محاذ پر حکومت ناکام رہی ہے۔
ہندوستانی معیشت کا حجم بڑھ رہا ہے اور مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) ۷ء۲؍ فیصد سے بڑھ رہی ہے۔ تاہم، ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت نے اس کی پیمائش کے پیمانے تبدیل کردیئے ہیں۔ اگر ۲۰۱۴ء سے قبل کے پیمانوں سے تشخیص کی جائے تو ہماری جی ڈی پی کی شرح اب بھی ۴؍ سے ۵ء۵؍ فیصد کے درمیان ہے۔ یہ اعدادوشمار ظاہر کررہے ہیں کہ ہندوستان مضبوط ہورہا ہے لیکن مختلف معاشی اشاریوں پر ہم کمزور ہوتے جارہے ہیں۔ گزشتہ ۱۰؍ سال میں جعلی خبریں جس قدر عام ہوئی ہیں، یا، ہورہی ہیں، شہری صحیح اور غلط میں فرق کرنے سے قاصر ہوگئے ہیں۔ سرکاری، غیر سرکاری اور عالمی اداروں کی جانب سے ہندوستانی معیشت پر اتنی رپورٹیں اور اعدادوشمار ہیں کہ اب عام شخص کیلئے یہ جاننا مشکل ہوگیا ہے کہ وہ کون سی رپورٹ پر بھروسہ کرے۔ چونکہ انتخابات کا وقت ہے اس لئے ہر ووٹر کا فرض ہے کہ وہ معاشی، طبی، تعلیمی اور معیاری زندگی جیسے پہلوؤں پر حکومت کی کامیابیوں کا مد نظر رکھتے ہوئے اپنے حق کا استعمال کرے۔