• Tue, 19 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

معاشیانہ: ’’ایوری اِسکن اِز بیوٹی فل‘‘ کے نعرے کے درمیان مستحکم ہوتا ’’فیئرنیس کریم‘‘ مارکیٹ!

Updated: April 21, 2024, 3:20 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

ہندوستان کا کاسمیٹکس بازار ہر سال ۳ء۲؍ فیصد کی ترقی کررہا ہے۔ ۲۰۲۳ء میں اس کی مالیت ۸ء۱؍ بلین ڈالر تھی جو ۲۰۳۲ء تک ۱۸ء۴؍ بلین ڈالر ہوجائے گی۔ اس بازار میں سب سے بڑا شیئر (۲۵؍ فیصد) فیئرنیس کریمس (جلد گورا کرنے والی کریم) کا ہے۔

Even though the market of fairness creams is stabilizing, consumers are also becoming aware of their disadvantages. Photo: INN
فیئرنیس کریم کا مارکیٹ بھلے ہی مستحکم ہورہا ہو، مگر صارفین ان کے نقصانات کے متعلق بیدار بھی ہورہے ہیں۔ تصویر : آئی این این

ہندوستان کا کاسمیٹکس بازار ہر سال ۳ء۲؍ فیصد کی ترقی کررہا ہے۔ ۲۰۲۳ء میں اس کی مالیت ۸ء۱؍ بلین ڈالر تھی جو ۲۰۳۲ء تک ۱۸ء۴؍ بلین ڈالر ہوجائے گی۔ اس بازار میں سب سے بڑا شیئر (۲۵؍ فیصد) فیئرنیس کریمس (جلد گورا کرنے والی کریم) کا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ۲۰۲۳ء میں فیئرنیس کریم کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا، جب اس کا منافع ۳؍ فیصد تک گھٹ گیا۔ نیلسن آئی کیو کی حالیہ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ فیئرنیس کریم کا مارکیٹ اب آہستہ آہستہ سکڑتا جارہا ہے، جس کی کئی وجوہات بیان کی گئی ہیں۔ 
 برصغیر، خاص طور پر ہندوستان اور پاکستان میں گوری جلد کوہمیشہ ہی سے خوبصورتی کا معیار قرار دیا جاتا رہا ہے۔ لڑکیاں ہوں، یا، لڑکے، سبھی گوری جلد چاہتے ہیں اور اس ضمن میں بازار میں دستیاب اعلیٰ سے اعلیٰ معیار کی کریم کے استعمال کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کریموں کا فائدہ نظر بھی آتا ہے۔ جلد کی رنگت نکھرتی ہے مگر انہیں استعمال کرنے والا جلد اور صحت کے دیگر مسائل کا شکار ہوجاتا ہے۔ اسٹیٹسٹا کی رپورٹ میں شائع ہوا ہے کہ ۲۰۱۶ء میں دنیا بھر میں سب سے زیادہ فیئرنیس کریمیں فروخت ہوئی تھیں۔ اس وقت سوشل میڈیا ترقی کررہا تھا، اور صارفین انتہائی سفید جلد والے انفلوئنسرز کو دیکھتے ہوئے ان کی طرح بننے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ غور کریں تو احساس ہوگا کہ سوشل میڈیا کی آمد سے قبل بازار میں فیئرنیس کریم کے زیادہ متبادل بھی نہیں تھے۔ ایچ یو ایل کی ’’فیئر اینڈ لولی‘‘ کے علاوہ چند ہی کریمیں تھیں جنہیں صارف اپنی جلد کی قسم کی مناسبت سے استعمال کرتے تھے۔ اب بھی فیئرنیس کریم کے بازار میں سب سے بڑا شیئر (۵۳؍ فیصد) اسی کریم کا ہے۔ صارف اسے فیئرنیس کے بجائے ایک ایسے کریم کے طور پر استعمال کرنے لگے ہیں جو چہرے کو نکھارنے کیلئے کسی بھی وقت لگائی جاسکتی ہے۔ 
 چند برسوں پہلے سوشل میڈیا پر فیئرنیس کریمس کے خلاف باقاعدہ مہم چلائی گئی اور ہندوستان یونی لیور لمیٹڈ (ایچ یو ایل) کو قانونی جنگ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ نتیجتاً اس نے اپنی کریم کا نام ’’گلو اینڈ لولی‘‘ کردیا۔ آج ہندوستانی بازار میں جتنی بھی فیئرنیس کریم دستیاب ہیں، ان میں سے ’’فیئر‘‘ اور ’’فیئرنیس‘‘ جیسے الفاظ نکال دیئے گئے ہیں بلکہ ان کی جگہ ’’اسکن لائٹننگ‘‘ جیسے الفاظ استعمال ہونے لگے ہیں۔ یہ کریمیں بھی وہی کام کرتی ہیں جو فیئرنیس کریمیں کرتی ہیں، صرف ’’اصطلاح‘‘ بدل دی گئی ہے۔ صارفین میں گوری رنگت پانے کا جنون اب بھی ہے لیکن حالیہ رپورٹوں میں انکشاف ہوا ہے کہ ایسے صارفین کی تعداد زیادہ ہے جو نکھری جلد کے بجائے صاف جلد (کیل مہاسوں اور داغ دھبوں سے پاک) چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب بیشتر کمپنیاں گوری رنگت کے بجائے نکھری اور صاف جلد کی تشہیر کرتی نظر آتی ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے: معاشیانہ: پروٹین پاؤڈر صنعت طبی اعتبار سے ماہرین میں اب بھی موضوعِ بحث!

ان کمپنیوں کے صارفین میں بڑی تعداد ملینیئلس اور جین زی کی ہے جن کے نزدیک فیئرنیس، خوبصورتی کا معیار نہیں رہ گیا ہے۔ ان کا سلوگن ہے ’’ ایوری اسکن از بیوٹی فل‘‘ (ہر جلد خوبصورت ہے) البتہ ان کے نزدیک جلد کا صاف ہونا زیادہ اہمیت اختیار کرگیا ہے اس لئے ایسی کریمس اور لوشنز کی تعداد بڑھتی جارہی ہے جو متذکرہ خصوصیات کے حامل ہیں۔ چونکہ فیئرنیس کریم کے صحت پر مضر اثرات کی متعدد تحقیقات مسلسل جاری ہورہی ہیں اس لئے لوگ انہیں استعمال کرنے سے کترا رہے ہیں۔ 
 کڈنی انٹرنیشنل کی حال ہی میں شائع ہوئی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ فیئرنیس کریم کا زیادہ استعمال گردے کی بیماریوں میں مبتلا کرسکتا ہے۔ اس میں موجود مرکیوری کے ذرات گردے کے فلٹر خراب کردیتے ہیں جس سے گردوں میں پروٹین نہیں ٹھہرتا۔ جسم سے پروٹین کے انخلاء کے سبب انسان لاغر ہوجاتا ہے اور اس کے مسلز کمزور ہونے لگتے ہیں، یہی نہیں مسلز ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ فیئرنیس کریموں میں مرکیوری بہت زیادہ مقدار میں شامل کی جاتی ہے۔ کیمیائی عمل سے گزارنے کے بعد یہ جلد صاف کرنے والا ایک عنصر بن جاتا ہے۔ جب انسان جلد پر فیئرنیس کریم لگاتا ہے تو مرکیوری جلد میں جذب ہوتی ہے اور نسوں کی مدد سے گردوں تک پہنچتی ہے اور اس کے فلٹرز کو نقصان پہنچاتی ہے۔ 
 ستم ظریفی یہ ہے کہ صارفین یہ جاننے کے باوجود فیئرنیس کریم استعمال کرتے ہیں۔ انہیں یہ خدشہ ہوتا ہے کہ اگر وہ کریم استعمال کرنا بند کردیں گے تو ان کی جلد پہلے سے زیادہ خراب یا گہرے رنگت کی ہوجائے گی، مگر وہ یہ نہیں سوچتے کہ فیئرنیس کریم انہیں بیمار کررہی ہے۔ فیئرنیس کریم کا مارکیٹ بھلے ہی مستحکم ہورہا ہو، مگر صارفین ان کے نقصانات کے متعلق بیدار ہورہے ہیں۔ اہم سوال یہ ہے کہ ’’ایوری اسکن از بیوٹی فل‘‘ کا نعرہ کتنے عرصے تک صارفین کے ذہنوں میں رہے گا؟ اگر گوری رنگت خوبصورتی کا معیار مقرر کی گئی ہے تو بلاشبہ فیئرنیس کریم کا مارکیٹ ہر گزرتے سال کے ساتھ مضبوط ہوتا رہے گا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK