• Mon, 18 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

معاشیانہ: ملینیئلس تاریخ کی امیر ترین نسل مگر حقیقت کچھ اور ہے

Updated: March 10, 2024, 3:42 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

ماہرین کے مطابق آج سے ۲۰؍ سال بعد کا منظر نامہ بالکل مختلف ہوگا۔ لوگوں کے جینے، کمانے اور خرچ کرنے کے انداز بدل چکے ہوں گے۔ ٹیکنالوجی کا انقلاب اپنے عروج پر ہوگا اور اُس وقت عالمی معیشت کا حجم کئی گنا بڑھ چکا ہوگا۔

According to a study, approximately 91 trillion dollars have been transferred between millennials in the last few years. Photo: INN
ایک تحقیق کے مطابق گزشتہ چند برسوں میں ملینیئلس کے درمیان کم و بیش ۹۱؍ کھرب ڈالر کی منتقلی ہوئی ہے۔ تصویر : آئی این این

دورِ حاضر ملینیئلس (۱۹۸۱ء تا ۱۹۹۶ء) اور جنریشن زی (۱۹۹۷ء تا ۲۰۱۲ء) کا ہے۔ ان سے پہلے کی نسلیں یعنی بے بی بومرس (۱۹۴۶ء تا ۱۹۶۴ء) اور جنریشن ایکس (۱۹۶۵ء تا ۱۹۸۰ء ) نے انہیں مختلف محاذوں پر مضبوط سپورٹ فراہم کیا (اور اب بھی کررہے ہیں ) جبکہ یہ نسلیں ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے اپنی زندگی منفرد انداز میں جینے کی کوشش کررہی ہیں۔ گزشتہ چند برسوں پہلے دنیا کی آبادی کو متذکرہ ۴؍ حصوں میں تقسیم کیا گیا، یعنی پیدائش کے برسوں کی درجہ بندی کرکے آبادی کو بانٹ دیا گیا۔ اس زمرے کی پانچویں نسل ’جنریشن الفا‘ کہلاتی ہے جس میں ۲۰۱۳ء اور اس کے بعد پیدا ہونے والے افراد شامل ہیں۔ 
 زبان و ادب، دفتری کام کاج، ملازمت کی اقسام، ذاتی آمدنی، ٹیکنا لوجی، سوشل میڈیا، فیشن، لگژری لائف اسٹائل، انٹرنیٹ کے ذریعے بے شمار مشمولات تک آسان رسائی، تعلیم حاصل کرنے کے بے شمار مواقع، قلیل اور طویل مدتی کورسیز، غرضیکہ ہر شعبۂ حیات میں ملینیئلس اور جنریشن زی نہ صرف تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں بلکہ مختلف اہم عہدوں پر فائز بھی ہو رہے ہیں۔ یہ دونوں نسلیں ایسی ہیں جنہوں نے ٹیکنالوجی سے پہلے کا دور دیکھا ہے، اب اس دور میں جی رہے ہیں اور ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے اپنے لئے راہیں ہموار کررہے ہیں۔ آج ملازمت کی نوعیت اور دفتری اصول بھی تبدیل ہوچکے ہیں۔ ۹؍ سے ۵؍ کی ملازمت برقرار ہے مگر فری لانسنگ، پارٹ ٹائم جاب اور دفتری اوقات میں نمایاں تبدیلی آگئی ہے۔ آسان زبان میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ملازمت کی نوعیت ’فلیگزیبل‘ ہوچکی ہے۔ یہی نہیں بلکہ دفتر میں اب خالص ’فارمل‘ ڈریس کوڈ نہیں رہ گیا ہے۔ ملازمین اپنی پسند کے ملبوسات زیب تن کرسکتے ہیں۔ 
 دی گارجین کی ایک رپورٹ میں شائع ہوا ہے کہ برطانیہ کے ہوٹلوں، ریستوراں اور ایٹریز میں پکوانوں اور مشروبات پر سب سے زیادہ خرچ ملینیئلس کررہے ہیں۔ آئندہ ۲۰؍ برسوں تک مختلف شعبوں پر ملینیئلس کی حکومت ہوگی، اس کے بعد یہ جنریشن زی اور جنریشن الفا کی ملکیت بن جائیں گے۔ جس ماحول میں آج بے بی بومرس اور جنریشن ایکس ہیں، وہی ماحول (معمولی تبدیلیوں کے ساتھ) ملینیئلس کا مقدر بن جائے گا۔ جس طرح دنیا میں علاقائی سطح پر ’دولت کی منتقلی‘ ہورہی ہے، ٹھیک اسی طرح دولت کی منتقلی نسلوں کے درمیان بھی ہورہی ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے:معاشیانہ: صارفین کے بڑھتے اخراجات کیا وجہ آمدنی میں اضافہ ہے؟

امریکہ میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق گزشتہ چند برسوں میں ملینیئلس کے درمیان کم و بیش ۹۱؍ کھرب ڈالر کی منتقلی ہوئی ہے۔ یہ وہ دولت ہے جو انہیں اپنی گزشتہ نسلوں سے ملی ہے۔ اس طرح ملینیئلس تاریخ کی امیر ترین نسل ہیں۔ اسی تحقیق میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ ملینیئلس پُر امید ہے کہ امسال ان کی دولت میں ۷۵؍ فیصد اضافہ ہوگا۔ ۲۰۲۴ء میں بے بی بومرس کی دولت میں ۵۳؍ فیصد، جنریشن ایکس میں ۵۶؍ فیصد اور جنریشن زی میں ۶۹؍ فیصدکا اضافہ ہوگا۔ اس لحاظ سے ملینیئلس اور جنریشن زی، یہ ۲؍ نسلیں ایسی ہیں جن کی دولت میں سب سے زیادہ اضافہ متوقع ہے۔ 
 دلچسپ بات یہ ہے کہ بے بی بومرس اور جنریشن ایکس کے مقابلے میں ملینیئلس اور جنریشن زی کی بچت کافی کم ہے۔ آخری الذکر دو نسلیں امیر ضرور ہیں مگر بچت کے نام پر ان کا بینک بیلنس مستحکم نہیں ہے جس کی کئی وجوہات ہیں۔ اہم وجہ مہنگائی ہے مگر دوسری تشویشناک وجہ ’’اپنا موازنہ اپنے سے بہتر‘‘ سے ہے۔ سوشل میڈیا نے ملینیئلس اور جنریشن زی کے درمیان ایک ایسا مقابلہ پیدا کردیا ہے کہ وہ اپنے سے بہتر شخص کی زندگی دیکھ کر اس کی تقلید کرنےمیں اپنا بینک بیلنس مستحکم کرنے سے پہلے ہی کمزور کررہے ہیں۔ تاہم، ان میں ایک اچھی بات یہ بھی ہے کہ وہ مستقبل کے تئیں زیادہ فکر مند نہیں ہیں بلکہ ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے مختلف طریقوں سے اپنی آمدنی بڑھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ 
 ملینیئلس اور جنریشن زی کو اس بات کا بھی اطمینان ہے کہ گزشتہ نسلوں نے ان کیلئے کافی کچھ جمع کر رکھا ہے (خاص طور پر پراپرٹی کی شکل میں ) جو آج نہیں تو کل انہی کی وراثت ہے۔ ایسے ملینیئلس اور جنریشن زی کی تعداد کم ہے جو ذاتی طور پر اپنا ’ایمپائر‘ بنانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ برطانیہ میں کی گئی تحقیق میں واضح ہوا ہے کہ یہ دونوں نسلیں اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر پیسے ضرور کمارہی ہیں مگر بنیادی اشیا جیسے روٹی، کپڑا اور مکان، حاصل کرنے کے بعد ان کی آمدنی کا ایک بڑا حصہ لگژری لائف اسٹائل (جیسے مہنگے ہوٹلوں میں کھانا پینا، سال میں دو مرتبہ طویل چھٹی کسی دوسرے ملک یا صحت افزاء مقام پر گزارنا، ویک اینڈ پر جوش و خروش کے ساتھ دوستوں اور خاندان کے ساتھ دولت اور وقت صرف کرنا، وغیرہ) پر خرچ ہورہا ہے۔ 
 آج سے ۲۰؍ سال بعد کا منظر نامہ بالکل مختلف ہوگا۔ لوگوں کے جینے، کمانے اور خرچ کرنے کے انداز بدل چکے ہوں گے۔ ٹیکنالوجی کا انقلاب اپنے عروج پر ہوگا۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ اس وقت عالمی معیشت کا حجم کئی گنا بڑھ چکا ہوگا جس میں ملینیئلس، جنریشن زی اور جنریشن الفا کا بڑا حصہ ہوگا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK