• Tue, 19 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

معاشیانہ: قومی اور بین الاقوامی معیشت میں غیر ملکی طلبہ کی حصہ داری

Updated: February 04, 2024, 3:02 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

ایک رپورٹ کے مطابق ۲۰۲۰ء میں ۶ء۳؍ ملین غیر ملکی طلبہ نے دنیا کی معیشت میں ۳۷۰؍ بلین ڈالر کا اشتراک کیا تھا۔

The education system in the United States and the United Kingdom is very stable and Indians are second in terms of studying in these two countries. Photo: INN
امریکہ اور برطانیہ میں تعلیمی نظام انتہائی مستحکم ہے اور ان دونوں ملکوں میں جاکر تعلیم حاصل کرنے کے معاملے میں ہندوستانی دوسرے نمبر پر ہیں۔ تصویر : آئی این این

کسی بھی ملک کی معیشت میں وہاں زیر تعلیم غیر ملکی طلبہ بھی حصہ دار ہوتے ہیں۔ ان کا حصہ کم ضرور ہوتا ہے مگر وہ بیک وقت دو ملک کی معیشتوں کو سہارا دے رہے ہوتے ہیں۔ پہلا وہ ملک جہاں سے ان کا تعلق ہے، دوسرا وہ ملک جہاں وہ تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ پہلے ملک سے انہیں اخراجات کی رقم ملتی ہے، دوسرے ملک (میزبان ملک) میں وہ رقم خرچ کرتے ہیں۔ بعض طلبہ ایسے ہوتے ہیں جو تعلیم حاصل کرنے کے دوران ملازمت بھی کرتے ہیں، یعنی وہ میزبان ملک میں کماتے ہیں، کمائی ہوئی کچھ رقم خرچ کیلئے اپنے پاس رکھتے ہیں اور اس کا کچھ حصہ وطن (وہاں مقیم خاندان کی کفالت کیلئے)بھیجتے ہیں۔ اس طرح سرمائے کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے۔ 
 حکومتیں جب پالیسیاں بناتی ہیں تو اس بات کا خیال رکھتی ہیں کہ ان کے تعلیمی اداروں میں غیر ملکی طلبہ بھی تعلیم حاصل کریں۔ اس کیلئے ویزا وغیرہ کے عمل میں رعایتیں بھی دی جاتی ہیں۔ اپلائی بورڈ کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ ۲۰۲۰ء میں ۶ء۳؍ ملین غیر ملکی طلبہ نے دنیا کی معیشت میں ۳۷۰؍ بلین ڈالر کا اشتراک کیا تھا۔ انہوں نے تعلیم حاصل کی، ملازتیں پیدا کیں، ایجادات کیں اور اسٹارٹ اپس قائم کئے۔ یہ عمل نہ صرف ان کے ملک بلکہ میزبان ملک کے حق میں بھی بہتر ثابت ہوا۔ 
 اپنے پختہ تعلیمی نظام اور معیاری تعلیم کیلئے امریکہ دنیا بھر میں مشہور ہے۔ یہاں طلبہ کو نہ صرف تعلیم بلکہ کریئر کا آغاز کرنے کے مواقع بھی ملتے ہیں۔ امریکہ انہیں اپنی معیشت میں شراکت داری کرنے کے ساتھ یہاں کی شہریت بھی حاصل کرنا کا موقع دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیم کے محاذ پر امریکہ سب سے مضبوط اور بڑا ملک ہے۔ اسٹیٹسٹا کی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے والے غیر ملکی طلبہ میں سب سے بڑی تعداد چینیوں کی ہے۔ ۲۰۲۲ء میں امریکہ میں ۲؍ لاکھ ۹۰؍ ہزار سے زائد چینی طلبہ زیر تعلیم تھے۔ اس کے بعد ہندوستان (ایک لاکھ ۹۹؍ ہزار ۱۸۲؍ طلبہ)، جنوبی کوریا (۴۰؍ہزار ۷۵۵)، کنیڈا (۲۷؍ہزار ۱۳) اور ویتنام (۲۰؍ ہزار ۷۱۳) کے طلبہ ہیں۔ جنوری ۲۰۲۳ء کے ڈیٹا کہتے ہیں کہ امریکہ میں غیر ملکی طلبہ کی تعداد ۱۰؍ لاکھ ۵۷؍ ہزار۸۸؍ ہے۔ اس کے بعد برطانیہ (۵؍ لاکھ ۵۱؍ ہزار ۴۹۵)، کنیڈا (۵؍ لاکھ ۳؍ ہزار ۲۷۰)، چین (۴؍ لاکھ ۹۲؍ ہزار ۱۸۵) اور آسٹریلیا (۴؍ لاکھ ۶۳؍ہزار ۶۴۳) ہیں۔ اس فہرست میں ہندوستان بہترین ۵۰؍ میں بھی شامل نہیں ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: معاشیانہ: آمدنی ٹیکس اور کارپوریٹ ٹیکس۸۴؍ فیصد ہندوستانیوں کے مالی حالات

امریکہ اور برطانیہ میں تعلیمی نظام انتہائی مستحکم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں یہاں کے ادارے مقبول ہیں اور ہر سال طلبہ کی ایک بڑی تعداد ان ممالک کا رُخ کرتی ہے۔ ان کالموں میں متعدد مرتبہ ہمارے ملک کے کمزور تعلیمی نظام کے بارے میں بتایا جاچکا ہے۔ تاہم، یہاں یہ نکتہ قابل غور ہے کہ امریکہ اور برطانیہ جاکر تعلیم حاصل کرنے کے معاملے میں ہندوستانی دوسرے نمبر پر ہیں۔ جو افراد اپنے بچوں کو بیرون ملک بھیج کر تعلیم دلوانے کی حیثیت رکھتے ہیں، وہ فوری طور پر فیصلہ کرلیتے ہیں کہ انہیں اپنے بچے کا داخلہ امریکہ یا برطانیہ کے کون سے اسکول میں کروانا ہے۔ ایسے ہندوستانی طلبہ کم ہیں جو اسکالر شپ کی بنیاد پر غیر ملکی اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں داخلہ حاصل کرتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ غیر ملکی تعلیمی اداروں میں ملک کے متمول خاندان کے بچوں کی تعداد زیادہ ہے۔ 
 اہم سوال یہ ہے کہ ہندوستان میں کتنے غیر ملکی طلبہ تعلیم حاصل کررہے ہیں ؟ دی پرنٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق ۲۰۲۱ء میں ایسے طلبہ کی تعداد ۴۸؍ ہزار ۳۵؍ تھی، جو ۲۰۲۰ء کے ۴۹؍ ہزار ۳۴۸؍ کے مقابلے میں کم ہے۔ ہندوستان میں غیر ملکی طلبہ کے متعلق اعدادوشمار غیر یقینی ہوتے ہیں۔ تاہم، یہ تعداد کبھی بھی ۵۰؍ ہزار کا ہندسہ پار نہیں کرسکی ہے۔ کسی بھی ملک کے تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ وہاں کی معیشت سے جتنا لیتے ہیں، اس کا ۱۰؍ گنا زیادہ دیتے ہیں۔ ہمارے ملک کی معیشت میں غیر ملکی طلبہ کے اشتراک کے متعلق اعدادوشمار دستیاب نہیں ہیں البتہ گزشتہ مالی سال میں امریکی معیشت کو غیر ملکی طلبہ نے ۴۰ء۱؍ بلین ڈالر دیئے تھے۔ 
 دیگر ممالک کے مقابلے ہندوستان میں تعلیم بنیادی طور پر تدریس کے روایتی ماڈل پر مبنی ہے، جو روٹ لرننگ اور نظریاتی علم پر مرکوز ہے۔ اس نظام میں طلبہ کی صلاحیتوں کا اندازہ امتحانات میں معلومات کو حفظ کرنے اور دوبارہ پیش کرنے کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ لیکن بیرون ملک تعلیمی نظام ’عملی‘ ہے۔ مختلف محاذوں پر طلبہ کی صلاحیتوں کی تشخیص کی جاتی ہے۔ 
 یہی وجہ ہے کہ ہندوستانی طلبہ کو دیگر ممالک کے تعلیمی اداروں میں داخلہ لینے کیلئے مختلف قسم کے امتحانات دینے ہوتے ہیں جن کی بنیاد پر جانچا جاتا ہے کہ طالب علم اُن کی سرحدوں میں تعلیم حاصل کرنے کا اہل ہے یا نہیں۔ یہ درست ہے کہ ہندوستان کا تعلیمی نیٹ ورک وسیع ہے لیکن یہ مستحکم نہیں ہے۔ یہ عالمی تعلیم کے معیار سے مطابقت نہیں رکھتا۔ تعلیم کو ترقی کی کلید کہا جاتا ہے لہٰذا حکومت ِ ہند کو اس شعبے میں انقلاب برپا کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ وقت طلب کام ہے لیکن یہی وقت کا تقاضا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK