ہمارے ملک میں بے روزگار گریجویٹس کی تعداد پوری دنیا میں سب سے زیادہ ہے اور یہ بہت بڑا مسئلہ ہے۔
EPAPER
Updated: December 24, 2023, 1:47 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai
ہمارے ملک میں بے روزگار گریجویٹس کی تعداد پوری دنیا میں سب سے زیادہ ہے اور یہ بہت بڑا مسئلہ ہے۔
۶۸؍سالہ دیوآنند جھا نے اپنے بیٹے للت جھا کے متعلق میڈیا کو بتایا کہ ان کا ۲۸؍ سالہ بیٹا بے روزگاری سے پریشان تھا اور وزیر اعظم نریندر مودی کو اپنے حالات سے آگاہ کرنے کیلئے دہلی گیا تھا۔ یاد رہے کہ للت جھا پر مبینہ طور پر الزام ہے کہ وہ پارلیمنٹ سیکوریٹی معاملے کا ماسٹر مائنڈ ہے اور ممکنہ طور پر دہشت گرد بھی ہے۔ للت کے والد نے یہ بھی بتایا کہ ’’ہمارا بیٹا، وزیر اعظم سے مل کر یہ کہنا چاہتا تھا کہ `ہم پڑھے لکھے مگر بے روزگار ہیں۔ ہم برہمن ہیں مگر ہمیں نوکری نہیں مل رہی ہے جبکہ دوسری ذاتوں کے لوگ تیزی سے ملازمت حاصل کررہے ہیں۔ ‘‘اس معاملے کی تحقیقات ابھی جاری ہیں۔ تاہم، یہاں معاملہ بے روزگاری کا ہے۔
ترقی پذیر ہندوستان میں بے روزگاری ایک اہم مسئلہ ہے جو ہمارے ملک کے معاشی منظر نامے کو چیلنج کرتا رہتا ہے۔ گزشتہ ۱۰؍ سال سے متنوع افرادی قوت کے ساتھ دنیاکی سب سے زیادہ آبادی والے ملک میں بے روزگاری کی شرح بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے یہاں کی ترقی پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
پیریوڈک لیبر فورس سروے کی تازہ رپورٹ کے مطابق جولائی ۲۰۲۳ء میں بے روزگاری کی شرح ۷ء۹۵؍ فیصد تھی۔ سب سے زیادہ بے روزگاری (۱۱ء۱؍ فیصد) لکش دیپ میں جبکہ سب سے کم تریپورہ (۱ء۴؍ فیصد) ہے۔ مہاراشٹر میں یہ شرح ۳ء۱؍ فیصد ہے۔ ہندوستان میں بے روزگاری کی شرح معلوم کرنے کیلئے شہری اور دیہی علاقوں کے۱۵؍ اور اس سے زائد عمر کے افراد کی ملازمت کے متعلق سروے کیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: معاشیانہ: بی سی سی آئی کی امارت اور کرکٹ شائقین کی دیوانگی
اسی رپورٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ہمارے ملک میں بے روزگار گریجویٹس کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔۱۳ء۴؍ فیصد گریجویٹس ایسے ہیں جن کے پاس ملازمتیں نہیں ہیں ۔ اسی طرح ۱۲ء۲؍ فیصد افراد ہیں جنہوں نے ڈپلوما یا سرٹیفکیٹ کورس کیا ہے مگر بے روزگار ہیں ۔ ۱۲ء۱؍ فیصد پوسٹ گریجویٹس کے پاس نوکریاں نہیں ہیں ۔یہ اعدادوشمار تشویشناک ہیں ۔ ۲۰۰۸ء سے لے کر اب تک ہندوستانی معیشت متعدد مسائل کا سامنا کرچکی ہے جن میں ۰۹۔۲۰۰۸ء کی عالمی مندی، ۲۰۱۶ء کی نوٹ بندی، ۲۰۱۷ء کی جی ایس ٹی اور ۲۰۲۰ء کی عالمی وباء قابل ذکر ہیں ۔ ہندوستان گزشتہ چند برسوں سے افراط زر میں اضافے کا سامنا بھی کررہا ہے، جس سے بے روزگاری کی موجودہ شرح بڑھ رہی ہے۔ اکتوبر ۲۰۲۳ء میں اس کے ۱۰؍ فیصد سے زائد ہونے کے خدشات ہیں ۔ خیال رہے کہ مہنگائی کی بلند شرح صارفین کی قوت خرید کم کر سکتی ہے، جس کی وجہ سے اشیا اور خدمات کی مانگ کم ہو جاتی ہے۔ اس کا کاروباروں پر برا اثر پڑتا ہے، نتیجتاً لاگت میں کمی اور ملازمتیں منجمد کرنے جیسے واقعات رونما ہوتے ہیں ، اور یہ تمام چیزیں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ کرتی ہیں۔
بے روزگاری کی بلند شرح اخراجات، ترقی اور ملازمت کے مواقع کو متاثر کرکے ہندوستانی معیشت کو متاثر کرتی ہے۔ یہ اقتصادی ترقی میں رکاوٹ ہے اور سماجی بدامنی کا باعث بن سکتی ہے، جبکہ بے روزگاری کی کم شرح، ترقی اور بڑھتی ہوئی معیشت کی نشاندہی کرتی ہے۔ پالیسی ساز اور ماہرین معیشت اسے ملازمت کی تخلیق اور معاشی ترقی کیلئے حکمت عملیوں سے آگاہ کرنے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔
یہ سچائی ہے کہ ہمارے ملک میں انٹرپرینیورس کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ یہاں انٹرپرینیور شپ کے اچھے مواقع ہیں۔ چونکہ پڑھے لکھے نوجوانوں کو ملازمتیں نہیں مل رہی ہیں اس لئے ان میں سے چند اپنا کاروبار شروع کرنے کی ہمت کرتے ہیں۔ ان میں سے کم ہی ایسے ہوتے ہیں جن کا کاروبار چل پڑتا ہے۔ دیگر تمام انتہائی چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ان کے نزدیک کچھ نہ کرنے سے بہتر کچھ کرنا ہوتا ہے، پھر وہ بہت چھوٹا ہی کیوں نہ ہو۔ ہندوستان کے میٹرو شہروں میں آپ کو ایسے بے شمار گریجویٹس اور انڈر گریجویٹس ملیں گے جو ’’بلیو کالر جابس‘‘ کرنے پر مجبور ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام کامیابی سے گریجویٹس اور پوسٹ گریجویٹس پیدا کررہا ہے مگر سرکاری پالیسیاں اور کارپوریٹ سیکٹر ان کیلئے ملازمتیں پیدا کرنے میں ناکام ہورہے ہیں۔ حالات نازک ہیں مگر ان ٹھوس مسائل کی طرف کوئی توجہ نہیں دینا چاہتا۔