’ٹراویل اینڈ ٹورزم‘ ، ان ۲؍ صنعتوںکا شمار ملک کی بڑی اور اہم انڈسٹریز میں ہوتا ہے، ہماری جی ڈی پی میں یہ صنعتیں ۱۷۸؍ بلین ڈالر کا اشتراک کرتی ہیں۔
EPAPER
Updated: October 14, 2024, 3:52 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai
’ٹراویل اینڈ ٹورزم‘ ، ان ۲؍ صنعتوںکا شمار ملک کی بڑی اور اہم انڈسٹریز میں ہوتا ہے، ہماری جی ڈی پی میں یہ صنعتیں ۱۷۸؍ بلین ڈالر کا اشتراک کرتی ہیں۔
شہر کی تیز رفتار اور گہما گہمی والی زندگی سے کچھ دنوں کی راحت کیلئے لوگ صحت افزاء مقامات کا رُخ کرتے ہیں، یا، چھٹیاں لے کر کسی دوسرے شہر سیاحت کی غرض سے جاتے ہیں۔ ’’ٹراویل اینڈ ٹورزم‘‘، ان ۲؍ صنعتوں کا شمار ملک کی بڑی اور اہم انڈسٹریز میں ہوتا ہے۔ ہماری جی ڈی پی میں یہ صنعتیں ۱۷۸؍ بلین ڈالر کا اشتراک کرتی ہیں۔ اس سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ ہندوستانی چھوٹے یا بڑے پیمانے پر سیر وتفریح کو ترجیح دیتے ہیں، مثلاً چھٹیوں میں اپنے وطن چلے جانا، کسی ہل اسٹیشن کا دورہ، ملک کے بڑے شہروں کی سیاحت، وغیرہ۔ شہریوں کی ان سرگرمیوں سے ملک میں نقد کا بہاؤ بڑھتا اور منتقل ہوتا رہتا ہے، جس شہر میں زیادہ سیاح جاتے ہیں، وہاں نقدی کا بہاؤ بھی بڑھ جاتا ہے۔ اس کا فائدہ معیشت کے ساتھ مقامی افراد کو بھی ہوتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو بلا واسطہ یا بالواسطہ سیاحت کے شعبے سے جڑے رہتے ہیں۔ یہ تمام عوامل کسی نہ کسی طرح جی ڈی پی میں شراکت داری کرکے اسے استحکام بخشتے رہتے ہیں۔
کسی شہر کے مختلف مقامات کی سیر کی غرض ہی سے سفر کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ مہابلیشور جاتے ہیں تو وہاں کے مختلف پوائنٹس، باغات اور مقامات کا دورہ کرتے ہیں۔ لیکن گزشتہ چند مہینوں سے عالمی سطح پر ’’سلیپ ٹورزم‘‘ (Sleep Tourism) کا رجحان فروغ پارہا ہے۔ اس کا مفہوم ہے ’’سیاحت برائے آرام۔ ‘‘ سلیپ ٹورزم، میں ایک شخص سیاحت کی غرض سے کسی مقام کا دورہ ضرور کرتا ہے، مگر وہاں پہنچنے کے بعد وہ گھومتا پھرتا نہیں بلکہ آرام کو ترجیح دیتا ہے۔ وہ سارا وقت ریزارٹ یا ہوٹل میں گزارتا ہے، یا، چہل قدمی کیلئے کچھ وقت کیلئے باہر نکلتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:معاشیانہ: دنیا میں جاری جنگوں اور تنازعات کا عالمی معیشت پر اثر
سیاحت کے شعبے میں ’سلیپ فوکسڈ ہالیڈیز‘ (Sleep Focused Holidays)کو اب فوقیت دی جارہی ہے۔ متعدد ٹراویل کمپنیاں اب رابطہ کرنے پر پہلا سوال یہی پوچھتی ہیں کہ آپ کون کون سے پوائنٹس دیکھنا چاہتے ہیں ؟ یا سارا وقت اپنے ریزارٹ ہی میں گزارنا چاہتے ہیں ؟ ۳؍ ستارہ اور ۵؍ ستارہ ہوٹلوں میں اب باقاعدہ ایسے پروگرام منعقد کئے جاتے ہیں جو گاہکوں کو ذہنی آرام پہنچانے کیلئے بنائے گئے ہیں، مثلاً ’ساؤنڈ ہیلنگ‘، ’ہاٹ واٹر سلیپ‘، ’اسٹیم جکوزی‘، ’ہاٹ واٹر جکوزی‘، ’یوگا‘، ’پاور یوگا‘، ’پاور نیپ پروگرام‘، ’میوزک تھیراپی‘ اور’ پیس لائٹس‘ وغیرہ۔ یہ پروگرام عام طور پر ریزارٹ کے بڑے اسٹوڈیوز یا باغات میں منعقد کئے جاتے ہیں جن میں بیک وقت کئی افراد شریک ہوسکتے ہیں۔
ملازمت کے بدلتے منظرناموں نے اب ریزارٹ اور ہوٹلوں کو صرف ’مہمان نوازی‘ تک محدود نہیں رکھا ہے بلکہ انہیں اب ایک خاص مقصد ذہن میں رکھنا ہوتا ہے، یعنی مہمانوں کی میزبانی کے ساتھ ذہنی سکون کیلئے بھی سہولیات فراہم کی جائیں۔ وہ کمروں کے میٹرس سے لے کر دیوار اور آرائشی اشیاء کے رنگوں تک کا خیال رکھتے ہیں تاکہ ان کے گاہک کو بہترین تجربہ حاصل ہو، اور وہ آرام سے اپنی نیند پوری کرسکیں۔
’سلیپ ٹورزم‘ کا ٹرینڈ اس لئے بڑھ رہا ہے کہ کووڈ ۱۹؍ کے بعد عالمی سطح پر لوگوں میں ’آرام اور نیند کی کمی‘ دیکھی گئی ہے۔ ۹؍ سے ۵؍ ملازمت، زہرآلود فتری ماحول، کام کا بڑھتا بوجھ، مہنگائی، کمزور ہوتی معیشت اور کارپوریٹ سیکٹر پر دباؤ جیسے درجنوں عوامل کے سبب لوگ بے آرام ہوگئے ہیں۔ سوشل میڈیا اور اسمارٹ فون کے بڑھتے استعمال کے سبب لوگوں کو بے خوابی کی شکایت ہورہی ہے۔ گزشتہ ۵؍ سال میں صحت کا ’ہیلنگ سیکشن‘ (شفایابی کا شعبہ) تیزی سے وسیع ہوا ہے۔ ذہنی سکون کیلئے لوگ تھیراپسٹ کا رُخ کرتے ہیں یا پھر سفر کرتے ہیں۔ سیاحت کیلئے جاتے تو ہیں مگر ’سلیپ ٹورزم‘ کرکے لوٹ آتے ہیں۔ چند دنوں کا سلیپ ٹورزم انہیں ذہنی طور پر سکون بخشنے میں کامیاب ثابت ہوتا ہے۔
فورچیون ویل کے حالیہ سروے میں انکشاف ہوا ہے کہ۹۴؍ فیصد سیاح سفر کے دوران ذہنی سکون اور آرام کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ بھیڑ بھاڑ والے مقامات پر جانے سے بچتے ہیں اور ایسے ریستوراں میں نہیں جاتے جہاں بہت سے لوگ بیک وقت موجود ہوں۔ اب لوگوں کے نزدیک سیاحت، گھومنے پھرنے کیلئے نہیں بلکہ ذہنی اور جسمانی سکون بن گئی ہے۔ کیرالا، ہماچل پردیش، لیہہ، لداخ، گوا، میسور، کورگ، دھرم شالا اور رشی کیش میں درجنوں ایسے ہوٹل اور ریزارٹ بنائے گئے ہیں جو بطور خاص ’سلیپ ٹورزم‘ کیلئے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ سیاحت کے بدلتے رجحان کا فائدہ مہنگے ہوٹلوں کو ہورہا ہے جبکہ دوسری جانب کم کرائے میں دستیاب ہوٹلوں ، ٹور گائیڈ اور مقامی افراد کی زندگیوں پر اس کے منفی اثرات قائم ہورہے ہیں۔ غریب اور متوسط طبقہ کے سیاح اوسط درجے کے ہوٹلوں تک ہی پہنچ رہے ہیں۔ ان میں ’سلیپ ٹورزم‘ کا رجحان بہت معمولی ہے جبکہ متمول طبقہ’سلیپ ٹورزم‘ پر بڑی رقم خرچ کررہا ہے۔