عالمی بینک کے اعداد وشمار کہتے ہیں کہ ۱۹۹۳ء کے بعد سے امیر ممالک کی آمدنی اور معیشت کا حجم تیزی سے بڑھ رہا ہے جبکہ غریب ممالک کی معیشت آہستہ آہستہ مستحکم ہورہی ہے اور یہاں کی لوگوں کی آمدنی دن بہ دن کم ہوتی جارہی ہے۔
EPAPER
Updated: June 02, 2024, 4:16 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai
عالمی بینک کے اعداد وشمار کہتے ہیں کہ ۱۹۹۳ء کے بعد سے امیر ممالک کی آمدنی اور معیشت کا حجم تیزی سے بڑھ رہا ہے جبکہ غریب ممالک کی معیشت آہستہ آہستہ مستحکم ہورہی ہے اور یہاں کی لوگوں کی آمدنی دن بہ دن کم ہوتی جارہی ہے۔
عالمی بینک نے دنیا کے تمام ۱۹۵؍ ممالک کو آمدنی کے لحاظ سے ۴؍ زمروں میں تقسیم کیا ہے:(۱) وہ ممالک جہاں کے افراد کی آمدنی بہت زیادہ ہے، انہیں ’’ہائی انکم‘‘ کہا جاتا ہے۔ (۲) وہ ممالک جہاں کی آمدنی اوسط سے تھوڑا زیادہ ہے، انہیں ’’اَپر مڈل انکم‘‘ کہا جاتا ہے۔ (۳) وہ ممالک جہاں کی آمدنی اوسط سے کم ہے، انہیں ’’لوور مڈل انکم‘‘ کہا جاتا ہے۔ (۴) وہ ممالک جہاں کی آمدنی کم ہے، انہیں ’’لوور انکم‘‘ کہا جاتا ہے۔ عالمی بینک کی اس تقسیم میں ہندوستان اب بھی تیسرے زمرے میں آتا ہے، یعنی ’’لوور مڈل انکم‘‘ ممالک کی فہرست میں۔ ہمارے ملک میں فی کس آمدنی اب بھی بہت کم ہے، یہی وجہ ہے کہ ہندوستان دنیا کی چوتھی بڑی معیشت بننے کے باوجود امیر ممالک کی فہرست میں شامل نہیں ہے۔
عالمی بینک کے اعداد وشمار کہتے ہیں کہ ۱۹۹۳ء کے بعد سے امیر ممالک کی آمدنی اور معیشت کا حجم تیزی سے بڑھ رہا ہے جبکہ غریب ممالک کی معیشت آہستہ آہستہ مستحکم ہورہی ہے اور یہاں کی لوگوں کی آمدنی دن بہ دن کم ہوتی جارہی ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں جن میں سب سے اہم یہ ہے کہ امیر ممالک کی صنعتیں اپنا کاروبار بڑھانے کیلئے غریب اور متوسط آمدنی والے ممالک کا رُخ کررہی ہیں، وہاں کی افرادی قوت کی خدمات کم تنخواہوں پر حاصل کررہی ہیں اور اپنا بینک بیلنس بڑھا رہی ہیں جبکہ مقامی کمپنیاں اتنی مستحکم نہیں ہیں کہ وہ اِن کا مقابلہ کرسکیں۔ چونکہ مقامی کمپنیوں کے وسائل محدود ہوتے ہیں اس لئے وہ مقامی افراد کو بڑے پیمانے پر ملازمتیں بھی نہیں دے سکتیں، ان حالات میں امیر ممالک کی کمپنیوں کیلئے راستے کھل جاتے ہیں جو اپنے وسیع ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے غریب ممالک میں اپنے قدم جمالیتی ہیں، اور ملکی وسائل کا استعمال اپنے طور پر کرتی ہیں۔ نتیجتاً، امیر ملک کی معیشت مستحکم ہوتی ہے جبکہ غریب اور متوسط ممالک کی معیشت کے مضبوط ہونے کی رفتار سست پڑجاتی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: معاشیانہ: فلمی صنعت میں مصنوعی ذہانت؛ کیا فنکار ختم ہوجائیں گے؟
گزشتہ دنوں چیف اقتصادی مشیر وی اننت ناگیشورن نے کہا کہ ’’ہندوستان کو ’’لوور مڈل انکم‘‘ سے ’’اَپر مڈل انکم‘‘ کے زمرے میں لانے کیلئے معاشی محاذ پر بڑے پیمانے پر اصلاحات کے نفاذ کی ضرورت ہے۔ ہندوستان کو چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ ‘‘ خیال رہے کہ آئندہ چند برسوں میں ہندوستان دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بن جائے گا، لیکن اگر ہمارے مقامی کاروبار کو استحکام اور تحفظ نہیں بخشا گیا تو بڑی کمپنیاں ملک کی معیشت پر حاوی رہیں گی اور شہریوں کی آمدنی ’’لوور مڈل‘‘ ہی رہے گی۔ اننت ناگیشورن نے یہ بھی کہا کہ ’’ہمیں پیداوار، زمین، لیبر مارکیٹ، اور زمین کے استعمال کی کارکردگی کے عوامل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہمارے نظام میں ایسے قواعد و ضوابط ہیں جو قومی اور ذیلی سطحوں پر ہمارے چھوٹے کاروبار کو روکنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان قواعد و ضوابط کی موجودگی میں ہم اپنے وسائل کا درست طریقے سے استعمال نہیں کرپارہے ہیں۔ ‘‘
ہر وہ ہندوستانی جو کاروباری ہے یا کاروبار شروع کرنے کا فیصلہ کرتا ہے، اسے متعدد مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس میں اہم ترین یہ ہے کہ اسے بڑی کمپنیوں سے مقابلہ کرنا پڑتا ہے اور حکومت کی جانب سے اسے کوئی تحفظ فراہم نہیں کیا جاتا۔ متعدد ماہرین معاشیات نے اس جانب توجہ دلائی ہے کہ ہندوستان کو بزنس کے محاذ پر مزید مستحکم کرنے کی جانب پہلا قدم یہی ہے کہ حکومت چھوٹے اور متوسط درجے کے تاجروں کو تحفظ فراہم کرے کیونکہ آج یہی کاروبار ملک کی ایک بڑی آبادی کو روزگار فراہم کررہے ہیں۔ جب نیا کاروبار شروع ہوتا ہے تو نئے لوگوں کو روزگار ملتا ہے۔ کاروبار مستحکم ہونے کی صورت میں نئے ملازمین کی فی کس آمدنی بڑھتی ہے۔
آج جو ممالک ترقی یافتہ ہیں، ان کا مینو فیکچرنگ شعبہ اس قدر مستحکم ہے کہ کسی مشکل کی صورت میں اگر یہ شعبہ احتجاج کرے تو اس ملک کا پروڈکشن ٹھپ پڑ جائے گا مگر کیا ہندوستان میں چھوٹے اور متوسط درجے کے مینوفیکچررز کیلئے ایسا کرنا ممکن ہے؟ ہندوستان میں یہ شعبہ اب بھی غیر منظم ہے، اور جو پروڈکشن کمپنیاں منظم شعبے میں شامل ہیں، اُن میں اتنی طاقت نہیں ہے۔ اگر ترقی یافتہ ممالک نے اپنے اس شعبے کو طاقت نہیں بخشی ہوتی تو آج یہ ممالک امیر ہوتے نہ ترقی یافتہ۔ مگر ہندوستان میں یہ طبقہ ایسا ہے جنہیں سب سے زیادہ قواعد و ضوابط کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
سائنس اور ٹیکنالوجی نیز مصنوعی ذہانت (آرٹی فیشیل انٹیلی جنس) کے بڑھتے عمل دخل کے سبب غریب اور متوسط درجے کے ممالک کو پہلے ہی خطرہ ہے۔ ایسے میں حکومت کو چاہئے کہ وہ ان شعبوں میں ہمارے نوجوانوں کو باصلاحیت بنانے کیلئے مختلف قسم کے پروگرام کا انعقاد کرے تاکہ اس محاذ پر بھی امیر ممالک ہمارے وسائل کو اپنے مقصد کیلئے استعمال نہ کرسکیں۔ اگر ہندوستان کو ۲۰۴۷ء تک ترقی یافتہ ممالک کی صفوں میں شامل ہونا ہے تو حکومت کو معاشی محاذ پر انقلاب برپا کردینے والی اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے۔ مگر اہم سوال یہ ہے کہ کیا حکومت اس جانب توجہ دے گی؟