• Sat, 26 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

معاشیانہ: عالمی معیشت میں عالمی ثقافتی ورثہ کی شراکت داری

Updated: September 29, 2024, 5:11 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

ترقی پذیر اور غریب ممالک میں موجود عالمی ثقافتی ورثہ کو تحفظ فراہم کرکے انہیں ’تفریحی مقام‘ میں تبدیل کردیا جائے تو ۲۰۲۵ء تک ان کے ذریعے ۱۰۰؍ بلین ڈالر اکٹھا کئے جاسکتے ہیں۔

In 2022, more than 60 lakh foreign tourists came to the country, which generated an income of 16.93 billion dollars. Photo: INN
۲۰۲۲ء میں ملک میں ۶۰؍ لاکھ سے زائد غیر ملکی سیاح آئے تھے جن سے ۹۳ء۱۶؍ بلین ڈالر کی آمدنی ہوئی تھی۔ تصویر : آئی این این

جولائی ۲۰۲۴ء کے اعدادوشمار کے مطابق دنیا کے ۱۶۸؍ ممالک میں مجموعی طور پر ایک ہزار ۲۲۳؍ ایسی عمارتیں یا یادگاریں ہیں جن کا شمار عالمی ثقافتی ورثہ میں ہوتا ہے۔ ان میں سے۹۵۲؍ ثقافتی ہیں جبکہ ۲۳۱؍  ایسی ہیں جو قدرتی طور پر وجود میں آئی ہے۔ ۴۰؍ مقامات کا شمار متذکرہ دونوں زمروں (ثقافتی اور قدرتی) میں ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ (یونائٹیڈ نیشنز) کے ذیلی ادارے یونائیٹڈ نیشنز ایجوکیشنل، سائنٹفک اینڈ کلچرل آرگنائزیشن (یونیسکو) نے ورلڈ ہیریٹیج کمیٹی بنائی ہے جس نے عالمی ثقافتی ورثہ والے ممالک کو جغرافیائی اعتبار سے ۵؍ حصوں (افریقہ، خطہ عرب، ایشیاء اور پیسفیک، یورپ اورشمالی امریکہ، لاطینی امریکہ اور کیریبین) میں تقسیم کیا ہے۔ اٹلی میں سب سے زیادہ (۶۰) عالمی ثقافتی ورثے والے مقامات ہیں۔ اس کے بعد چین (۵۹) اور جرمنی (۵۴) ہیں۔ اس فہرست میں ہندوستان (۴۳) چھٹے نمبر پر ہے۔ 
 ان مقامات کو محفوظ رکھنے کیلئے بڑی رقم کی ضرورت ہوتی ہے جو ورلڈ ہیریٹیج فنڈ کی جانب سے جاری کی جاتی ہے۔ جن ممالک میں یہ مقامات ہیں، وہاں کی حکومتیں بھی اپنے طور پر ان کی حفاظت کرتی ہیں۔ اٹلی میں عالمی ثقافتی ورثہ کے سب سے زیادہ مقامات ہونے کے باوجود یہاں کی حکومت نے ان سے ہونے والی آمدنی کے کبھی اعدادوشمار جاری نہیں کئے جبکہ چین کو اس ضمن میں سالانہ ۱۴؍ بلین یوان (ڈیڑھ کھرب سے زائد روپے) کا منافع ہوتا ہے۔ حکومت ہند کے ڈیٹا کے مطابق ۲۰۲۳ء کے نصف مالی سال میں اسے ۵۶ء۸؍ کروڑ روپے کا منافع ہوا تھا جبکہ ہمارے یہاں ان مقامات کا ۸۸ء۶؍ لاکھ افرا دنے دورہ کیا تھا۔ ہمارے ملک میں ہیریٹیج ٹورزم (ثقافتی سیاحت) زیادہ مقبول ہے یعنی ان مقامات کی سیاحت جو ہماری ثقافت اور تاریخ ظاہر کرتے ہیں، مثلاً تاج محل، قطب مینار، اجنتا ایلورہ کے غار، سن ٹیمپل، مناس وائلڈ لائف سینکچوری وغیرہ۔ 

یہ بھی پڑھئے:معاشیانہ: عالمی سطح پر ہندی سنیما کے شائقین کی بڑھتی تعداد اس شعبے کو مستحکم کررہی ہے

ثقافتی شناخت اور ورثے کے تحفظ و فروغ میں ثقافتی سیاحت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس سے تعمیراتی عجائبات محفوظ رکھے جاسکتے ہیں۔ یہ اقتصادی مواقع پیدا کرتا ہے اور ثقافتی تفہیم کو بھی فروغ دیتا ہے۔ تاریخی مقامات کی نمائش کے ذریعے، ثقافتی سیاحت ماضی اور حال کے درمیان فرق کو ختم کرتی ہے، جس سے لوگوں کو اپنی جڑوں سے جڑنے اور انسانی تاریخ اور تہذیب کے بارے میں گہری سمجھ حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے۔ ثقافتی سیاحت ہندوستان کی معیشت کو مستحکم کرنے، روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور مقامی کاروباروں کی حوصلہ افزائی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ملکی اور بین الاقوامی سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرکے، ثقافتی ورثے والے مقامات کے اطراف کے علاقوں کی معیشت بھی مستحکم کرتی ہے۔ یہ ملک کے ہزاروں افراد کیلئے ذریعہ معاش بھی پیدا کرتی ہے۔ ہندوستان میں سب سے زیادہ دورہ کئے جانے والے مقامات میں تاج محل پہلے نمبر پر ہے۔ گزشتہ مالی سال میں حکومت ہند نے اس عمارت سے تقریباً ۸۲؍ کروڑ روپے کمائے تھے۔ سالانہ ۷۰؍ سے ۸۰؍ لاکھ افراد اس خوبصورت عمارت کو دیکھنے کیلئے آتے ہیں۔ اس کے بعد ہمپی (کرناٹک)، جے پور (راجستھان)، کھجوراؤ (مدھیہ پردیش) اور فتح پور سیکری (اتر پردیش) کا نمبر آتا ہے۔ 
 گلوبل ہیریٹیج فنڈ نے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ اگر ترقی پذیر اور غریب ممالک میں موجود عالمی ثقافتی ورثہ کو تحفظ فراہم کیا جائے اور انہیں باقاعدہ ایک ’تفریحی مقام‘ میں تبدیل کردیا جائے تو ۲۰۲۵ء تک ان کے ذریعے ۱۰۰؍ بلین ڈالر اکٹھا کئے جاسکتے ہیں۔ یہ وہ رقم ہوگی جو لوگ ان مقامات کو دیکھنے کیلئے ٹکٹ وغیرہ کی صورت میں خرچ کریں گے۔ اس میں وہ رقم شمار نہیں کی گئی ہے جو ہزاروں لاکھوں لوگوں کو ان مقامات کے اطراف سامان وغیرہ فروخت کرنے اور سیاحوں کو یہاں تک پہنچانے میں سیاح خرچ کریں گے۔ تاریخی مقامات اور عمارتوں کو محفوظ کرکے غریب اور ترقی پذیر ممالک کی معیشتوں کو استحکام بخشنا ممکن ہے، لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب حکومتیں اس جانب توجہ دیں اور سیاحت کے شعبے کو فروغ دینے کیلئے ٹھوس اقدامات کریں۔ 
 ۲۰۱۰ء میں یونیسکو نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ہندوستان میں اب بھی ایسے کئی مقامات ہیں جو تاریخی اور ثقافتی حیثیت کے حامل ہیں مگر حکومت ان کی طرف توجہ نہیں دے رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئندہ چند برسو ں میں یہ مکمل طور پر ختم ہوجائیں گے یا ان کے آثار مٹ جائیں گے۔ یہاں کی کئی تاریخی عمارتیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں جنہیں محفوظ کرنے کیلئے مرکزی یا ریاستی حکومتیں کچھ نہیں کررہی ہیں۔ حکومت کو اس جانب اس لئے بھی توجہ دینا چاہئے کہ ہمارا سیاحتی شعبہ ملک کی جی ڈی پی اور روزگار میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ۲۰۲۳ء میں اس شعبے نے جی ڈی پی میں ۲۳۱؍ بلین ڈالر کی شراکت داری کی تھی۔ ۲۰۳۴ء تک یہ حصہ داری ۵۲۳؍ بلین ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔ سیاحت کا شعبہ براہ راست اور بالواسطہ طور پر بڑی تعداد میں روزگار فراہم کرتا ہے۔ ۲۰۱۸ء میں اس شعبے سے ۸۱؍ ملین سے زائد لوگ وابستہ تھے۔ سیاحت سے ملک کی غیر ملکی زرمبادلہ کی کمائی میں اضافہ ہوتا ہے۔ ۲۰۲۲ء میں ملک میں ۶۰؍ لاکھ سے زائد غیر ملکی سیاح آئے تھے جن سے ۱۶ء۹۳؍ بلین ڈالر کی آمدنی ہوئی تھی۔ گزشتہ سال اسٹیٹسٹا کی رپورٹ میں انکشاف ہوا تھا کہ ہندوستان کو سیاحتی شعبے میں زیادہ تر آمدنی گھریلو سیاحوں کے سبب ہوتی ہے۔ ملک کا متوسط ​​طبقہ گھریلو سفر پر زیادہ خرچ کرتا ہے جبکہ امیر طبقہ بیرون ملک سیاحت کو ترجیح دیتا ہے۔ اب بھی ہمارے ملک میں ایسے کئی مقامات ہیں جنہیں عالمی ثقافتی ورثہ کا درجہ حاصل ہوسکتا ہے بشرطیکہ حکومت انہیں محفوظ کرے اور ان کے انفرااسٹرکچر پر توجہ دے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK