گزشتہ سال باکس آفس پر ۲؍ درجن فلموں نے ۱۰۰؍ کروڑ کا کاروبار کیا تھا، اور نومبر ۲۰۲۴ء تک کم و بیش اتنی ہی فلمیں ۱۰۰؍ کروڑ کلب میں شامل ہوچکی ہیں۔
EPAPER
Updated: November 24, 2024, 4:46 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai
گزشتہ سال باکس آفس پر ۲؍ درجن فلموں نے ۱۰۰؍ کروڑ کا کاروبار کیا تھا، اور نومبر ۲۰۲۴ء تک کم و بیش اتنی ہی فلمیں ۱۰۰؍ کروڑ کلب میں شامل ہوچکی ہیں۔
۳۰ء کے عشرے ہی سے ہندوستانی سنیما میں فلموں کا سیکویل بننے کا رواج شروع ہوگیا تھا لیکن آج کی طرح انہیں مقبولیت حاصل نہیں ہوئی تھی۔ ۲۰۱۵ء میں ایس ایس راجا مولی کی ہدایتکاری اور پربھاس کی اداکاری والی فلم ’باہوبلی‘ نے فلم شائقین میں سیکویل کیلئے جو بےچینی پیدا کی، وہ آج تک کوئی ہندی فلم نہیں کرسکی ہے۔ ’باہوبلی‘ تمل اور تیلگو زبانوں میں بنائی گئی تھی مگر سب سے زیادہ کاروبار ہندی زبان میں ڈبنگ نے کیا تھا۔ اس عرصہ میں سوشل میڈیا اور میم کا رجحان بھی زور پکڑ رہا تھا، اسی لئے میمز کے ذریعے ’باہوبلی‘ کی خوب تشہیر ہوئی اور شائقین میں اس کے سیکویل ’باہوبلی ۲‘کے متعلق جوش وخروش بڑھتا گیا۔ ۲۰۱۷ء میں جب سیکویل ریلیز ہوا تھا اس نے متعدد باکس آفس ریکارڈ توڑ دیئے۔ سیکویل کے ساتھ ہی فلم انڈسٹری میں ایک اور رجحان نے زور پکڑا، اور وہ تھا فلموں میں ’یونیورس‘ بنانے کا، جسے ہالی ووڈ کے مارول اسٹوڈیو نے ۲۰۰۸ء سے لے کر ۲۰۱۹ء تک اس خوبصورتی سے ترتیب دیا کہ اس مرحلے کی آخری فلم (اوینجرز: اینڈ گیم) دیکھنے کیلئے دنیا بھر کے شائقین بے چین ہوگئے۔ سنیما گھروں کے باہر طویل قطاریں لگیں اور بیشتر مقامات پر فلم کے شوز ۲۴؍ گھنٹے چلائے گئے۔ راجا مولی نے جہاں ہندوستانیوں کی نبض سے کھیلا تو مارول اسٹوڈیو نے عالمی سطح پر فلم شائقین کو اپنے ’مارول سنیمیٹک یونیورس‘ (ایم سی یو) کی خوبصورت دنیا میں الجھا دیا۔ ایم سی یو۲۳؍ فلموں کاسیٹ تھا جو ۲۰۰۸ء سے ۲۰۱۹ء کے درمیان ریلیز ہوئیں اور سبھی ایک دوسرے سے جڑی ہوئی تھیں۔
یہ بھی پڑھئے:معاشیانہ: ہندوستانی ایئر لائن صنعت میں ایئر انڈیا کی بڑھتی طاقت
مارول کی شاندار کامیابی کے بعد فلموں کا یونیورس بنانے کا رجحان زور پکڑنے لگا۔ جنوبی کوریائی، جاپانی، برطانوی اور ہندوستانی سنیما میں بھی اب یونیورس بننے لگے ہیں۔ بالی ووڈ کے سب سے بڑے فلم اسٹوڈیو ’یش راج فلمز‘ نے ’اسپائی یونیورس‘، فلمی صنعت کو سب سے زیادہ ۱۰۰؍ کروڑ روپے والی فلمیں دینے والے ہدایتکار روہت شیٹی نے ’کوپ یونیورس‘، اور، کم بجٹ میں سپر ہٹ فلمیں بنانے والی دنیش وجن کی پروڈکشن کمپنی میڈڈوک نے ’میڈڈوک سپرنیچرل یونیورس‘ قائم کیا۔ یش راج فلمز نے ’ایک تھا ٹائیگر‘ (۲۰۱۲ء) کے ذریعے یونیورس بنایا جس میں سلمان خان، شاہ رخ خان، رتیک روشن، کترینہ کیف اور دپیکا پڈوکون جیسے بڑے ستاروں کو شامل کیا گیا، روہت شیٹی نے ’سنگھم‘ (۲۰۱۱ء) کی مدد سے یونیورس بنایا جس میں اجے دیوگن، اکشے کمار، رنویر سنگھ، ٹائیگر شروف، کترینہ کیف، کرینہ کپور اور دپیکا پڈوکون جیسے اسٹار کاسٹ کئے گئے اور، دنیش وجن نے ’استری‘ (۲۰۱۸ء) کو یونیورس میں بدل دیا جس میں راجکمار راؤ، شردھا کپور، ورون دھون، آیوشمان کھرانہ اور رشمیکا مندانا جیسے نوجوان اداکاروں کو موقع دیا گیا۔ فی الحال ہندوستانی فلم شائقین میں ان تینوں یونیورس کے متعلق جوش وخروش ہے جبکہ ہالی ووڈ کے یونیورس، خاص طور پر ایم سی یو، اپنی کشش کھوتے جارہے ہیں۔ مگر یونیورس کے فارمولے نے ہندوستانی فلمی صنعت کے کاروبار کو خوب چمکا دیا ہے۔ ’اسپائی یونیورس‘ نے ۵؍ فلموں سے ۲؍ ہزار ۸۹۲؍ کروڑ، ’کوپ یونیورس‘ نے ۵؍ فلموں سے ایک ہزار ۳۹۶؍ کروڑ اور ’سپرنیچرل یونیورس‘ نے ۴؍ فلموں سے ایک ہزار ۲۸۸؍ کروڑ روپے کا کاروبار کیا ہے۔ ان تینوں یونیورس میں ابھی مزید فلمیں شامل ہوں گی جن سے تینوں ہی کے پروڈیوسرز خوب پیسے کمائیں گے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ہندوستانی سنیما اب ایک خاص فارمولے کے تحت فلمیں بنارہا ہے اور مزید دلچسپ یہ ہے کہ شائقین انہیں پسند بھی کررہے ہیں۔ آج کے بالی ووڈ میں بلاک بسٹر فلمیں اس ترکیب کے تحت بنائی جارہی ہیں : (۱) بیشتر فلمساز بڑی ایکشن فلمیں کئی فلموں کے ایک سیٹ کے ساتھ بنارہے ہیں یا کئی برسوں قبل ریلیز ہوئی فلموں کا سیکویل بنارہے ہیں۔ اس زمرے میں کئی فلمیں ہیں جیسے سالار، کالکی، اینیمل، جوان، غدر ۲، استری ۲، بھول بھلیاں ۲، سنگھم ریٹرنس، وغیرہ۔ (۲) اپنی فلموں میں پرانے گانوں کا ریمیک استعمال کررہے ہیں جیسے ’میں کھلاڑی تو اناڑی‘، ’جاناں سمجھو نا‘، ’ہرے کرشنا ہر ے رام‘، ’آ می جے تومار‘ وغیرہ۔ (۳) اب فلموں میں ’سچویشنل کامیڈی‘ نہیں ہوتی بلکہ کسی کامیڈین کو کاسٹ کرکے سطحی کامیڈی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ (۴)سیکویل یا ریمیک میں مرکزی اداکار کو تبدیل نہیں کیا جاتا لیکن ٹرینڈنگ اداکارہ کو کاسٹ کیا جاتا ہے، جیسے ۲۰۲۰ء میں جب کیارا اڈوانی ٹرینڈ میں تھیں تو انہیں ’بھول بھلیاں ۲‘ میں کاسٹ کیا گیا مگر گزشتہ سال جب ترپتی ڈمری ٹرینڈ کرنے لگیں تو ’بھول بھلیاں ۳‘ میں کیارا کو بدل کر ترپتی کو سائن کیا گیا۔ (۵) فلموں کا یونیورس، جس کی تازہ مثال ’سنگھم اگین‘ ہے۔
گزشتہ سال باکس آفس پر ۲؍ درجن فلموں نے ۱۰۰؍ کروڑ کا کاروبار کیا تھا، اور نومبر ۲۰۲۴ء تک کم و بیش اتنی ہی فلمیں ۱۰۰؍ کروڑ کلب میں شامل ہوچکی ہیں۔ یہ اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ فلمساز فلموں کو ہٹ کرنے کیلئے اوپر بتائے گئے ۵؍ فارمولے کامیابی سے استعمال کررہے ہیں۔ اس کا ثبوت باکس آفس نمبر اور وہ لاکھوں ناظرین ہیں جو ہر ہفتے اپنے پسندیدہ اداکار، ہدایتکار، یا، اداکارہ کی فلم دیکھنے کیلئے سنیما گھر پہنچ جاتے ہیں۔ ہندوستانی سنیما نے گزشتہ سال ملک کی جی ڈی پی میں ایک فیصد (کم و بیش ۷؍ ہزار کروڑ روپے) کا اشتراک کیا تھا۔ امسال اس کا حصہ مزید بڑھنے کا امکان ہے۔ اگر فلم شائقین میں اسی فارمولے کے تحت بنائی جانے والی فلمیں مقبول ہوتی رہیں تو آئندہ کئی برسوں تک فلم انڈسٹری پر مندی کے بادل نہیں چھائیں گے مگر اہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ رجحان طویل مدت تک باقی رہ سکے گا؟