• Thu, 19 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

معاشیانہ: معیشت کو سالانہ ۳؍ فیصد نقصان کی وجہ ناقص تغذیہ ہے

Updated: August 12, 2024, 4:17 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

۲۰۲۲ء کے اعدادوشمار کے مطابق ہندوستان کی مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی یا گراس ڈومیسٹک پروڈکٹ) ۲۴ء۳؍ لاکھ کروڑ روپے ہے۔ عالمی بینک کہتا ہے کہ ہمارے ملک کی جی ڈی پی سالانہ ۲ء۷؍ فیصد سے بڑھ رہی ہے، لیکن پیچیدہ نظر آنے والے ایک آسان مسئلے کو حل کرکے جی ڈی پی کو ۳؍ فیصد تک بڑھایا جاسکتا ہے۔

India is the second largest food producing country in the world, yet children suffer from malnutrition in large numbers. Photo: INN
ہندوستان دنیا کا دوسرا سب سے بڑا خوراک پیدا کرنے والا ملک ہے، اس کے باوجود یہاں کے بچے بڑی تعداد میں ناقص تغذیہ کا شکار ہیں۔ تصویر : آئی این این

۲۰۲۲ء کے اعدادوشمار کے مطابق ہندوستان کی مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی یا گراس ڈومیسٹک پروڈکٹ) ۲۴ء۳؍ لاکھ کروڑ روپے ہے۔ عالمی بینک کہتا ہے کہ ہمارے ملک کی جی ڈی پی سالانہ ۲ء۷؍  فیصد سے بڑھ رہی ہے، لیکن پیچیدہ نظر آنے والے ایک آسان مسئلے کو حل کرکے جی ڈی پی کو ۳؍ فیصد تک بڑھایا جاسکتا ہے۔ یہ مسئلہ ہے بچوں میں ناقص تعذیہ۔ گزشتہ ہفتے لوک سبھا میں وزیر برائے خواتین و اطفال فلاح و بہبود، اناپورنا دیوی نے ’’پوشن ٹریکر جون ۲۰۲۴ء‘‘ کے اعدادوشمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہندوستان میں ۶؍ سال یا اس سےکم عمر والے بچوں میں ۳۵؍ فیصد اسٹنٹیڈ (غیر کامل نمو والا، جس کی بالیدگی میں رکاوٹ ہو)، ۱۷؍ فیصد انڈر ویٹ (عمر کے لحاظ سے معمول سے کم وزن) اور ۵؍ سال سے کم عمر والے ۶؍ فیصد بچے انتہائی کمزور ہیں۔ یہ تمام اشارے ظاہر کرتے ہیں کہ ہندوستانی بچوں کی بڑی تعداد ناقص تغذیہ کا شکار ہے۔ 
وزیر نے اس ضمن میں تشویشناک اعدادوشمار پیش کئے۔ یوپی میں ۳۶ء۴۶؍ فیصد (سب سے زیادہ) بچے ناقص تغذیہ کا شکار ہیں۔ اس کے بعد لکش دیپ ہے جہاں ۱۳ء۴۶؍ فیصد بچے انتہائی کمزور ہیں۔ مہاراشٹر اور مدھیہ پردیش میں بالترتیب۵۹ء۴۴؍ فیصد اور ۶۱ء۴۱؍ فیصد بچوں کی نمو درست طریقے سے نہیں ہورہی ہے۔ اس فہرست میں بہار اور گجرات بھی شامل ہیں۔ مختلف قسم کی بیماریوں، غربت اور کم معلومات کے سبب ٹیکہ نہ لگوانے نیز غذائیت والی خوراک نہ ملنے کے سبب ہندوستانی بچے ناقص تغذیہ کا شکار ہیں۔ اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے کا کہنا ہے کہ بچوں میں ناقص تغذیہ کے معاملے میں ہندوستان کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے جہاں بچوں کی صحت کے متعلق ٹھوس اقدامات نہیں کئے جاتے۔ دنیا بھر میں ناقص تغذیہ کے شکار بچوں میں ایک تہائی ہندوستان میں ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے:معاشیانہ: جانور، پرندے اور حشرات، ماحولی نظام کے ساتھ معیشت کیلئے بھی اہم

اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے حکومت ہند نے اسکولوں میں ’’مڈڈے میل اسکیم‘‘ اور ’’انٹگریٹڈ چائلڈ ڈیولپمنٹ اسکیم‘‘ شروع کی۔ یہی نہیں اس ضمن میں نیشنل چلڈرنس فنڈ، نیشنل پلان آف ایکشن اور یو نائیٹڈ نیشنز انٹرنیشنل چلڈرنس ایمرجنسی فنڈ بھی قائم کئے گئے ہیں۔ نیشنل ہیلتھ مشن کے تحت ملک کے کونے کونے میں معیاری طبی سہولیات کو پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ تاہم، اس ضمن میں ہمیں خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی ہے۔ سرکاری اسپتالوں اور وہاں دستیاب طبی سہولیات سے آپ بخوبی واقف ہیں۔ 
 ہندوستان میں ناقص تغذیہ کی ایک بڑی وجہ ’معاشی عدم مساوات‘ ہے۔ ملک میں بیشتر علاقے ایسے ہیں جہاں کے لوگ اپنی کم آمدنی کے سبب معیاری اناج خریدنے اور کھانے سے محروم ہیں۔ ناقص تغذیہ کے سبب ان بچوں پر ٹی بی اور نمونیہ جیسی بیماریاں نہ صرف تیزی سے حملہ کرتی ہیں بلکہ اکثر معاملات میں جان لیوا بھی ثابت ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں میں شرح اموات اُن علاقوں سے زیادہ ہے جہاں کے باشندوں کی آمدنی اوسط اور اس سے بہتر ہے۔ ۲۰۱۸ء میں ہندوستان میں کئے جانے والے ایک سروے میں انکشاف ہوا ہے کہ ناقص تغذیہ کا شکار بچے بالغ ہونے کے بعد جب ملک کی افرادی قوت میں شامل ہوتے ہیں تو دماغی اور جسمانی کمزوریوں کے سبب انہیں اچھی ملازمت ملنے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ یہی نہیں، کمزوری کے سبب وہ ہر وقت تھکاوٹ محسوس کرتے ہیں اور اپنا کام درست طریقے سے انجام دینے سے قاصر ہوتے ہیں جس سے ان کا کام متاثر ہوتا ہے۔ نتیجتاً ملک کی پیداواری صلاحیت کم ہوجاتی ہے اور اس کا براہ راست اثر جی ڈی پی پر پڑتا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے:ونیش کی پریشانیوں کو ہم سب محسوس کرسکتے ہیں

اہم بات یہ ہے کہ ہندوستان اپنی آبادی کو کھانا کھلانے کیلئے کافی خوراک پیدا کرتا ہے، لیکن مالی مسائل اور تقسیم کے چیلنجز آبادی کے ایک بڑے حصہ تک خوراک کی رسائی روک دیتے ہیں۔ خیال رہے کہ ہندوستان دنیا کا دوسرا سب سے بڑا خوراک پیدا کرنے والا ملک ہے، جو سالانہ تقریباً ۱۰۰؍ ملین ٹن چاول پیدا کرتا ہے۔ یہ دودھ، دالوں اور مسالوں کا سب سے بڑا پروڈیوسر بھی ہے۔ تاہم، آبادی کا۳ء۲۲؍ فیصد حصہ غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے، اور یہاں کے ۱۹۰؍ ملین سے زیادہ لوگ غذائی قلت کا شکار ہیں۔ 
 بچے ناقص تغذیہ کا شکار نہ ہوں، اس ضمن میں حکومت نے ’کافی‘ اقدامات ضرور کئے ہیں مگر ان کو درست طریقے سے انجام نہیں دیا جارہا ہے، یہی وجہ ہے کہ اتنی اسکیمیں اور منصوبے بھی ’ناکافی‘ ثابت ہورہے ہیں۔ اناج کی تقسیم بڑا مسئلہ نہیں ہے البتہ اس کی رسائی ہر شہری تک آسان بنانا مشکل ہے۔ اناج کی پیداوار سے لے کر اسے صارفین تک پہنچانے میں کئی مرحلے آتے ہیں۔ اس دوران بدعنوانیاں ہوتی ہیں، غیر مستحق کو معیاری اناج فراہم کیا جاتا ہے، اور جو افراد اناج کے مستحق ہیں ان کے حصے میں غیر معیاری اناج ہی پہنچتا ہے۔ اسکولوں میں دیئے جانے والے مڈڈے میل کی حقیقت سے آپ واقف ہیں۔ اہم سوال یہ ہے کہ ناقص تغذیہ کے مسئلہ کو تھوڑی توجہ سے حل کرناممکن ہے مگر حکومت اس جانب سنجیدگی سے کب توجہ دے گی؟ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK