• Mon, 23 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

معاشیانہ: کسانوں کے مسائل کے حل کیلئے پیش رفت کب ہوگی؟

Updated: October 27, 2024, 2:30 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

ریزرو بینک آف انڈیا‘ کے حوالے سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ کسانوں کو اپنی فصل کی صرف ایک تہائی قیمت ہی ملتی ہے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

ہندوستان میں مودی حکومت کے خلاف کسانوں کے احتجاج کی پہلی لہر جون ۲۰۲۰ء میں اُس وقت شروع ہوئی تھی جب پارلیمنٹ میں تین ’زرعی بل‘ منظور کئے گئے تھے۔ بیشتر کسان تنظیموں اور اپوزیشن نے اسے ’کسان مخالف قوانین‘ کا نام دیا تھا۔ کسانوں کا کہنا تھا کہ یہ قوانین انہیں ’کارپوریٹس کے رحم و کرم‘ پر چھوڑ دیں گے کیونکہ کسان تاجر، تنازعات کو عدلیہ کے بجائے ’سب ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ‘ کے پاس لے جاتے ہیں۔ اِن مظاہروں نے ’اقل ترین امدادی قیمت‘ (ایم ایس پی) بل بنانے کا مطالبہ کیا تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ کارپوریٹ قیمتوں کو کنٹرول نہ کر سکیں۔ مرکزی حکومت کی جانب سے یقین دلانے کے بعد کسانوں نے احتجاج ختم کیا مگر جب ان کے مطالبات پورے نہیں ہوئے تو فروری ۲۰۲۴ء میں مظاہروں کی نئی لہر نے جنم لیا۔ 
 ہندوستان میں کسانوں کو مختلف پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مثلاً: ناکافی بارش، خشک سالی، سیلاب، بدلتا درجہ حرارت، سرمائے کی کمی، مارکیٹنگ، ذخیرہ کرنے کی ناکافی سہولیات، نقل و حمل، کاشتکاری کے فرسودہ طریقے، فصلوں کی پیداوار میں عدم استحکام، فصلوں کا محدود تنوع، زمین کی غیر مساوی تقسیم اور زرعی مزدوروں کیلئے ناسازگار حالات، وغیرہ۔ ایسے میں کسانوں کو ان کی فصلوں کی انتہائی کم قیمتیں ملتی ہیں۔ حکومت کی جانب سے بھی انہیں خاطر خواہ حمایت نہیں حاصل ہوتی جس کی وجہ سے بیشتر کسان اپنی فصل کم قیمت پر فروخت کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ 
 گزشتہ ہفتے ملک کے مرکزی بینک ’ریزرو بینک آف انڈیا‘ کے حوالے سے شائع ہونے والی رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ کسانوں کو اپنی فصل کی ایک تہائی قیمت ہی ملتی ہے، یعنی اگر ایک کلو ٹماٹر ۶۰؍ روپے میں فروخت ہورہا ہے تو کسان کو اس کے صرف ۲۰؍ روپے ملیں گے۔ اس کے برعکس، دودھ کے کسانوں کو ان کی پیداوار کی حتمی قیمت کا تقریباً ۷۰؍ فیصد، انڈوں کے کسانوں کو ۷۵؍ فیصد اور پولٹری اور گوشت کے تاجروں کو ۵۶؍ فیصد ملتا ہے۔ ٹماٹر کے کاشتکاروں کو صارف کی جانب سے ادا کی جانے والی قیمت کا ۳۳؍ فیصد، پیاز اور آلو کے کسانوں کو بالترتیب ۳۶؍ اور ۳۷؍ فیصد ملتا ہے۔ اسی طرح کیلے کے کسانوں کو ۳۱؍ فیصد، انگور اور آم کے کسانوں کو بالترتیب ۳۵؍ اور ۴۳؍ فیصد ملتا ہے۔ انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق دالوں میں، چنے کی دال کے صارفین جو قیمت ادا کرتے ہیں اس کا ۷۵؍ فیصد کسانوں کو ملتا ہے۔ مونگ کے کسانوں کو صارف قیمت کا ۷۰؍ فیصد اور تور کے کسانوں کو ۶۵؍ فیصد ملتا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے:معاشیانہ: سِلیٖپ ٹورزم؛ ’سیاحت برائے آرام‘ کا بڑھتا رُجحان

اعدادوشمار پر غور کریں تو احساس ہوگا کہ اناج اور دودھ کی مصنوعات کے برعکس، پھلوں اور سبزیوں کے کسانوں کو ان کی فصلوں کی کم قیمتیں ملتی ہیں جس کی وجہ ہے ان اشیاء کا جلد خراب ہونا۔ ان پر موسم اور درجہ حرارت تیزی سے اثر انداز ہوتے ہیں۔ بالفاظ دیگر ان کی ’شیلف لائف‘ چند گھنٹوں یا دنوں پر محیط ہوتی ہے۔ ذخیرہ کرنے کی ناکافی سہولیات اور سپلائی چین میں متعدد ’درمیانی افراد‘ (مڈل مین) بھی کسانوں کے منافع کو کم کردیتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے متعارف کروائے گئے ۳؍ قوانین کے متعلق ماہرین کہتے ہیں کہ ان کے ذریعے کسانوں کی معاونت نہیں ہوگی بلکہ کارپوریٹ سیکٹر کسانوں کو کم قیمتوں پر فصلیں فروخت کرنے پر مجبور کرے گا۔ علاوہ ازیں، کارپوریٹ، بازار میں فصلوں کی قیمت طے کرنے کیلئے کسانوں کو مخصوص فصل کاشت کرنے یا نہ کرنے کے بھی احکام صادر کرسکتا ہے۔ مودی حکومت کی جانب سے منظور کئے گئے اِن قوانین کے کسانوں کو فوائد کم، نقصانات زیادہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسانوں کا احتجاج تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ 
 زرعی ماہر اقتصادیات اشوک گلاٹی کے تعاون سے تصنیف کردہ مطالعات میں ’بیلنس شیٹ اپروچ‘ کی تجویز پیش کی گئی ہے جس کے مطابق اشیاء کی پیداوار کے متعلق پیشگی فراہمی اور مانگ کی بنیاد پر تجارتی پالیسیوں میں قلیل مدتی ایڈجسٹمنٹ کر کے قیمتوں کو مستحکم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اسی رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ ٹماٹر، پیاز اور آلو کی قیمتوں میں اضافے کو کم کرنے کیلئے نجی منڈیوں کو بڑھایا جائے، آن لائن نیشنل ایگریکلچر مارکیٹ کو استعمال کیا جائے اور کسان میلوں کو فروغ دیا جائے۔ دیگر تجاویز میں کولڈ اسٹوریج کی سہولیات کی تعداد میں اضافہ، شمسی توانائی سے چلنے والے اسٹوریج کو فروغ دینا اور فصلوں کی بہتر اقسام اور پولی ہاؤس فارمنگ کے ساتھ پیداواری صلاحیت کو بہتر بنانا بھی شامل ہیں۔ 
 حکومت ہند نے رواں سال کے بجٹ میں زرعی شعبے کیلئے ایک لاکھ ۳۲؍ ہزار ۴۷۰؍ کروڑ روپے مختص کئے ہیں جو بجٹ کی مجموعی رقم کا صرف ۲ء۷؍ فیصد ہے۔ یہ خطیررقم ہے مگر متذکرہ تجاویز پر عمل درآمد کرنے کیلئے ناکافی بھی نہیں ہے۔ مگر اہم سوال یہ ہے کہ کیا حکومت اس چھوٹی رقم سے ان تجاویز پر عمل کرنے کی کوشش کرے گی؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK