سب سے اہم یہ کہ فرقہ پرست طاقتیں مسلمانوں کے اتحاد تو دور، انتشار سے بھی گھبراتی ہیں۔
EPAPER
Updated: December 15, 2024, 4:38 PM IST | Arkam Noorul Hasan | Mumbai
سب سے اہم یہ کہ فرقہ پرست طاقتیں مسلمانوں کے اتحاد تو دور، انتشار سے بھی گھبراتی ہیں۔
مہاراشٹر میں انتخابات ہوگئے، نتائج آگئے، وزیر اعلیٰ کے انتخاب پر ابھی معاملہ التوا ہے، اس درمیان کئی سوالات قائم ہوئے ہیں جن میں اہم ترین سوال مسلم ووٹوں سے متعلق ہے۔ مسلم ووٹ سیکولرامیدواروں کو ملے یعنی وہ امیدوار جو مہا وکاس اگھاڑی کی پارٹیوں کی طر ف سے کھڑے تھے، ان میں سے جنہیں مسلمانوں نےجیت دلانے کاتہیہ کیا، وہ بالآخر جیتے جیسے ممبرا سے جتیندراوہاڑ جہاں ان کے مدمقابل نجیب ملا تھے۔ بائیکلہ اسمبلی حلقے سے شیو سینا (یو بی ٹی )امیدوار منوج جام سوتکر، باندرہ ایسٹ سے ورون سردیسائی جن کے مدمقابل ذیشان صدیقی تھے ۔ ایسی سیٹیں حالانکہ انگلیوں پرگنی جاسکتی ہیں لیکن ان سیٹوں پرمسلم ووٹ فیصلہ کن اور متحدہ ووٹنگ کا نمونہ ثابت ہوئے۔ اس کےعلاوہ کچھ سیٹیں ایسی بھی ہیں جہاں مسلمانوں نے اپنے نمائندہ امیدوار کو مہا وکاس اگھاڑی یا دیگر امیدواروں پر ترجیح دی ۔
مثال کے طورپر مالیگاؤں سے مجلس اتحاد المسلمین کے مفتی اسماعیل کاانتخاب کافی اہمیت کا حامل ہے جن کے مد مقابل آصف شیخ رشید امیدوار تھے۔ اورنگ آباد ایسٹ سےحالانکہ ایم آئی ایم کے امیدوار امتیاز جلیل ہار گئے لیکن انہوں نے بی جےپی کے اتل موریشورساوے کو زبر دست ٹکر دی ۔ یعنی امتیاز جلیل اورنگ آباد ایسٹ میں کچھ ایک ڈیڑھ ہزار ووٹوں کے فرق سے مسلمانوں کا نمائندہ چہرہ بنتے بنتے رہ گئے۔ کچھ سیٹیں ایسی بھی رہیں جہاں مسلمانوں کے ووٹ بری طرح تقسیم ہوئے مثال کے طور بھیونڈی مغرب کی سیٹ جہاں بی جے پی امیدوار نے بازی مارلی۔
یہ بھی پڑھئے:کیا ’بٹیں گے تو کٹیں گے‘ پربی جے پی موقف واضح کرسکتی ہے؟
یہ ایک منظر نامہ ہے جس کی بنیاد پرہم کہہ سکتے ہیں کہ کہیں مسلمانوں نے متحدہ ووٹنگ کی مثال قائم کی تو کہیں ایسا بھی ہوا کہ وہ خود اپنے ووٹوں کے انتشار کو نہیں روک سکے ۔ اسی بنیاد پریہ بھی اندازہ ہوتا ہےکہ اگر مسلمان اپنی طاقت پہچان لیں، زمینی سطح پر محنت کرنے والے مسلم لیڈران اگرتہیہ کرلیں کہ ووٹو ں کو تقسیم نہیں ہونے دینا ہے تو اس کے بہتر نتائج ہی آئیں گے ۔ ممبرا میں جتیندر اوہاڑکو مسلمانوں نے جتا دیا اور یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہےکہ اگر مسلمان وہاں نجیب ملاکے حق میں متحد ہوجاتے تو ان کی جیت یقینی تھی۔ بھیونڈی ویسٹ میں اگر مسلمان کسی ایک امیدوار کے حق میں متحد ہو جاتے، پارلیمانی انتخابات کی طرح، تو وہاں سے بی جے پی امیدوار کی جیت ناممکن تھی۔ ریاست میں ایسی بہت سی سیٹیں ہیں جہاں مسلم ووٹ فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں اورہر الیکشن میں یہ منظرنامہ اور مساوات سامنےآتی ہے۔ اس اسمبلی الیکشن میں بہت سی سیٹوں پرمعاملے اتنے پیچیدہ ہوتے چلے گئے ہیں کہ آخر وقتوں میں کہاں کیا ہوجائے، کچھ اندازہ نہیں رہا۔
بہر حال جوہونا تھا، ہوگیا اور اس دوران یہ بھی واضح ہوگیا کہ مسلم ووٹوں کا اتحاد تو اہمیت رکھتا ہی ہے لیکن اس کا انتشار بھی کم اہمیت کا حامل نہیں ۔ اس اتحادو انتشار کومسلم ووٹوں کی ہلچل کا نام دیاجاسکتا ہے جس سے کم از کم فرقہ پرست طاقتوں کو یہ پیغام ضرور ملتا ہےکہ اقلیتی رائے دہندگان جب تک اپنے حق رائے دہی کے تعلق سے بیدار ہیں ، ان کیلئےکھیل کھیلنا اتنا آسان نہیں ہے، ۲۰۲۴ء میں پارلیمنٹ میں جو مضبوط اپوزیشن بنا، وہ مسلم ووٹوں کے ہی سبب بنا۔ پارلیمانی انتخابات میں اترپردیش کی سیٹو ں پر جو نتائج رہے وہ مسلمانوں کی متحدہ ووٹنگ کےسبب ہی رہے۔ ووٹوں کے تعلق سے مسلمانوں کی یہی بیداری دیکھ کر گزشتہ دنوں وشو ووکالیگا مہا سمتھان مٹھ کے چندر شیکھر سوامی بوکھلا گئے اور یہ کہہ گئے کہ مسلمانوں سےووٹنگ کا حق چھین لینا چاہئے تاکہ دوسرے امن کے ساتھ رہ سکیں ۔ سوامی نے جب یہ بیان دیاتو ان کی نظر میں صرف مسلم ووٹ تھے، ان ووٹوں کاانتشار اوراتحادکا پہلو اُن کے ذہن میں نہیں تھا۔
یہ وہ جمہوری حق ہے جس کے تعلق سے مسلمانوں میں ان برسوں میں کافی بیداری آئی ہےاور بالخصوص خواتین ووٹرس جوش وخروش کے ساتھ گھروں سے باہر نکل رہی ہیں ۔ رائے دہی کے تعلق سےیہی جوش وجذبہ فرقہ پرست طاقتوں کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے اوراس کے توڑ کیلئے ان کے پاس بس پولرائزیشن کاہی آخری حربہ ہوتا ہے جوہر الیکشن میں آزمایا جاتا ہے۔ مسلمان اگرہر الیکشن بالخصوص اسمبلی الیکشن میں کسی ایک کواپنا نمائندہ چہرہ بنالیں اور اسکے حق میں پوری قوت لگا دیں تو اس سے نہ صرف مسلم نمائندگی کا فیصد خاطر خواہ بڑھ جائےگا بلکہ پھر کوئی طاقت مسلم ووٹوں کو تقسیم کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکے گی۔ ابھی ایسی واحد سیٹ مالیگاؤں سینٹرل کی نظر آتی ہے۔
کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ فرقہ پرست جیتنے کے ساتھ ہی مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی شروع کردیتے ہیں ۔ اس مرتبہ بھی بی جے پی کی جیت کے بعد نتیش رانے نے یہ بیان دیا تھا کہ اب آپ کو ہر جگہ ’جئے شری رام ‘ کے نعرے سنائی دیں گے۔ نتیش رانے جیسے لیڈروں کوروکنے کیلئے بھی متحدہ ووٹنگ ہی واحد ہتھیار ہے۔ اب عام انتخابات اوراسمبلی انتخابا ت پانچ سال بعد ہوں گے ۔ ان پانچ برسوں میں زمینی سطح پرکام کے آغاز کا نوجوانوں کا ایک طبقہ اگر بیڑہ اٹھائے تو ووٹنگ کے تعلق سے مسلمانوں کی اس بیداری کونتیجہ خیز رُخ پر موڑ اجاسکتا ہے۔ یہ بہت صبر آزما کام ہے لیکن وقت کی اشدضرورت ہے اورفی الحال اپنی شناخت بچانے کا یہی ہتھیار بھی ہے۔