اگر ہم نے بابائے قوم کے نظریات اور تعلیمات کو اچھی طرح سمجھا ہوتا اور اُن سے روشنی حاصل کی ہوتی تو مسائل کا اتنا اندھیرا چاروں طرف نہ ہوتا۔
EPAPER
Updated: February 03, 2025, 1:58 PM IST | sawar-u-huda | Mumbai
اگر ہم نے بابائے قوم کے نظریات اور تعلیمات کو اچھی طرح سمجھا ہوتا اور اُن سے روشنی حاصل کی ہوتی تو مسائل کا اتنا اندھیرا چاروں طرف نہ ہوتا۔
۲۰؍ جنوری کے کالم میں گاندھی جی کے خیالات پر مبنی کتاب ’’خوراک کی کمی اور کھیتی‘‘کی روشنی میں زمین، زندگی اور زمانے کو دیکھنے کی کوشش کی گئی تھی۔ جیسے جیسے اس کتاب کا مطالعہ آگے بڑھتا ہے، گاندھی جی کے خیالات روشن تر ہوتے جاتے ہیں ۔ یہ روشنی اس زمینی سچائی سے پھوٹتی ہے جس کے بغیر کوئی بھی انسانی معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا۔ گاندھی جی کے پیش نظر انگریز حکومت کی چالاکیاں بھی تھیں اور اپنے لوگوں کے مسائل بھی۔ مہاتما نے خوراک کے تعلق سے غور کرتے ہوئے انگریزوں کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ ضرور بنایا مگر وہ یہ سمجھتے تھے کہ انہی حالات میں اپنے لئے بہتری کی صورت نکالنی چاہیے۔ گاندھی جی کسی ایک علاقے اور خطے کے بارے میں غور کرتے ہوئے دوسرے علاقوں کی طرف بھی دیکھتے ہیں ، ان کی نظر دوسرے ملکوں کی طرف بھی جاتی ہے۔ اس نظر میں وہ خیال پوشیدہ ہے جس کا براہ راست تعلق مسائل سے ہے۔ دانشوری جب ڈرائنگ روم کا حصہ بن جائے یا دانشوری ڈرائنگ روم سے پہچانی جائے تو دانشور عام انسانی زندگی سے اتنا بلند ہو جاتا ہے کہ وہ کسی اور دنیا کا باشندہ معلوم ہوتا ہے۔گاندھی جی کے خیالات یہ بتاتے ہیں کہ خدمت کا جذبہ کیا ہوتا ہے اور خادم کی درد مندی کیا ہوتی ہے۔درد مندی دکھاوے اور فیشن سے کس قدر دور ہے۔ گاندھی جی نے بتایا تھا کہ سادگی دکھانے کی شے نہیں ہے اور سادہ زندگی خود دوسروں کو آواز دیتی ہے۔ ۱۹؍ جنوری ۱۹۴۲ء کو کاشی جاتے ہوئے گاندھی جی نے جو گفتگو کی ہے اس کے چند جملے ملاحظہ کیجئے:
’’غلہ کے تاجروں کو لالچ اور جتنا منافع مل سکے اتنا منافع کمانے کی خواہش کو چھوڑنا چاہیے۔ انہیں جس قدر ممکن ہو کم سے کم منافع پر اکتفا کرنا چاہیے۔ اگر ہم غریبوں کیلئے غلے کا ذخیرہ نہیں رکھیں گے، تو انہیں لوٹ پاٹ کا ڈر رہے گا۔ انہیں چاہیے کہ وہ اپنے پڑوس کے آدمیوں سے تعلق بنائے رکھیں ۔ کانگریسیوں کو چاہئے کہ وہ ان غلے کے تاجروں کے یہاں جائیں اور یہ پیغام انہیں دیں ۔‘‘
اس اقتباس کے آئینے میں ہمارے دور کا چہرہ شرمندہ ہوتا ہے۔ غلہ جمع کرنے اور زیادہ قیمت پر فروخت کرنے کی روش ختم نہیں ہوئی ہے۔گاندھی جی نے غلہ پیدا کرنے والوں کیلئے جس اخلاقیات پر زور دیا تھا، اس کی ایک تاریخی اہمیت ہے مگر بدلتے وقت کے ساتھ اس کی نئی تعبیر بھی کی جا سکتی ہے۔کسانوں کو ان کی محنت کے مطابق غلے کی قیمت نہیں مل پاتی، کبھی فصل کو اتنا نقصان ہوتا ہے کہ کسان خودکشی پر آمادہ ہو جاتے ہیں ۔ ایسی صورت میں کسانوں کو جس اخلاقیات کی ضرورت ہے، اس کا رشتہ دراصل حکومت کے طرز عمل سے ہے۔ غلے کے تاجر دراصل صرف کسان نہیں بلکہ کسانوں سے غلہ خریدنے اور انہیں جمع کرنے والے لوگ ہیں ۔ منافع کتنا کمانا چاہیے اس تعلق سے کوئی بھی گفتگو دراصل ایک اخلاقیات کو فروغ دینے کی کوشش ہی کہی جائے گی۔ منافع خوروں کی قسم اور تعداد وقت کے ساتھ کافی تبدیل ہوئی ہے لیکن ان کی فطرت میں استحصال ہے۔لہٰذا وقت چاہے جتنا بدل گیا ہو، استحصال کی ایک نہ ایک صورت اپنی موجودگی درج کراتی رہتی ہے۔ گاندھی جی کو کتنا ملال تھا کہ کچھ لوگ پیٹ بھر کھاتے ہیں اور بہتوں کو بھوکا رہنا پڑتا ہے۔ گاندھی جی نے پڑوس کے آدمیوں سے رشتہ قائم کرنے پر زور دیا تھا یعنی وہ ان سے ملتے رہیں ۔ کانگریسیوں کو بھی وہ ہدایت دی تھی کہ جو تجارت کرنے والے اور ثروتمند لوگ ہیں ان تک یہ پیغام پہنچائیں ۔ حکومت اور سیاست دراصل عام انسانی آبادی کی ترقی کے بغیر اپنا اعتبار قائم نہیں کر سکتی۔’’کانگریسیوں کو چاہیے‘‘ یہ بات گاندھی جی نے ۱۹۴۲ء میں کہی تھی لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ابھی اور آج کیلئے کہا ہو۔
گاندھی جی نے پانی کی سہولت سے فائدہ اٹھانے کیلئے بھی کئی ترکیبیں بتائی ہیں ۔کس طرح چھوٹی سی زمین میں پھل پھول اگائے جا سکتے ہیں ۔کیا وقت تھا کہ بعض سبزیوں کو گاندھی جی نے روٹی کے بدل کے طور پر دیکھا۔ یعنی اگر یہ سبزیاں مل جائیں تو پھر یہ روٹی کا مقام لے سکتی ہیں ۔ بے روزگاری رفتہ رفتہ سب سے بڑی رکاوٹ ترقی کی راہ میں بن جاتی ہے۔گاندھی جی نے بے روزگاری کو ایک ہی نظر سے دیکھا یعنی بے روزگاری اپنے ساتھ جن مسائل کو لاتی ہے ان سے معاشرہ کا ہر فرد ایک ہی طرح سے دو چار ہوتا ہے۔
گاندھی جی کے خیالات کا ایک اہم پہلو کاہلی کو دور کرنا ہے۔ کاہل انسان اپنے لیے بھی اور دوسروں کیلئے بھی بوجھ بن جاتا ہے۔ گاندھی جی نے لکھا ہے: ’’بیکاری کی وجہ سے ہی پیسے کی قلت ہے۔ بے کاری ہمیں مٹانی ہے۔ اس لیے سوت کاتنا ہی اس کا سب سے آسان ذریعہ ہے۔ مقامی ضرورتیں مزدوری کے دوسرے ذرائع بھی پیدا کر سکتی ہیں ۔ بے روزگاری نہ رہنے پائے اس کیلئے ہر طرح کا وسیلہ ڈھونڈنا ہوگا۔ صرف وہی بھوکے مریں گے جو کاہل ہیں ۔صبر کے ساتھ کام کرنے سے ایسے لوگ بھی اپنی کاہلی چھوڑ دیں گے۔‘‘
یہ بھی پڑھئے : وائس چانسلرزکے انتخاب کا نیامسودہ باعث تشویش
اقبال نے کہا تھا ’’اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے‘‘ کبھی اپنی دنیا پیدا کرنے کی کوشش میں وہ دنیا بھی متاثر ہو جاتی ہے جو اسے حاصل تھی۔ اس کی وجہ حکومت اور سیاست کی وہ روش ہے جو عام انسانی آبادی کیلئے بہت سود مند نہیں ہو پاتی۔ بے روزگاری کا بنیادی تعلق بازار سے ہے۔ گاندھی جی کے دور کا بازار آج کی طرح کا بازار نہیں تھا لیکن بازار کی خرابیاں جو منافع خوروں اور استحصالی طاقتوں کے سبب پیدا ہوتی ہیں ، وہ کسی نہ کسی طور پر ہردَور کے بازار کا حصہ رہی ہیں ۔ گاندھی جی بار بار اناج اور کپڑے کے تاجروں کو تنبیہ کرتے ہیں کہ وہ ذخیرہ اندوزی نہ کریں ۔ قیمتیں نہ بڑھائیں ۔ وہ سٹا کا لفظ بھی استعمال کرتے ہیں مگر کسی نہ کسی شکل میں سٹا بازاری آج بھی ہے۔ گاندھی جی کی ان باتوں میں وقت کا گہرا شعور ہے۔ حکومت سے مفاہمت نہیں بلکہ خاموشی کے ساتھ اپنے معاملات کو جس حد تک ممکن ہو ٹھیک کرنا چاہیے،گویا ہم جو کچھ کر سکتے ہیں وہ ہمیں ایمانداری کے ساتھ کرنا چاہیے۔