• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

اُردو کے رثائی اَدب میں مرثیہ ادبی شکوہ کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے

Updated: July 14, 2024, 1:20 PM IST | Sharib Rudaulvi | Mumbai

انیسؔ و دبیرؔ کی فکری جودت نے اسے ایسی منزل پر پہنچا دیا جس میں کسی اضافے یا تبدیلی کی گنجائش کا تصور بھی مشکل تھا لیکن اُس کے رنگ و آہنگ میں بھی تبدیلی نظر آنے لگی۔ بیسویں صدی کے اسی موڑ پر جدید مرثیے کی ابتداء ہوئی۔

In all eras, Rasa`i literature has been very popular among the people. Photo: INN
ہر دور میں رثائی ادب کو عوام میں خاصی مقبولیت حاصل رہی ہے۔ تصویر : آئی این این

عصر حاضر کا عام ادب ہو یا رثائی ادب، اس کے بارے میں گفتگو کرتے وقت دو اہم سوال سامنے آتے ہیں : اوّل، عصر حاضر اپنے ماضی سے کتنا مختلف ہے؟ دوسرے، عہد حاضر نے ادبی فکر کو کون سے نئے ابعاد دیئے ہیں ؟
 ایک تیسرا سوال بھی ہے جسے پہلے آنا چاہئے تھا کہ عصر حاضر سے ماہ و سال کا کتنا فاصلہ مراد ہے لیکن مَیں زمانے کی منطقی بحث میں نہیں الجھنا چاہتا اس لئے اُسے نظر انداز کردیا ہے۔ ان سوالات کے جواب کیلئے ہمیں پچھلی صدی کے کچھ اوراق پلٹنے ہوں گے اس لئے کہ جہاں تک رثائی ادب کا تعلق ہے، عہد حاضر گزشتہ نصف صدی کی حصولیابیوں پر ہی سربلند ہے۔ 
بیسویں صدی کا ذکر اب گزشتہ صدی کی بات لگتی ہے لیکن ماضی کے رشتوں کو سمجھے بغیر نہ تو ادب پر بامعنی گفتگو ہوسکتی ہے نہ ہی تہذیب و ثقافت پر۔ اس لئے کہ شعر و ادب ہو یا تہذیب و ثقافت انہیں توانائی ماضی سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ بیسویں صدی یوں بھی بڑی انقلاب انگیز صدی تھی، اس نے بڑے بڑے کج کلاہوں کے سروں سے تاج اتار لئے۔ اس نے ایک طرف صنعتی زندگی کے ساتھ سیاسی انتشار دیا تو دوسری طرف سرمایہ و محنت کا ایک نیا تصور دیا۔ انسان اور انسان کے درمیان حائل تنگ نظری اور سماجی نشیب و فراز کو کم کیا اور سب سے بڑی بات یہ کہ سائنسی انقلابات اور صارفی کلچر نے فکری زاویوں کو تبدیل کردیا۔ ادبی سطح پر دوسری جنگ عظیم سے لے کر صدی کے غروب ِ آفتاب تک اِس نے فکر کے کئی دھارے دیکھے جس میں ادب کا زندگی سے تعلق اور زندگی کو بہتر اور زیادہ خوبصورت بنانے کے لئے اس کا استعمال ایک انقلاب انگیز فکری موڑ تھا جس نے پورے ادبی منظرنامے کو بدل دیا۔ سیاسی اور اقتصادی سطح پر تبدیل ہوتی زندگی نے صدیوں سے چلی آرہی شعری روایت کی بساط کو اگر پلٹ نہیں دیا تو اس پر ایسے سوالیہ نشان لگا دیئے جنہوں نے وقت کی رفتار سے بے خبر شاعروں اور ادیبوں کے ذہنوں کو جھنجھوڑ دیا۔ یہاں تک کہ رثائی ادب کی روایت پر بھی اس کا اثر پڑا۔ کلاسیکیت کی گرفت اور تاریخ و عقائد کی مضبوط چہاردیواری بھی تبدیلیوں کو نہ روک سکی۔ 

یہ بھی پڑھئے: عارفانہ اور متصوفانہ اشعار کی تفہیم (۱۱)

رثائی ادب میں یوں تو نثر و نظم کی تمام اصناف شامل ہیں لیکن عام طور پر رثائی ادب کا حوالہ شعری اصناف میں مرثیہ، نوحہ، سلام، رباعی وغیرہ اور نثر میں واقعہ ٔ کربلا سے متعلق مضامین یا مجالس تک محدود ہے۔ ایسی تحریریں افسانوی نثر میں بھی مل جائیں گی جن میں تہذیبی حوالے کی شکل میں واقعہ ٔ کربلا، محرم، سوزخوانی، عَلَم، جلوس، نوحہ خوانی یا مجلس کا ذکر آگیا ہو۔ مثلاً فسانۂ آزاد سے لے کر راہی معصوم رضا، انتظار حسین اور قرۃ العین حیدر تک کے ناولوں میں یہ حوالے پھیلے ہوئے ہیں۔ اس میں عصمت چغتائی کا ناول ’ایک قطرہ خون‘ عہد حاضر کے رثائی ادب میں ایک نئے اور منفرد تجربے کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود ادبی حیثیت سے شعری اصناف ہی رثائی ادب کا وقیع حصہ ہیں۔ 
اردو کے رثائی ادب میں مرثیہ ادبی شکوہ کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے جسے انیسؔ و دبیرؔ کی فکری جودت نے ایسی منزل پر پہنچا دیا جس میں کسی اضافے یا تبدیلی کی گنجائش کا تصور بھی مشکل تھا لیکن اُس کے رنگ و آہنگ میں بھی تبدیلی نظر آنے لگی۔ بیسویں صدی کے اسی موڑ پر جدید مرثیے کی ابتداء ہوئی۔ جدید مرثیے کی ابتدائی نشوونما کی تفصیل میں جانے کا یہ موقع نہیں ہے۔ مرثیے کے ناقدین نے اسے کئی حصوں میں تقسیم کیا ہے لیکن اسے ایک نئی فکری بساط اور نئے موضو عات فراہم کرنے والوں میں جو بنیادی نام لئے جاسکتے ہیں ان میں جوش ملیح آبادی، جمیل مظہری، نجم آفندی اور رزؔ ردولوی، آل رضا سکندر مہدی، نسیم امروہوی وغیرہ ہیں۔ یوں تو غالبؔ کہہ چکے ہیں کہ :
نالہ پابند نَے نہیں ہے/ فریاد کی کوئی لَے نہیں ہے
لیکن ایک خالص روایتی اور کلاسیکی اقدار سے وابستہ صنف میں اتنی بڑی تبدیلی تعجب خیز ضرور ہے کہ وہ اپنے عہد کے انقلاب کی آواز بن جائے اور واقعہ ٔ کربلا غلامی اور جبر و استحصال کے خلاف عصری احتجاج کی علامت ہوجائے:
مجروح پھر ہے عدل و مساوات کا شعار 
اس بیسویں صدی میں ہے پھر طرفہ انتشار
پھر نائب ِ یزید ہیں دنیا کے شہریار
پھر کربلائے نو سے ہے نوعِ بشر دوچار
اے زندگی جلالِ شہِ مشرقین دے
اس تازہ کربلا کو بھی عزم حسینؓ دے
اس طرح جوشؔ ہر انتشار اور کربلائے نو کے مقابلے کے لئے اپنے اندر عزم حسینی پیدا کرنے کی بات کرتے ہیں۔ اس عہد کے ایک اور اہم شاعر جمیل مظہریؔ کی آواز جوشؔ سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ وہ پیغامِ حسینی کو فکر و ضمیر کی آزادی کا پیغام قرار دیتے ہیں چنانچہ فرماتے ہیں :
گونجتی ہے دلِ احرار میں تیری تکبیر
تیرا پیغام ہے کیا حریت ِ فکر و ضمیر
تو نے انساں کو سکھایا یہ سبق عالمگیر
غیر اللہ کو سجدہ ہے خودی کی تحقیر
شرک اک شکل اسی جذبۂ گمراہ کی ہے
بادشاہوں کی یہ دنیا نہیں، اللہ کی ہے
نجم آفندی ؔنے عصری رثائی ادب میں نوحے، رباعیات اور سلام کی وجہ سے بڑی شہرت پائی۔ ایک زمانے میں برصغیر کے طول و عرض میں کوئی ایسا عزاء خانہ نہیں ہوگا جہاں ان کے نوحے اور سلام نہ پڑھے جاتے رہے ہوں۔ نجم آفندیؔ نے مرثیے کم کہے ہیں لیکن جوشؔ اور جمیل مظہریؔ کی طرح وہ بھی مرثیے کو عصری تقاضو ں سے ہم آہنگ کرکے اپنے قارئین میں ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا کرتے ہیں۔ امام حسینؓ ان کے لئے حق پر جان دینے والے صرف ایک شہید نہیں بلکہ :
انسانیت کو جس نے سنوارا ہے وہ حسینؓ
جو حسنِ معنوی کا سہارا ہے وہ حسینؓ
جس نے دلوں میں درد ابھارا ہے وہ حسینؓ
روحِ بشر کو جس نے پکارا ہے وہ حسینؓ
آواز جس کی دُور کے انسان تک گئی
بجلی سی سامعہ کی فضا میں چمک گئی
جعفر مہدی رزمؔ کا تعلق فکری اعتبار سے اسی نسل سے ہے جس سے نجم آفندی اور جمیل مظہری تعلق رکھتے ہیں۔ یہ عہد اس لئے بھی اہم ہے کہ اس میں رثائی ادب کو بہت فروغ ہوا۔ شعراء نے اپنی انفرادیت کے لئے نئی نئی راہیں تلاش کیں۔ فکری سطح پر اس عہد کے شعراء نے جدید مرثیے کو نئی زمین اور نئے آسمان دیئے۔ رزمؔ کے مراثی میں تاریخ، تبلیغ اور فلسفیانہ مباحث پر زور ہے۔ وہ اپنے نقطۂ نظر کو ثابت کرنے کیلئے منطقی استدلال سے کام لیتے ہیں۔ کلاسیکی مرثیے کی روایت میں مرثیے شہداء سے منسوب تھے لیکن ان شعراء نے مرثیے کو اس کے موضوع کا عنوان دیا مثلاً رزمؔ کے مرثیے فلسفۂ حیات اور حسینؓ، فلسفہ ٔ حیات میں عورتوں کا درجہ، حقوق انسانی اور اسلام وغیرہ ہیں۔ رزمؔ نے بڑی خوبی کے ساتھ اپنے موضوع اور مرثیے کے مطالبات کو پورا کیا ہے۔ وہ امام حسینؓ کو ایک ’طرح ِنو‘ کا بانی قرار دیتے ہیں ‘
کیا طرحِ نو حسینؓ نے ڈالی فنا کے بعد
اک ابتدائی خاص ہوئی انتہا کے بعد
رنگِ جہاں بدل گیا خونِ وفا کے بعد
توفیق حق دلوں کو ملی کربلا کے بعد
میزان میں نظر کی بد و نیک تُل گئے
ذہنوں پر غور و فکر کے دروازے کھل گئے
آغا سکندر مہدی بھی اس عہد کے ان اہم شاعروں میں ہیں جنہوں نے اردو مرثیے کو نئے موضوعات اور اظہار سے آراستہ کیا۔ زبان و بیان یا شعری جمالیات کے لحاظ سے ان کے مرثیوں کا آہنگ اور روانی قدیم مرثیے کی یاد دلاتے ہیں لیکن اس کے ساتھ عصری حالات، نئی سائنسی ایجادات اور عام انسانی مسائل کا اپنے مرثیے میں اس بے تکلفی سے ذکر کرتے ہیں کہ وہ بھی مرثیے کے موضوع کا حصہ بن جاتا ہے:
مجلس میں ذکر ِ عظمت ِ نوع بشر ہے آج
پیش نگاہ حسن ِ طلوع سحر ہے آج
انساں کی زد میں گردشِ شمس و قمر ہے آج
تسخیر کائنات پہ سب کی نظر ہے آج
انساں پہنچ گیا ہے جو ماہِ مبین پر
رکھتا نہیں ہے فخر سے پاؤں زمین پر
جدید مرثیے میں ان تبدیلیوں کو راہ دینے والے ان چند مرثیہ نگاروں کے علاوہ اور کئی اہم نام ہیں مثلاً مصطفیٰ زیدی، نسیم امروہوی، آل رضا، راجہ صاحب محمود آباد، گوپی ناتھ امن وغیرہ جنہوں نے مرثیے میں موضوع اور اظہار و بیان کے نئے تجربات کئے۔ 
میں عرض کرچکا ہوں کہ یہ عہد رثائی ادب کے فروغ اور اس میں تنوع کا عہد تھا۔ ان جدید مرثیہ نگارو ں کے ساتھ اس کے متوازی ایک سلسلہ ان شعراء کا بھی تھا جو کلاسیکی مرثیے کی روایت سے وابستہ رہے۔ وابستگی سے مراد یہ نہیں ہے کہ ان کے یہاں کوئی نیا پن نہیں ہے بلکہ انہوں نے جمالیاتی قدروں اور اُسی ترتیب کو قائم رکھنے کی کوشش کی جو کلاسیکی مرثیے کی شان ہے۔ ان میں خیبر لکھنوی، مہذب لکھنوی، فراست زید پوری اور محسن جونپوری وغیرہ کو اہمیت حاصل ہے۔ 
مرثیے کی محدود فضا میں عصر جدید کے شعراء نے بڑی وسعت پیدا کی۔ یہی وجہ ہے کہ صدیوں کا سفر طے کرنے کے باوجود مرثیہ نہ صرف یہ کہ زندہ ہے بلکہ ہر عہد کی فکری تبدیلیوں کے ساتھ قدم بہ قدم چلتا رہا ہے۔ 
(کتاب:مرثیہ اور مرثیہ نگار میں شامل ’عصر حاضر میں رثائی ادب‘ کا ایک باب)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK