طارق صاحب مدبر صحافی اور تاریخ کے طالبعلم تھے، اسلامی تاریخ اُن کا موضوع تھا۔ وہ مسلمانوں کی نشاۃ الثانیہ کے بارے میں بہت مثبت رائے رکھتے تھے اورکہتے تھے کہ آپ اپنے حصہ کا کام کر جائیے ورنہ کل آپ سے آپ کی غفلت پر سوال ہوگا۔
EPAPER
Updated: April 21, 2024, 5:04 PM IST | Arshad Mansoor Ghazi | Mumbai
طارق صاحب مدبر صحافی اور تاریخ کے طالبعلم تھے، اسلامی تاریخ اُن کا موضوع تھا۔ وہ مسلمانوں کی نشاۃ الثانیہ کے بارے میں بہت مثبت رائے رکھتے تھے اورکہتے تھے کہ آپ اپنے حصہ کا کام کر جائیے ورنہ کل آپ سے آپ کی غفلت پر سوال ہوگا۔
کچھ لوگ اللہ کا انتخاب ہوتے ہیں ۔ انہی میں ایک ہمارے بھائی جان محمد طارق غازی تھے۔ جنھوں نے آخری سانس تک قلم سنبھالے رکھا اور آخری دنوں میں سیرۃ طیبہ پر اپنی آخری کتاب ’ذکرک‘ کو ترتیب دینے میں منہمک رہے۔ انتقال سے کچھ عرصہ قبل انھوں نے خواب دیکھا کہ اولین انصاری صحابی حضرت اسعد ابن زرارہ ؓ ان کے پاس پہنچے اور فرمایا مجھے رسول اللہ ؐ نے آپ کے پاس بھیجا ہے، آپ میرے ساتھ چلئے۔ مذکورہ سیرۃ طیبہ کتاب کا رسم اجراء رسول اللہ ؐکے ہاتھوں ہونا طے پایا ہے، اللہ اکبر۔ بقول سلمان غازی یہ کتاب اپنے متن کے اعتبار سے دیگر سیرت کی کتابوں سے مختلف ہے۔ ۱۶؍برس سے لکھی جانے والی اس کتاب میں ہر واقعہ کے بعد تاریخی پس منظر پیش کیا گیا ہے۔ اُن کے مطابق اس سے قبل سیرت پر اس انداز میں کوئی کتاب نہیں لکھی گئی۔
طارق صاحب نے بمبئی کے ہاشمیہ ہائی اسکول سے بنیادی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعدبڑے بھائی عابد اللہ غازی کی ایماء پر علی گڑھ چلے گئے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ وہ مولانا محمدمیاں منصور انصاریؒ، سرخیل تحریک شیخ الہند (تحریک ریشمی رومال) کے پوتے اور مولانا قاری محمد طیب علیہ الرحمہ مہتمم دارالعلوم دیوبند کے نواسے تھے۔ طارق صاحب کی اولین درس گاہ ان کی ادیبہ والدہ ہاجرہ نازلی کی نگاہ تھی، جو انھیں شعوری طور پرمثالی بنانے کیلئے ہمہ وقت نگرانی کرتی تھیں تاکہ وہ اپنے دیگر بہن بھائیوں کیلئے مثال بنیں مگر وہ ایک عالَم کیلئے مثال بنے۔
اپنے والد مولانا حامدالانصاری غازی، ایڈیٹر مدینہ بجنور کی طرح طارق صاحب نے اپنے لئے بھی صحافت کا میدان چنا۔ اپنے بچپن میں گھر سے نکلنے والے جمہوریت ویکلی اور ڈیلی کی پروف ریڈنگ کرتے کرتے کسی بڑے فیصلے کیلئے تیار تھے۔ ۱۹۶۷ء میں ہندوستان کے پہلے سائنسی اُردو ماہنامہ سائنس کا اجراء طارق صاحب کے ہاتھوں ہوا۔ جس کے چار شمارے منظر عام پر آئے۔ اس کے بعد بمبئی میں ابوالکلام ویکلی سے وابستہ ہوئے۔ اسی طرح روزنامہ چنار، سر ی نگر، اورعصر جدید، کلکتہ سے بحیثیت ایڈیٹر وابستگی رہی لیکن یہ باغباں تلاش سحر میں سرگرداں رہا۔ ۱۹۷۷ء میں بعد از خرابی ٔ بسیار وہ جدہ پہنچے اور وہاں کئی ماہ کی جدوجہد کے بعد انھیں منزل بالآ خر مل گئی۔ انھوں نے انگریزی صحافت کو اپنا یا اور سعودی عرب کے انگریزی روزنامہ سعودی گزٹ میں وہ بحیثیت فیچر ایڈیٹر اپنی خدمات انجام دینے لگے۔ اخبار کے برطانوی منیجنگ ایڈیٹر مسٹرٹیری نے ان کے اندر چھپے ہوئے جوہر کو پرکھا اور انھیں دیگر ذمہ داریاں تفویض کیں ۔ جلد ہی طارق صاحب نیوز ایڈیٹر بنائے گئے پھرٹیری کے رخصت ہونے کے بعد منیجنگ ایڈیٹر بنے اور ۳۰؍ برس تک اس کرسی پر براجمان رہے۔
یہ بھی پڑھئے: انتخابی نتائج سے ثابت ہوگا کہ عوام جذباتی ہیں یا باشعور!
طارق صاحب تاریخ کے طالب علم تھے، اسلامی تاریخ اُن کا خاص موضوع تھا۔ وہ دنیا کی تمام ناکام اور کامیاب تحریکات پر کچھ مختلف تنقیدی و تقریظی رائے رکھتے تھے۔ اس کا اظہار ان کے اداریوں میں ملتا ہے۔ ایک جگہ وہ لکھتے ہیں : جب کوئی تحریک ناکام ہوجائے تو بغاوت اور کامیاب ہو جائے تو انقلاب کہلاتی ہے۔ عربوں سے مخاطب ہو کر تحریر کرتے ہیں : قدرت! قوموں کے درمیان عروج و زوال کے میزان میں فرق نہیں کرتی، جو قوانین اور اصول یہود و نصاریٰ کیلئے ہیں وہی امت مسلمہ کیلئے بھی ہیں ، جو ضابطے اہل کفر کیلئے ہیں ، وہی اہل ایمان کیلئے بھی ہیں ۔ مسلمان کیسے عظیم تاریخی ورثے کے مالک رہے، جبکہ آج ان کا شیرازہ بکھرا ہوا نظر آتا ہے۔ طارق صاحب اسے خدائے لم یزل کا قانون عزل و نصب گردانتے ہیں ۔ تاہم وہ مسلمانوں کے نشاۃ الثانیہ کے بارے میں بہت مثبت رائے رکھتے تھے، کہ وہ وقت قریب ہے جب حق کا بول بالا ہوگا۔ طارق صاحب کہا کرتے تھے، جو نجات دہندہ آنے والا ہے آپ اپنے حصہ کا کام کر جائیے ورنہ کل آپ سے آپ کی غفلت پر سوال ہوگا۔
وہ پہلے ہندوستانی تھے بعد میں مسلمان ! ہندوستان سے ان کا تعلق عقیدت کا تھا۔ یہاں ہونے والی سیاسی تبدیلی سے وہ سخت مایوس تھے۔ ۴۰؍ برس قبل انھوں نے جس سیاسی عدم روا داری کے شبہ اور عدلیہ کے جانبدارانہ فیصلوں کی طرف اشارے کئے تھے وہ آج بحث کا موضوع ہیں ۔ تاہم گفتگو میں وہ فرمایا کرتے تھے کہ قوم آزمائش کیلئے تیار رہے، آزمائش جتنی بڑی ہوگی، انعام بھی اتنا ہی بڑا ہوگا۔ ہر مشکل انسانی حوصلے اور ہمت کا امتحان لیتی ہے۔ مشیت ِ الٰہی کی مصلحتوں کو سمجھنا آسان نہیں ، زمین قربانی مانگتی ہے۔ برسوں پہلے وہ لکھتے ہیں : مسلمانان ہند باغی نہیں ! انقلابی بنیں ۔ یوں کہ ملک عزیز کو ایک ایسے انقلاب کی ضرورت ہے جو خس و خاشاک کو بہا کر لے جائے۔ باغ کی صفائی کے نتیجے میں ہی نئی کونپل پھوٹا کرتی ہے۔ کوئی بھی حکومت کذب بیانی سے اپنا دورانیہ ضرور بڑھا سکتی ہے، لیکن ظلم، نا انصافی اور حق تلفی پر قدرت اپنا فیصلہ سناتی ہے۔
اِس مضمون کا مقصد ان کی زندگی کے وہ تین غیر معمولی واقعات ہیں جن کا اظہاریہاں ضروری خیال کرتاہوں۔ یہ وہ وقت ہے جب بدبخت سلمان رُشدی کی کتاب شیطانی آیات پر ایران نے اس کے خلاف قتل کا فتویٰ جاری کیا اور یوں مسلم اُمّہ کی رہنمائی کا توازن عالمی سطح پر ایران کی طرف جھک گیا۔ میں ، طارق بھائی اور ڈاکٹر عابد اللہ غازی سخت مضطرب تھے۔ فیصلہ ہوا کہ فوری طور پر نائب وزیراعظم ڈاکٹر عمر عبداللہ نصیف کے گھر چلا جائے، ( جن کے گھرسے ہمارے خاندانی دیرینہ مراسم تھے) اور اُن سے بات کی جائے کہ سعودی عرب کا سرکاری سطح پر بیان جاری ہو۔ ہم تینوں بھائی اُن کے گھر پہنچے۔ انھوں نے منطق کو سراہا مگر ملک کی سرکاری پالیسی اور بیرونی دباؤکے سبب مسئلے کو نظر اندازکرنے پر اصرار ہوا۔ ہمارے دلائل پرنصیف صاحب نے مختلف وزراء سے بات کی اور انھیں قائل کیا پھر براہ راست ملک فہد سے بات کی۔ ملک فہد ایسا بیان چاہتے تھے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ مگر ایرانی فتوے نے انھیں کہیں کا نہ چھوڑا تھا۔ طارق صاحب سخت بیان دینے پر مُصر تھے۔ آخر کار جو ڈارفٹ طارق صاحب بنا کر لے گئے تھے اسی کو سرکاری منظوری ملی اور ایک سخت بیان ملک فہد کی طرف سے ساتویں روز جاری ہوا جس سے ساری دنیا میں سعودی عرب کے بارے میں انبساط کا ایک عجیب تاثر قائم ہوا۔
طارق صاحب نے ۱۱؍برس تک آفس سے چھٹی نہیں لی۔ ۱۱؍برس بعد وہ ترکی کے سفر پر روانہ ہوئے۔ تاکہ اپنے جد حضرت ابو ایوبؓ انصاری کے مزار پر حاضری دے سکیں ۔ یہ وہ وقت ہے جب ترکی اور سعودی عرب کے مابین سفارتی تعلقات کے خاتمے کی ساٹھویں برسی منائی جا رہی ہے۔ جب وہ ترکی ائیر پورٹ پر اُترے تو سرکاری ٹیلی ویژن کے اہل کاروں نے انھیں گھیر لیا۔ ترکی کی انفارمیشن منسٹری کے سینئر نمائندوں کو مستعد پایا۔ طارق صاحب نے ان سے کہا کہ وہ نہ صرف انفارمیشن منسٹر سے ملنا چاہیں گے بلکہ ملک کے صدر کنعان ایورین سے بھی چند منٹ کی ملاقات چاہتے ہیں ۔ اگلے روز وہ قصر صدارت میں تھے۔ جہاں انھوں نے صدرترکی سے فرمایا: آج ایک ہندوستانی گمنام صحافی ایک سوال لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہے۔ انھوں نے پوچھا کیسا سوال ؟ طارق صاحب گویا ہوئے: ’’دنیا کی چشم بصیرت نے دیکھا ۱۹۱۶ء میں ایک انقلاب برپا ہوا اور ۱۹۲۲ء میں مکمل ہوا جس کے نتیجے میں وہ دنیا کے پچیس ملکوں پر قابض ہو گیا اس انقلاب کو دنیا انقلابِ روس کے نام سے جانتی ہے۔ اسی عرصے میں ۱۹۱۷ء میں ایک اور انقلاب رونما ہوتا ہے اور ۱۹۲۳ء میں پایۂ تکمیل کوپہنچتا ہے، جس کے نتیجے میں جو حکومت دنیا کے ۸۷؍ ملکوں پر اپنا تصرف رکھتی تھی، دنیا کے نقشے سے عملاً غائب ہو جاتی ہے۔ اس انقلاب کو دنیا زوالِ خلافت عثمانیہ کے نام سے یاد کرتی ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا آپ نے کبھی اس کے اسباب پر غور کیا ہے؟‘‘ کنعان ایورین سوچ میں غرق ہوگئے، تو طارق صاحب نے کہا: ’’یہ سوال آپ کو اپنی قوم سے کرنا چاہئے۔ ‘‘صدر نے سوال کیا : ’’آپ کیا چاہتے ہیں ؟ ‘‘ طارق صاحب کا جواب تھا۔ ’’حجاز سے آپ کے تعلقات کی بحالی ! ‘‘ یہ طارق صاحب کی کوشش کا نتیجہ تھا کہ ۶؍ ماہ ہوتے ہی کنعان ایورین سعودی عرب کے ۳؍ روزہ سرکاری دورے پر پہنچے اور اس درمیان کئی معاہدوں پر دستخط ہوئے اور سفارت خانے کھولنے کی منظوری دی گئی۔
کہتے ہیں قرآن کریم اتارا گیا حجاز میں ، پڑھا گیا مصر میں ، خوش خط لکھا گیا ترکی میں اور سمجھا گیا ہندوستان میں کہ سب سے زیادہ تفاسیر ہندوستان کے علماء نے تحریر کیں ۔ طارق صاحب ان جملوں کے ساتھ سعودی حکومت کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوئے کہ حرمین کی توسیع کیلئے ترکی ماہرین سب سے بہتر ہو سکتے ہیں اور اس خاموش کوشش کے نتیجے میں ۲؍ لاکھ ترک ماہرین کے ویزے جاری ہوئے اور حرمین شریفین کی توسیع و تزئین کاری اُن کے ہاتھوں عمل میں آئی۔
۱۹۹۲ء وہ سال ہے جب اسپین اپنی حکومت کی پانچ سو سالہ تاسیس کے جشن منانے کا اعلان کرتا ہے۔ اور تمام عرب حکمراں اس جشن میں شرکت کی منظوری دیتے ہیں ۔ طارق صاحب کا قلم حرکت میں آتا ہے اور وہ اندلس کی گم گشتہ تاریخ کو اپنے اداریوں میں تحریر کرتے ہیں اور عرب حکمرانوں کو تنبیہ کرتے ہیں کہ اسپین کا یہ جشن مسلمانوں کی ۷؍سو سالہ حکو مت کےخاتمے کا جشن ہے اس میں آپ کی شرکت کے کیا معنی؟ اور اس اداریہ کا شائع ہونا تھا کہ تمام عرب سربراہوں نے اپنے اپنے قبلے درست کئے اور جشن میں شرکت سے معذوری ظاہر کی۔ طارق صاحب نے لکھا: اگر مسلم سر براہوں کو کچھ کرنا ہے تو اسپین کی حکومت کو مجبور کیا جائے کہ وہ مسلمانوں پر ۵؍سو سالہ بندش کے قوانین کو ختم کرے، مسجدوں کو آبادہونے دے۔ یونیورسٹیز میں مسلم عہد کو پڑھانے پر پابندی ختم کرے۔ الحمداللہ اس پر ملک فہد نے فوری عمل درآمد کیا اور اسپین کی گرتی معیشت کو سہار دینے کیلئے اربوں ڈالر امداد کی پیشکش کی مگر اپنی شرائط پر ! اور اسپین سےمسلمانوں پر پابندی کو ختم کر دیا گیا۔ طارق صاحب نے قلم کا حق ادا کیا اور بھر پور انداز میں ۔ امریکی چیف آف اسٹاف روانی میں بول گیا کہ ہم لیبیا پر کارپٹ بمباری کرنے جا رہے ہیں ۔ یہ ٹائم میگزین کی ایک ذیلی مختصر خبر تھی۔ طارق صاحب نے اسے اپنے اخبار کی شاہ سرخی بنا کر امریکی صدر کومشکل میں ڈال دیا اور اُس کو واضح الفاظ میں اِس کی تردید کرنی پڑی اور اپنے چیف آف اسٹاف کو فور ی طورپر برخاست کرنا پڑا۔ وہ سعودی گزٹ سے جب وابستہ ہوئے تھے تو اس کی اشاعت ۱۸؍ہزار تھی لیکن جب وہ ۳۳؍برس بعد رخصت ہوئے تو اس کی اشاعت ۵؍ لاکھ سے تجاوز کر چکی تھی۔ امریکہ اور یورپ میں سعودی گزٹ نہایت معتبر اخبار سمجھا اور اس کی تحریروں کو سنجیدگی سے لیا جاتا تھا۔ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ان کی قبر کو نور سے بھر دے۔ سلیم قیصر کا یہ شعر ان پر صادق آتا ہے کہ
میں اپنے عہد کا جدّت طراز ہوں
چراغ اپنے ستارہ نما بنا رہا