• Wed, 13 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

انتخابی نتائج سے ثابت ہوگا کہ عوام جذباتی ہیں یا باشعور!

Updated: April 21, 2024, 3:54 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai

اس وقت ملک جس انتخابی مہم کے دور سے گزر رہا ہے اس میں ایک جانب جذباتی باتیں ہورہی ہیں تو دوسری جانب منطقی باتیں ہورہی ہیں۔

This election is not only a test for political parties but also for voters. Photo: INN
اس بارکا الیکشن صرف سیاسی جماعتوں کیلئے نہیں بلکہ رائے دہندگان کیلئے بھی ایک امتحان ہے۔ تصویر : آئی این این

ہندوستان کا یہ پارلیمانی الیکشن نہ صرف سیاسی، سماجی اور معاشی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے بلکہ اس الیکشن کے نتیجے سے یہ بھی ثابت ہو جائے گا کہ عوام کے نزدیک جذباتیت یا عقلیت پسندی میں ترجیح کسے حاصل ہے؟ الیکشن کے حوالے سے اس پہلو کو زیر بحث لاناکچھ لوگوں کو عجیب لگ سکتا ہے لیکن اس وقت ملک جس انتخابی مہم سے گزر رہا ہے اس میں مختلف پارٹیوں کے لیڈروں کی انتخابی تقریروں کا تجزیہ اس موضوع پر غور و فکر کرنے کا واضح جواز فراہم کرتا ہے۔ اور معاملہ صرف اس انتخابی مہم ہی کا نہیں ہے بلکہ اگر ایک دہائی کے سیاسی فرمودات اور بیانات کا جائزہ لیا جائے تو بھی یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ سیاسی لیڈروں کا ایک گروہ عوام کو صرف جذباتی باتوں میں الجھا کر اپنی سیاسی دکان چمکانے کو ترجیح دیتا ہے اور دوسری جانب ایسے سیاستداں ہیں جو ملک کے موجودہ سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل اورمستقبل میں ان کے ممکنہ نتائج پرمنطقی گفتگو کرتے ہیں۔ ملک کی سیاسی تصویر کے ان دو متضاد رنگوں میں سے اب تک فوقیت اسی رنگ کو حاصل رہی ہے جو عوام کو عارضی جذباتی موضوعات کے فریب میں الجھائے رہا اور یہ الجھاؤ اُن کے معیار زندگی کے گراف کو مسلسل نیچے کی طرف لے جاتا رہا۔ سیاست کو جذبات کی کسوٹی پر پرکھنے والے عوام اس فریب میں اس قدر الجھے رہے کہ جب اپوزیشن نے انھیں زندگی کے بنیادی مسائل کی تشویش ناک تصویر دکھائی تو دھرم کا خمار ان کی بینائی پر غالب آ گیا۔ جمہوری طرز سیاست میں الیکشن کا بنیادی مقصد عوام کو وہ معاشی اور سماجی تحفظ فراہم کرنا ہوتا ہے جو انھیں زندگی میں آگے بڑھنے کی راہ ہموار کرے۔ فرد کی خوشحالی اور سماجی تحفظ سے معاشرہ خوشحالی اور ترقی کے مراحل طے کرتا ہے اور جب کوئی سماج ان مراحل کو معیاری انداز میں عبور پر قادر ہو جاتا ہے تو ہی وہ ملک حقیقت میں وشو گرو ہونے کا دعویٰ کر سکتا ہے۔ چونکہ گزشتہ دس برسوں سے متواتر یہ کہا جارہا ہے کہ ملک وشو گرو بننے کے بہت قریب ہے لہٰذا اس ملک کے عوام کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا جائزہ ان حوالوں سے لینے کی ضرورت ہے جو کسی ملک کو وشوگرو بنانے میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ جب عوام کو درپیش موجودہ مسائل کا تجزیہ اس طور سے کیا جائے گا تو یہ تلخ سچائی واضح طور پر نمایاں ہو جائے گی کہ تعلیم، صحت اور روزگار جیسے بنیادی معاملات میں ملک نے ایک دہائی کے دوران کوئی ایسی پیش رفت نہیں کی ہے جس کی بنا پر یہ کہا جا سکے کہ عوام کے معیار زندگی میں مثبت اور خوشگوار تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ اس ضمن میں اعداد و شمار کی شکل میں جو حقائق موجود ہیں وہ اس قدر تشویش ناک ہیں جن سے یہ اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں کہ ان تین بنیادی شعبوں کی ترقی کیلئے سرکار نے کوئی نتیجہ خیز اقدام نہیں کیا۔ حکومت کے اس رویے کا ایک بڑا سبب جذباتیت کی رو میں بہہ جانے والا عوام کا وہ طبقہ رہا جو دھرم اور اس کے زائیدہ دیگر تعصبات کو زندگی کے حقیقی مسائل پر ترجیح دیتا رہا۔ 

یہ بھی پڑھئے: اقتدار پرستی میں مدہوش میڈیا اور پیشہ ورانہ اخلاقیات

اس پارلیمانی الیکشن میں عوام کا وہ طبقہ بھی بحیثیت ووٹر شراکت کرے گا جو اَب تک سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل و معاملات کا تجزیہ ان شعبوں سے وابستہ حقائق کے حوالے سے کرنے کے بجائے دھرم آمیز جذباتیت سے کرتا رہا ہے۔ خدشہ اسی بات کا ہے کہ اگر الیکشن مشین کا بٹن دباتے وقت بھی ان کا رویہ یہی رہا تو ایک بار پھر ان عناصر کو حکومت سازی کا موقع مل سکتا ہے جو ملک کی سیکولر اقدار کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ہی معیشت کو چند مخصوص کارپوریٹ گھرانوں کا دست نگر بنا دیں گے۔ یہ عناصر مذہبی بنیاد پر عوام کا جذباتی استحصال کرنے میں اس قدر ماہر ہیں کہ انھوں نے کووڈ جیسی مہلک وبا کے دور میں عوام کو تھالی و تالی پیٹنے اور روشنی کرنے پر آمادہ کر لیا۔ وبائی امراض کا مقابلہ کرنے کیلئے عوام کو معیاری طبی سہولیات فراہم کرنے کے بجائے ان کے اندر ایسے مضحکہ خیز عمل کیلئے جوش و خروش پیدا کرنے کیلئے یہ عناصر جن باتوں کا سہارا لیتے ہیں ان میں دو نکات کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ یہ عناصر جذبات کی رو میں بہہ جانے والے عقل کے اندھے لوگوں کو متواتر یہ احساس دلاتے ہیں کہ اگر اقتدار ان عناصر کے پاس رہا تو ملک میں ہر طرف ہندوتوا کا بول بالا ہوگا اور دوسرے یہ کہ اس مقصد کے حصول میں مسلمان سب سے بڑی رکاوٹ ہیں لہٰذا انھیں سماجی اور معاشی سطح پر اس قدر کمزور کر دیا جائے کہ وہ قومی دھارے میں شامل ہونے کی ہمت نہ جٹا سکیں اور محرومی و بے بسی کی زندگی بسر کرتے رہیں۔ اس سیاسی ہدف کو سر کرنے کیلئے یہ عناصر عوام کے جذبات کو برانگیختہ کرنے کیلئے وہی باتیں دہراتے ہیں جن کا ملک کی سماجی خوشحالی سے کوئی واسطہ نہیں۔ 
 دھرم آمیز سیاست کے ذریعہ حصول اقتدار کی کوشش کرنے والے سیاسی لیڈر اس پارلیمانی الیکشن میں بھی وہی حربہ استعمال کر رہے ہیں جس کے سہارے انھیں دو مرتبہ حکومت سازی کا موقع ملا۔ ان لیڈروں کی انتخابی ریلیوں میں روزگار، تعلیم، صحت اور ملک کی معاشی صورتحال پر کوئی بات نہیں ہوتی۔ انھیں شاید یہ یقین ہے کہ جس طرح سابقہ انتخابات میں جذباتی باتوں نے انھیں کامیابی دلائی تھی، اسی طرح یہ بازی بھی وہ سر کر لیں گے۔ حالانکہ اس بار ڈگر بہت کٹھن ہے اور اگر رائے دہندگان نے جذبات کی رومیں بہنے کے بجائے عقل سے کام لینے کو ترجیح دی تو ان عناصر کا یہ یقین ریزہ ریزہ بھی ہو سکتا ہے۔ اس الیکشن میں نوجوان نسل اور ایسے ووٹر جو پہلی مرتبہ پولنگ بوتھ پر جائیں گے، بہت حد تک فیصلہ کن کردار ادا کریں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنے ووٹوں کے ذریعہ ملک کی رفتار کو کس سمت لے جانے میں اپنے ووٹ کا استعمال کریں گے؟ کیا وہ ایسے نیتا کو منتخب کریں گے جو پکوڑے تلنے کو روزگار قرار دیتا ہے اور نالی کی گیس سے چائے بنانے کا مشورہ دیتا ہے؟ یا ایسے لیڈروں کو حکومت سازی کا موقع دیں گے جو انھیں سرکاری ملازمت کی گارنٹی دیتا ہے ؟جو کسانوں کیلئے ایم ایس پی کی گارنٹی دیتا ہے یا ایسے نیتا جو کسانوں کے احتجاج کو روکنے کیلئے دہلی اور اطراف کے علاقہ کو فوجی بنکر میں تبدیل کر دیتے ہیں ؟ ایسے سیاسی لیڈرکو کامیا ب بنائیں گے جو خواتین کے سماجی اور معاشی تحفظ کو یقینی بنانے کا وعدہ کرتا ہے یا ایسے عناصر کو منتخب کریں گے جو خواتین کھلاڑیوں کی کھلے عام ہتک کرتے ہیں ؟ ایسی پارٹی کے امیدوار کو کامیاب بنائیں گے جو معیاری تعلیم اور معیاری روزگار فراہمی کو ترجیح دیتی ہے یا ایسے لوگوں کو موقع دیں گے جو پورے تعلیمی نظام کو ایک خاص مذہبی فکر کا حامل بنانا چاہتے ہیں اور جنھیں تعلیم کے معیار سے کوئی غرض نہیں ؟
  یہ اور اس طرح کے وہ دیگر تمام سوالات جو ملک کی سماجی و معاشی ترقی میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں، ان پر سنجیدگی سے غور کرنے اور اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کرنے والے ووٹر ہی دراصل اس ملک کی ترقی اور خوشحالی کے ضامن ہوں گے۔ اس فیصلہ کن مرحلہ کو عبور کرنے کیلئے لازم ہے کہ رائے دہندگان حقیقت حال کا مشاہدہ اور تجزیہ عقل کی بنیاد پر کریں نہ کہ صرف جذبات کے سہارے اپنی رائے اور ووٹ کو استعمال کریں۔ 
 زندگی میں جذبہ و عقل کے متوازن استعمال سے کامیابی کی راہیں کھلتی ہیں۔ زندگی کے بعض معاملات میں جذبات کو فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ ایسے معاملات بیشتر فرد کی ذاتی زندگی یا اس کی گھریلو زندگی سے وابستہ ہوتے ہیں لیکن جب بات ملک و معاشرہ کے اجتماعی معاملات و مسائل کی ہو تو ایسے موقع پر جذباتی جوش و خروش اکثر ان حقیقتوں تک رسائی نہیں حاصل ہونے دیتا جو ملک و معاشرہ کی مستقبل سازی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ دراصل الیکشن بھی ان حقیقتوں کا تجزیہ عقلیت پسندی سے کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اس وقت ملک کے جو حالات ہیں وہ اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ سیاست اور معیشت جیسے معاملات میں جذباتیت کو ترجیح دینے والا رویہ بالآخر عوام کی اکثریت کو بے روزگار بنانے، ناقص تعلیم اور غیر اطمینان بخش طبی نظام نیز زندگی کے دیگر بنیادی مسائل کی پیچیدہ ہوتی صورتحال کے درمیان زندگی گزارنے کا سزاوار ہوتا ہے۔ اگر اس تشویش ناک صورتحال سے محفوظ رہنا ہے تو الیکشن میں ووٹ اسی کو دینا چاہئے جو ملک کو درپیش مسائل و معاملات پر منطقی و عقلی دلائل کے ساتھ گفتگو کرے نہ کہ صرف عارضی جذباتی باتوں میں الجھا کر اپنا الو سیدھا کرتا رہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK