ملکی اور عالمی سطح پر رونما ہو نے والے سارے واقعات سے ہمارے نوجوان خصوصاً طلبہ بڑی شدّت سے متاثر ہوتے رہتےہیں۔اب اس لئے بھی یہ ممکن ہو چکا ہے کہ پل پل کی خبردینے والا میڈیا اُن کے ہاتھ میں موجود ہے۔
EPAPER
Updated: October 15, 2024, 5:22 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai
ملکی اور عالمی سطح پر رونما ہو نے والے سارے واقعات سے ہمارے نوجوان خصوصاً طلبہ بڑی شدّت سے متاثر ہوتے رہتےہیں۔اب اس لئے بھی یہ ممکن ہو چکا ہے کہ پل پل کی خبردینے والا میڈیا اُن کے ہاتھ میں موجود ہے۔
ملکی اور عالمی سطح پر رونما ہو نے والے سارے واقعات سے ہمارے نوجوان خصوصاً طلبہ بڑی شدّت سے متاثر ہوتے رہتےہیں۔اب اس لئے بھی یہ ممکن ہو چکا ہے کہ پل پل کی خبردینے والا میڈیا اُن کے ہاتھ میں موجود ہے۔ ہمارے معاشرے میں البتہ ہمارے نوجوانوں کو اِن سارے معاملات میں صرف جذباتی اورجو شیلا بنایا جاتا ہے۔ نوجوانوں کے اس کالم میں ہم اس ضمن میں منطقی رہنمائی کرنا پسند کریں گے۔
نوجوانو!سائنس، جدیدٹیکنالوجی اور معاشیات اِن اہم محاذوں پر ہماری مسلسل غفلت اور کوتاہی کی ہم ہر ملک بلکہ عالمی سطح پر بڑی بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں۔غزہ پر ہماری مکمل پسپائی کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی ہے۔ آئیے اس کا جائزہ لیں:
(۱) مسلم ممالک کو قدرت نے جو تیل و قدرتی گیس کی شکل میں بیش قیمت خزانوں سے نوازا ہے اُن کو سمندر کی تہہ سے نکالنا اور انھیں محفوظ کرنے کی ٹیکنالوجی سے اکثر مسلم ممالک نابلد ہیں، اسلئے انھیں یورپی اور مغربی ممالک پر منحصر رہنا پڑتا ہے۔
(۲) ان میں سے بیشتر ممالک نے دفاع کی ٹیکنالوجی میں کوئی اہم پیش رفت نہیں کی اسلئے اس فیلڈ میں انہیں امریکہ، برطانیہ فرانس و غیرہ کو اپنا امام بنانا پڑا۔وہ عالمی طاقتیں اُن کے دفاع کیلئے ہتھیار اور میزائیل مہیا کرانے کو تیار تو ہوتے ہیں (آج اسرائیل کے خلاف ایران جو میزائیل استعمال کررہا ہے وہ بھی سپر پاور نے دئیے ہیں)مگر اس کے عوض میں وہ ان ممالک سے تیل اور پیٹرولیم اپنی شرطوں پر حاصل کرتے ہیں۔
(۳)عصری علوم سے غفلت کا نتیجہ یہ ہے کہ میزائیل تخلیق کرنا تو دُور کی بات ہے، چھوٹی موٹی مشنری کیلئے بھی انہیں اُن عالمی طاقتوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے جو مسلم ممالک کی قدرتی دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔
(۴) در اصل قدر ت نے اِن مسلم ممالک کو یہ کب کہا تھا کہ یہ قدرتی وسائل کبھی ختم نہیں ہونے والے ہیں؟تیل کے خزانے کے زعم میں ان مسلم ممالک نے اپنی نئی نسل کوتعلیم اورٹیکنالوجی سے دُور رکھا۔ ہم پیٹرولیم انڈسٹری اور انجینئر نگ کے طلبہ کو بتانا چاہیں گے کہ آج رفتہ رفتہ خلیجی ممالک کی تیل کی عالمی اجارہ داری ختم ہوتی جارہی ہے۔تیل کے ایکسپورٹ میں اُن کا عالمی سطح پر حصہ۲۰؍فیصد تھا جو اَب گھٹ کر محض ۱۲؍فیصدہوگیا ہے۔ اب ٹیکساس، میکسیکو، برازیل اور وینزویلاوغیرہ میںتیل کی ریفائنری کے کام جدید طریقے سے ہورہے ہیں۔
(۵) ان مسلم اکثریتی ممالک کی اپنی کوئی لُغت بننی چاہئے، جس میں ’ت‘ سے تیل کے بجائے ’تعلیم،تنظیم، تعمیر، تہذیب اور تاریخ نویسی‘ درج ہونی چاہئے ۔ اِن ممالک میں سے بیشتر میں اعلیٰ تعلیم کا اپنا کوئی نظم نہیںہے، اسلئے اِن ممالک کے نو جوان مغربی ممالک کی طرف چل پڑتے ہیں۔ اِن میں سے اکثریت کبھی واپس نہیں آتے، یہ سوچ کر کہ اُن کے ملکوں میں واپس جا کر فائدہ کیا ہےجہاں تحقیق وتخلیق کی زیادہ گنجائش نہیں ہے۔ آگے چل کر اُن کی نئی نسلوں کو بھی اعلیٰ تعلیم کے حصول میں رکاوٹیں آنے والی ہیں، اسلئے مسلم ممالک کے وہ نوجوان مغرب اورمغربی تہذیب کے ہوکر رہ جاتے ہیں۔
(۶) تیل سے تعلیم پیدا کرنے میں ناکام ان مسلم ممالک میں بعد از خرابیٔ بسیار لگ بھگ ۱۸۰۰؍ یو نیورسٹیاں قائم ہوئی تو ہیں البتہ کسی بھی یونیورسٹی کو اعلیٰ معیاری اُس وقت کہا جاتا ہے جب ان کے پروفیسر اور محققین کے مقالے عالمی معیار کے تحقیقی مجلّوں میں شائع ہوتے ہیں۔ تیل اور قدرتی خزانے سے لبریز اِن ممالک کے بمشکل ۱۰؍ فیصد اسکالروں کے مقالے عالمی سطح کے رسالوں اور مجلّوں میں شائع ہوتے ہیں۔
(۷) یہ مسلم اکثریتی ممالک اعلیٰ تعلیم میں اس درجے پسماندہ کیوں ہیں؟ جن مغربی ممالک کو کو سے بغیر ہمارے اکابرین کی تقریر و تحریر پوری نہیں ہوتی وہ ممالک اپنی جی ڈی پی ( مجموعی ملکی پیداوار ) کا ۵؍ فیصد تک حصّہ تعلیم کی مد میں خرچ کرتے ہیں جبکہ سارے مسلم ممالک میں صرف ملائیشیا واحد ملک ہے جو اپنی جی ڈی پی کا ایک فیصد حصّہ تعلیم پر خرچ کرتا ہے۔ جی ہاں جس قوم کی آخری کتاب میں پہلا درس ’اقراء‘ کا دیا گیا اُس کی ترجیحات میں وہ لفظ شامل نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تعلیم اورٹیکنالوجی کے علوم کے حصول میں دنیا کے ترقی یافتہ ۲۵؍ فیصد ممالک میں اسرائیل تو شامل ہے البتہ کوئی مسلم ملک نہیں ہے۔
دوستو ! پتہ نہیں کیا وجہ ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ ہماری قوم کو معیشت سے بھی کچھ بیر ہے۔ ہماری مجلسوں، محفلوں میں یا ہمارے نکّڑ و چوپال پر لبنان، شام حتّیٰ کہ صومالیہ پر بھی بات ہوتی ہے البتہ معیشت پر نہیں ہوتی ہے اور ہوتی بھی ہے تو کچھ ٹھوس باتیں نہیں ہوتیں۔ قوم کے اسی مزاج کے پیشنظر اُردو کے قلمکار بھی اس موضوع پر کم کم ہی لکھتے ہیں۔ حالانکہ ہماری قوم کے کئی مسائل کی بڑی وجہ ہے معیشت سے بیزاری یالا تعلقی۔ ہماری اس کو تاہی کی قیمت ہم کتنی صدیوں سے ادا کر رہے ہیں ، اس کیلئے ہم تاریخ کے صفحات کھنگالتے ہیں۔
بچو!آج سے لگ بھگ ۲۷۵؍ برس قبل انگریز جب اس ملک میں بظاہر تجارت اوردراصل اقتدار کیلئےآئے تب انھیں سب سے بڑی مزاحمت کا سامنا بنگال کے نواب سراج الدولہ سے کرنا پڑا تھا۔ اس جنگ میں سراج الدولہ کے پاس ۵۰؍ ہزار پیادے ،۱۸؍ ہزار گھڑ سوار اور ۵۵؍ توپیں تھی، جبکہ انگریز جرنیل رابرٹ کلائیو کے پاس صرف ۵۰۰؍ گورے اور۲۵۰۰؍ہندوستانی تھے۔ یہ تو کوئی مقابلہ نہیں ہوا۔ پھر نواب کا معاملہ بگڑا کیسے؟ ایک شخص کی وجہ سے جس کا نام تھا میر جعفر۔ اس کی سازش سے سراج الدولہ کی انتہائی طاقتور فوج ہارگئی اور اس بار کی بناء پر اگلے۱۹۰؍ برسوں تک انگریزوں نے برِّ صغیر پر راج کیا۔
تاریخ کے صفحات پر مسلمانوں کے زوال کی کہانی یہیں پر ختم ہوتی ہے البتہ تحقیق کرنے پر معلوم یہ ہوتا ہے کہ آخر میر جعفر کو غداری کرنے کیلئے فوجیوں نے ساتھ کیوں دیا ؟ وجہ یہ تھی نواب سراج الدولہ کا خزانہ خالی ہو چکا تھا اور فوجیوں کو کئی مہینوں تک تنخواہیں نہیں ملی تھیں۔ میر جعفر اورکلائیو نے ان فوجیوں کو مالی امداد اور وظیفے کا وعدہ کیا۔ بچّو!اگر معیشت بگڑجائے تو سلطنتیں بھی اُکھڑ جاتی ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: سوشل میڈیا راؤنڈ اَپ : ’’گودی میڈیا ہمیشہ نفرت پھیلانے کا کام کرتا ہے‘‘
معیشت اور معاشرت کا اٹوٹ رشتہ ہوتا ہے، ایک بگڑتی ہے تو دوسری متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتی۔ کووِڈ کے دوران ہم نے فٹ پاتھ پر ایک لڑکے کو دیکھا تو دھکالگا، وہ لڑکا بھی جھینپ گیا کیوں کہ وہ فٹ پاتھ پر افطاری کا سامان بیچ رہاتھا۔ وہ ڈِگری انجینئرنگ کا آخری سال کا طالب علم تھا۔ اُسے ہمارے ٹرسٹ سے فیس کیلئے ہر سال امداد تو ملتی تھی البتہ پھر وہ گھر کے حالات کو جھیل نہیں پایا۔ روٹی اور کتاب کے مقابلے میں روٹی جیت گئی۔ کہنے لگا کہ گرچہ پولیس اجازت نہیں دیتی۔ روز دو گھنٹے یہ دکان لگاتا ہوں ، آپ میرے لئے دعا کرنا۔ میں نے اُسے کہا میں دعا کروں گا مگر اس دکان کی برکت کیلئے نہیں بلکہ اسلئے کہ تم دوبارہ کالج سے جُڑ جاؤ۔ پہلے، دوسرے سال کا نہیں انجینئر نگ کے آخری سال کا طالب علم کہنے لگا ’’سر ابھی کچھ فائدہ نہیں، گھر میں سخت پریشانی ہے، اب سب کالج کے نام ہی سے چڑتے ہیں۔ سوچتا ہوں چھوٹے موٹے بزنس ہی سے گھر کو سنبھالوں۔‘‘ کارپوریٹ بزنس کا خواب لے کر انجینئر نگ کالج میں داخلہ لینے والا طالب علم اب فٹ پاتھ پر کباب بیچنے کو کا روبار سمجھ رہا ہے۔
زندگی کی منصوبہ بندی کیلئے ہم اپنے نو جوانوں سے پہلے دریافت کرتے تھے کہ وہ کیا کریں گے؟ دوسری قوم کے بیشتر نو جوان جواب دیتے ہیں کہ ’’پہلے گریجویشن، پھر پوسٹ گریجویشن اور اس کے بعد ریسرچ۔‘‘ تمام تر بیداری کی کوششوں کے باوجود ہماری قوم کا نوجوان کہتا ہے (یا اُس کے والدین کہلواتے ہیں): اوّل : چولہا، دوم: جہیز اور سوم: دعوت ولیمہ۔ اِن ’روایات‘سے ہٹ کر سوچنے کا وقت اب آ چکا ہے۔