سوشل میڈیا پر فتنہ پروری اور نفرت انگیزی کے معاملات آئے دن بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ اِدھر آپ اسکرولنگ کریں اور اُدھر کوئی نہ کوئی ناخوشگوار پوسٹ سامنے آجاتی ہے۔
EPAPER
Updated: September 30, 2024, 3:40 PM IST | Azhar Mirza | Mumbai
سوشل میڈیا پر فتنہ پروری اور نفرت انگیزی کے معاملات آئے دن بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ اِدھر آپ اسکرولنگ کریں اور اُدھر کوئی نہ کوئی ناخوشگوار پوسٹ سامنے آجاتی ہے۔
سوشل میڈیا پر فتنہ پروری اور نفرت انگیزی کے معاملات آئے دن بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ اِدھر آپ اسکرولنگ کریں اور اُدھر کوئی نہ کوئی ناخوشگوار پوسٹ سامنے آجاتی ہے۔ معاملہ چاہے جو بھی ہونفرتی چنٹو اسے فرقہ ورانہ رنگ دے ہی دیتے ہیں۔ بنگلورکی مہالکشمی نامی دوشیزہ کے سنسنی خیز قتل معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ اسے مکتی رنجن نامی شخص نے قتل کیا اور نام’اشرف‘ کا اچھالا گیا۔ سوشل میڈیا پر نفرتی چنٹوؤں نےاس پر خوب زہر اگلا، ایک بدنام زمانہ ٹی وی اینکر نے تو جھوٹی خبر بھی چلائی۔ غرضیکہ مسلمانوں کیخلاف ژاژ خائی (بکواس باتیں ) کے انبار لگادئیے گئے۔ خیرسے حقیقت بروقت سامنے آئی اور پولیس نے بتایا کہ اس بہیمانہ واردات کا ملزم مکتی رنجن تھا جس نے اُدیشہ کے بھدرک میں خودکشی کرلی ہے۔ اس معاملے پر سماجوادی پرہاری نے لکھا کہ ’’امن چوپڑا نے مہالکشمی کے قتل کی واردات پر جو چینل پر بیٹھ کر جھوٹ پھیلایاہے، بغیر کسی ثبوت کے مسلم کا نام بتایا اور پولیس کی رپورٹ میں قاتل رنجن رائے نکلا۔ اس نفرتی کو جیل ہونی چاہئے۔ ‘‘ پون دکشت نے لکھا کہ’’گودی میڈیا ہمیشہ نفرت پھیلانے کا کام کرتا ہے۔ مکتی رنجن رائے نے بنگلور میں مہالکشمی کا بے رحمی سے قتل کیا، لیکن گودی میڈیا مسلمان بتاکر نفرت کا ماحول بنارہا ہے۔ ‘‘ونود کاپڑی نے لکھا کہ ’’نیوز کے نام پر کلنک ہیں یہ لوگ۔ جھوٹی فرضی خبروں بھی نفرت پھیلانے والے ایسے نیچ، بے شرم چینل/اینکر/ایڈیٹر سارے کے سارے جیل میں ہونے چاہئیں۔ پتہ نہیں کہاں ہے این بی ڈی ایس اے، این بی اے، پریس کاؤنسل؟‘‘
یہ بھی پڑھئے:سوشل میڈیا راؤنڈ اَپ :’’جو بیروت میں ہوا وہ کہیں بھی ہوسکتا ہے‘‘
اب بات کرتے ہیں دوناگہانی اموات کی جن کے متعلق سوشل میڈیا پر پچھلے آٹھ دنوں سے کافی کچھ کہا جارہا ہے۔ کام کے دباؤ کے باعث پونے میں اینا سیبسٹیئن نامی خاتون سی اےنے پچھلے دنوں خودکشی کرلی۔ اس کے بعدلکھنؤ میں ایک نجی بینک کی اعلیٰ اہلکار صدف فاطمہ کی دوران ڈیوٹی حرکت قلب بند ہوجانے سے موت ہوگئی۔ مذکورہ بالا دومعاملات کے باعث ملازمت کے میدان میں کام کے بڑھتے دباؤ (ورک لوڈ) اور دفاتر کے’ زہرآلود کام کے ماحول(ٹوگزک ورک کلچر)‘ کے حوالے سے سوشل میڈیا پر بحث چھڑگئی ہے۔ بیشتر صارفین نے ملازمین پر بڑھتے کام کے دباؤکے تئیں تشویش و اندیشوں کا اظہار کیاہے۔ محمد سیف نامی صارف نے لکھا کہ’’اینا کی ناگہانی موت کا معاملہ وقت کی آواز ہے کہ ہر سیکٹر میں موجود زہریلے کام کے ماحول کو ختم کرنے کیلئے اقدامات کئے جائیں، اور صحتمند و متوازن ماحول بنایا جائے۔ ‘‘ جی وشوناتھن نے لکھا کہ ’’مشقت بھرے کام کے شیڈیول کے خلاف ملازمین کے ذریعے مزاحمت ہونی چاہئے، بہت سے ملازمین موٹی تنخواہوں کے چکر میں اس جال میں پھنس جاتے ہیں۔ وہ بھی کیا دن تھے جب ایسے مسائل سے نمٹنے کیلئے اچھے یونین لیڈر ہوا کرتے تھے۔ ‘‘ شیوالیکا پوری نے لکھا کہ ’’ہندوستان میں کام کاج کا ماحول زہرآلود ہے۔ میری سہیلی ایک فیشن اسٹارٹ اپ کمپنی میں پچھلے چار سال سے کام کررہی ہے، کام کے اعتبار سے نہ صرف اس کی تنخواہ کم ہے، بلکہ ہر دن اس سے ’اوورٹائم‘ کام کروایا جاتا ہے، بنا کسی اضافی محنتانے کے، حتیٰ کہ اسے رات کے اوقات میں بھی کام کے سلسلے میں کمپنی سے فون کالز اور پیغامات آجاتے ہیں۔ کیوں ؟‘‘ اویناش کمار جین نے لکھا کہ ’’زہریلے ماحول کو نہ کہنے کا عہد کریں !اگلے پانچ میں آپ کی ترقی کا سلسلہ موخر ہوجائے گا، تنخواہ میں اضافہ کم ہو جائے گا، لیکن اس سے ملک کے بگڑتے ورک کلچرکو ٹھیک کرنے میں مدد ملے گی اور حالات معمول پر آجائیں گے۔ یقین جانئے یہ نہ صرف ہماری نسل کیلئے بلکہ آنے والی نسلوں کیلئے بھی منفعت بخش ہوگا۔ ‘‘
غزہ کے بعد اب لبنان پر اسرائیلی حملے شدید تر ہوتے جارہے ہیں۔ ان حملوں میں جاں بحق ہونیوالوں کی تعداد ۷۰۰؍سے تجاوز کر گئی ہے۔ اب خبر ہے کہ جمعہ کی رات بیروت پر کی جانے والی شدید بمباری میں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ سمیت متعدد کارکنان بھی مارے گئے۔ مشرق وسطیٰ کی یہ دھماکہ خیز صورتحال اور اسرائیلی حملے سوشل میڈیا پرفکر واندیشے بڑھارہے ہیں۔ معصوم جانوں کے اتلاف پر جہاں غم و غصہ ہے، وہیں اسرائیل کی ہٹ دھرمی پر اضطراب بھی دیکھا جارہا ہے۔ پنکج مشرا نے لکھا کہ ’’آج اقوام متحدہ میں نیتن یاہو تقریرکیلئے کھڑے ہوئے تو بیشتر مندوبین اٹھ کر چلے گئے، دیکھتے ہی دیکھتے تین چوتھائی سفیروں نے اس تقریر کا بائیکاٹ کردیا، لگ بھگ خالی ایوان کو یاہو نے مخاطب کیا۔ صرف امریکہ کے دم پر اسرائیل، عالمی برادری میں ہے ورنہ اب تک وہ اپارتھائیڈ اسٹیٹ قرار پاجاتا۔ ‘‘
جاتے جاتے گجرات کا ایک معاملہ سنتے جائیں، جسے ایکس پر کافی شیئر کیا گیا۔ یہ حادثہ جمعرات کی رات کو پیش آیا۔ تمل ناڈو کے ہندوزائرین سے بھری بس بھاؤنگر کی مالیشری ندی کے سیلابی پانی میں پھنس گئی تھی۔ یہ لوگ مہادیو مندر سے سومناتھ جارہے تھے۔ مقامی مسلمانوں کو حادثے کا علم ہوا تو وہ فوراً مدد کو پہنچے۔ بہت سے لوگ چھوٹا ٹرک لے کر سیلابی پانی میں اترگئے۔ بس کے شیشے توڑکر مسافروں کو نکالا۔ لیکن بدقسمتی سے یہ چھوٹا ٹرک بھی پھنس گیا۔ انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ تقریباً آٹھ گھنٹے تک ریسکیو آپریشن چلا اور ان لوگوں نےاین ڈی آرایف کے ساتھ مل کر مسافروں کو بچاکر ہی دم لیا۔ اس حادثے کی رپورٹنگ ذرائع ابلاغ نےکی لیکن مسلمانوں کی کوششوں سے بیشتر نے چشم پوشی کی۔ بھلا ہولوکل میڈیا چینل ’نوجیون نیوز‘ کا جس کی رپورٹ منظر عام پر آئی اور بھائی چارے و انسانیت نوازی کا یہ واقعہ دنیا کو معلوم ہوا۔ یہ ویڈیو آلٹ نیو زکے محمد زبیر سمیت متعدد صارفین نے شیئر کیا۔ نِیا ارورہ نامی صارف نے لکھا کہ’’موربی حادثے میں بھی مسلم نوجوانوں نے ایسے ہی کئی جانیں بچائی تھیں، لیکن لوگ پھر بھی نفرت، جھوٹ اور بدعنوانی کو ووٹ دیتے ہیں۔ ‘‘امریندر کمار نے لکھا کہ ’’یہ ہے ہمارے ملک کی اصل تصویر‘‘بسب سنہا نے تبصرہ کیا کہ ’’امید اب بھی باقی ہے، ابھی سب کچھ ختم نہیں ہوا‘‘بین لیتا پنٹو نے طویل تبصرہ کیا ’’اتنا سب کچھ کرنے کے بعد بھی انہیں بدلے میں کیا ملتا ہے؟ جبرواستبداد، نفرت، بدنامی، الزام...‘‘